تحریک انصاف پر پابندی لگانے کا فیصلہ
شہباز شریف کی کابینہ نے کچھ اہم فیصلے کئے ہیں،بلکہ بہت ہی اہم اور تاریخ ساز فیصلے کئے ہیں تاریخ ساز اِس لئے کہ ان فیصلوں پر عملدرآمد کی صورت میں سیاست پر فوری طور پر بڑے سنجیدہ قسم کے اثرات مرتب ہونے جا رہے ہیں،جس طرح 2011ء میں عمران خان پراجیکٹ لانچ کیا گیا تو اس سے ہماری سیاست پر بہت ہی سنجیدہ اور دور رس نتائج مرتب ہونا شروع ہو گئے تھے۔عمران خان نے داعش کے ابوبکر البغدادی کی طرح سیاسی اشرافیہ پر تنقید شروع کی، ویسے تو وہ پہلے بھی ایسے ہی شور و غوغا جاری رکھے ہوئے تھے،لیکن2011ء میں انہیں ریاستی سرپرستی حاصل ہو گئی تو ان کا شور و غوغا ایک تحریک کی شکل میں چل نکلا، سیاست میں طلاطم برپا ہونے لگا، 2018ء میں انہیں حکمران بنا دیا گیا یہاں سے پاکستان کی اس بربادی کی ابتداء ہوئی،جو آج2024ء میں ہمیں نظر آ رہی ہے۔
پاکستان کی معاشرت تباہ ہو چکی،نوجوانوں کے ہاتھ میں سوشل میڈیا کا وہ ہتھیار آ چکا ہے جسے اندھا دھند چلانے کی عمران خان کی تربیت نے اسے تباہ کن اور مہلک ترین شکل دے دی ہے یہ اسی تربیت اور ہتھیار کے استعمال کا کمال ہے کہ پاکستان سانحہ9مئی کا شکار ہوا۔عمران خان کے44ماہی دورِ حکمرانی میں قومی معیشت کا بیڑہ غرق ہی نہیں کیا گیا، بلکہ بھٹہ ہی بٹھا دیا گیا۔سماجی افتراق و انتشار نے سیاست کو بھی پراگندہ کر دیا،نفرت و تعصب معاشرے میں سرایت کر چکا ہے معاشرہ تقسیم در تقسیم کا شکار ہو چکا ہے یہ تقسیم صرف معاشرے اور سیاست میں ہی نہیں سرکاری و آئینی اداروں تک سرایت کر چکی ہے، نفرت انگیزی عام ہے،تحریک انصاف کی منفی اور نفرت انگیز ذہن سازی کا نتیجہ 9مئی کا سانحہ تھا جس میں جو ہوا وہ ہر گز ہر گز نہیں ہونا چاہئے تھا۔ بہرحال پاکستان کو ایسا سیاہ دن بھی دیکھنا پڑا،اس کے بعد بھی تحریک انصاف منفی اور نفرت انگیز سیاسی روش پر گامزن رہی، ملک معاشی بریک اپ کے دہانے تک پہنچا ہوا ہے تھا، جسے جیسے تیسے الٹ پلٹ کر بچانے کی کوشش جاری ہے اس میں عوام کا معاشی بریک اپ تو یقینی ہے، بہرحال حالات سنبھلتے سنبھلتے ہی سنبھلیں گے۔ معاشی استحکام کے لئے سیاسی سیاسی استحکام بنیادی ضرورت ہے ہمارے ہاں جو سیاسی نظام سردست بروئے کار ہے اس پر تنقید کے نشتر چلائے جا رہے ہیں خصوصی نشستوں کے بارے میں سنی کونسل کی درخواست پر سپریم کورٹ نے جو ”تاریخی فیصلہ“ دیا، اس سے جاری سیاسی نظام کو دھچکا لگنے کا امکان پیدا ہو گیا ہے اس فیصلے سے تحریک انصاف کو توانائی ملی ہے،کیونکہ تحریک انصاف تخریبی انداز میں چل رہی ہے اور جاری نظام بجٹ 2024ء کے بعد اپنی وقعت کھو رہا ہے ایسے میں حکومت نے تحریک انصاف پر پابندی لگانے کا اعلان کر کے ایک نیا دھماکہ کر دیا ہے، غیر آئینی طریقے سے قائم مخلوط اتحادی حکومت اپنی وقعت کھونے لگتی ہے۔سپریم کورٹ نے تحریک انصاف کو خصوصی نشستیں دینے کے فیصلے کے بعد تحریک انصاف سنگل لارجسٹ پارٹی بن جائے گی۔سپریم کورٹ کے فیصلے نے انتخابی اور حکومتی معاملات کو ایک بار پھر 8فروری،2024ء کی پوزیشن پر لاکھڑا کیا ہے تحریک انصاف ایک لارجسٹ پارٹی بن جائے گی،پھر حکومت سازی کا پہلا حق اس کا ہو گا۔موجودہ شہباز شریف حکومت پیپلزپارٹی کے سہارے قائم ہے،ہمیں معلوم ہے کہ ن لیگ اس کی اولین ترجیح نہیں تھی اور اگر پوزیشن ایک بار پھر آٹھ فروری کی پوزیشن پر چلی جاتی ہے تو پیپلزپارٹی، پی ٹی آئی کے ساتھ مل سکتی ہے،کیونکہ پیپلزپارٹی ن لیگ سے ہر گز ہر گز خوش نہیں ہے۔ پیپلزپارٹی کی قیادت پی ٹی آئی کے ساتھ ملنے کی خواہش کا اظہار پہلے ہی کر چکی ہے اس کے لئے اس نے عملی کاوشیں بھی کی تھیں یہ الگ بات ہے کہ پی ٹی آئی نے اسے گھاس نہیں ڈالی تھی ویسے اب بھی امکان یہی ہے کہ پی ٹی آئی پیپلزپارٹی کو گھاس نہیں ڈالے گی،لیکن انہیں ذلیل و رسوا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑے گی۔ پیپلزپارٹی نے (ن) لیگ کو حکومت سازی میں مدد فراہم کر کے بہت سی آئینی پوزیشنیں حاصل کر رکھی ہیں جیسے زرداری صاحب نے صدارت حاصل کر لی ہے۔اصولی طور پر جن ووٹوں نے انہیں صدر منتخب کیا گیا تھا وہ اب غیر شفاف ثابت ہو چکے ہیں،یعنی ان میں سے کچھ ہی سہی، ووٹ ان کے نہیں تھے، ایسا ہی شہباز شریف کا وزیراعظم بننا ہے سپیکر قومی اسمبلی کی بھی یہی پوزیشن ہے۔ ووٹ کے ذریعے قائم کئے جانے والا سیاسی نظام، اپنی شفافیت کھو چکا ہے اس کی اخلاقی حیثیت ہی نہیں،بلکہ قانونی پوزیشن بھی ختم ہو گئی ہے ایسے میں ن لیگی حکومت نے تحریک انصاف پر پابندی لگا کر معاملات کو سہارا دینے کی کوشش کی ہے۔پاکستان کی سیاسی و آئینی تاریخ اور جاری صورتحال پر نظر رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے ن لیگ کا یہ وار کارگر ثابت نہیں ہو گا۔حد تو یہ ہے کہ ن لیگ کے اتحادی بھی اس کے ساتھ نہیں ہیں۔پیپلزپارٹی کے بہت سے قائدین اس اقدام کی مخالفت کر چکے ہیں۔ایم کیو ایم نے بتایا ہے کہ ہمیں اعتماد میں نہیں لیا گیا کہ اے این پی بھی اس اقدام کے حق میں نہیں ہے۔ ن لیگ کے اندر بھی اس حوالے سے مکمل یکسوئی نہیں پائی جاتی ،امریکہ نے بھی حکومتی اعلان پر تشویش کا اظہار کیا ہے، سب سے اہم ایسا قدم اٹھانے کا وقت ہے ایسے وقت میں جب آئی ایم ایف کے ساتھ سات ارب ڈالر کے قرض کے لئے سٹاف لیول معاہدہ ہو چکا ہے اور ابھی اس کے بورڈ آف ڈائریکٹر سے حتمی منظوری ہونا باقی ہے،ایسا قدم اٹھانے کا اعلان کرنا خطرناک ثابت ہو سکتا ہے اگر آئی ایم ایف نے معاہدے کی منظوری میں تاخیر کر دی تو پھر کیا ہو گا۔ہماری نازک معیشت کا کیا بنے گا؟ یہ ایسے معاملات ہیں، جن پر سنجیدگی سے غور کرنا ضروری تھا ممکن ہے حکومت نے ایسا کیا ہو کیونکہ شہباز شریف اور ان کی ٹیم منجھے ہوئے تجربہ کار سیاستدانوں اور ماہرین پر مشتمل ہے، لیکن ایسے لگتا ہے کہ کہیں اور معاملات طے پا رہے ہیں جہاں ہم سے زیادہ ذہن اور گہری معلومات رکھنے والے سنجیدہ فکر لوگ براجمان ہیں۔انہوں نے ضروری سمجھا ہو گا کہ معاملات کو درست نہج پر رکھنے اور آگے بڑھانے کے لئے رکاوٹوں کو بالقوت دور کیا جائے اس لئے پابندی کا فیصلہ کیا گیا، ویسے سیاسی جماعتوں پر پابندی کا حالیہ حکومتی فیصلہ کوئی انہونی بات نہیں ہے ایسا1954ء سے ہوتا رہا ہے ایسا کرنے میں فوجی ڈکٹیٹر جنرل ایوب خان ہوں یا جنرل یحییٰ، جمہوری قائد ہوں جیسے ذوالفقار علی بھٹو، سب ہی کسی نہ کسی پارٹی پر پابندی لگاتے رہے اور اسے آئینی بھی کہتے رہے ویسے1973ء کے آئین میں ایسا آپشن موجود بھی ہے جس کا ذکر حکومتی ترجمان نے اپنی پریس کانفرنس میں بھی کیا ہے۔اب آئین کی تشریح کا حق سپریم کورٹ کے پاس ہے حکومت سپریم کورٹ کے پاس ریفرنس لانے کا عندیہ دے چکی ہے دیکھتے ہیں کیا نتیجہ نکلتا ہے۔