دنیا میں تہلکہ مچانے والا مقبول ترین ناول۔۔۔قسط نمبر62
وسیع و عریض محل کی راہداریوں پر خدام کی چہل پہل بکھرے موتیوں کا منظر پیش کررہی تھی۔ ان کے چہروں پر روشنی، لباس میں خوبصورتی، گفتار میں دلکشی اور انداز میں مستعدی تھی۔ ان خدام کی منزل محل کے ایک کونے پر بنا وسیع و عریض باغ تھا۔ یہ باغ کیا تھا سبزے، پھولوں اور درختوں کا ایک ایسا گلدستہ تھا جس نے اپنے حسن سے چمن بندی کی ہر انتہا کو مات دے دی تھی۔ ہزارہا رنگ اس باغ میں بکھرے ہوئے تھے۔ صرف ایک سبز رنگ نے اتنی مختلف شکلوں میں اپنا ظہور کیا تھا کہ انھیں گنا نہ جاسکتا تھا۔ بلند و بالا درخت اور ان پر لگے ان گنت اقسام کے پھل، ہر درخت پر مختلف رنگ کے پتے، ہزارہا طرح کے پودے جن پر لگے ہوئے رنگ برنگے پھول و کلیاں۔ پھر یہ سب کچھ بے ترتیب نہ تھا بلکہ اصل حسن اس ترتیب میں ہی تھا جس کے ساتھ ان درختوں، پودوں اور پھولوں کو منظم کیا گیا تھا۔ یہ باغ کسی شاعر کی دل آویز غزل کی طرح تھا جس میں منتشر الفاظ کو وزن، قافیے اور ردیف کے نظم میں پروکر ایک شاہکار تخلیق کیا جاتا ہے۔ اس حسین و جمیل باغ کے حسن میں وہ راستے اور روشیں قیامت ڈھارہی تھیں جو یاقوت، موتی، زمرد، نیلم اور فیروزے جیسے قیمتی پتھروں کے سنگ ریزوں سے بنائی گئی تھیں۔ اس پر مزید وہ نہریں تھیں جو باغ کے درمیان بہتی ہوئی آنکھوں کو احساس لطافت اور ان کے بہنے کی آواز کانوں کو سرور بخش رہی تھی۔ ان نہروں میں سے کسی میں سفید دودھ، کسی میں جھاگ اڑاتا بے آمیز پانی، کسی میں سرخ ارغوانی شراب اور کسی میں بہتے شہد کی موجیں رواں تھیں۔ ہر نہر سے ایک منفرد نوعیت کی خوشبو اٹھ رہی تھی جو قریب جانے والے کو اپنے سحر میں جکڑ لیتی۔ نہروں کے ساتھ اور درختوں کے نیچے جگہ جگہ بیٹھنے والوں کے لیے ہیروں اور جواہرات سے جڑے ہوئے تخت، شاہانہ نشستیں، دبیز قالین اور آرام دہ تکیے رکھے ہوئے تھے۔
دنیا میں تہلکہ مچانے والا مقبول ترین ناول۔۔۔قسط نمبر61 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
خوبصورت روشوں، دلکش نہروں، خوش رنگ پھولوں، خوشنما پتوں اور خوش ذائقہ پھلوں کا نذرانہ پیش کرتا ہوا یہ باغ چاروں طرف سے کھلا ہوا تھا۔ یہاں گہری مگر خوشگوار خنکی چھائی ہوئی تھی۔ کبھی کبھی ہوا کا کوئی جھونکا اٹھتا اور کسی نئی خوشبو سے اس خنکی کو معطر کردیتا۔ باغ سے دور تک کا نظارہ بالکل صاف نظر آرہا تھا۔ باہر جو اندھیرا ہر منظر کو نگل رہا تھا یہاں حیرت انگیز طور پر اس کا کوئی اثر محسوس نہ ہوتا تھا۔ دور تک ایک عظیم الشان شہر کی بلند عمارات اور ان میں جگمگاتی روشنیاں تھیں جو رات میں چمکتے ہوئے جگنوؤں کا منظر پیش کررہی تھیں۔ آسمان پر بھی چھوٹے چھوٹے تارے جگمگارہے تھے جن کی دودھیا روشنی نے سیاہ آسمان کو اور حسین بنادیا تھا۔ ایک سمت میں ایک جگمگاتی ہوئی روشنی تھی جو آہستہ آہستہ حرکت کرتے ہوئے محل کی سمت بڑھ رہی تھی۔ مجھے معلوم ہوگیا کہ یہ دراصل میری ہی سواری تھی جسے خد اکی قدرت سے اندر بیٹھا ہونے کے باوجود میں باہر سے محل کی طرف بڑھتا ہوا دیکھ رہا تھا۔
باغ کے ایک حصے میں میں نے صالح کو بیٹھے ہوئے دیکھا اور دل میں سوچا کہ موصوف مجھ سے پہلے ہی یہاں پہنچ چکے ہیں۔ وہ جس جگہ بیٹھا ہوا تھا وہ غالباً باغ کا خوبصورت ترین حصہ تھا۔ اس کے اردگرد کا فرش شفاف شیشے کی طرح تھا۔ فرش اتنا شفاف تھا کہ دور تک نیچے کا منظر صاف نظر آرہا تھا۔ فرش کے نیچے ایک ڈھلتی ہوئی حسین شام کا منظر تھا جس میں سرسبز گھاس اور رنگین پھولوں سے ڈھکے میدان اور ان کے بیچ میں بہتے دریا انتہائی خوش منظر نظارہ پیش کررہے تھے۔
یہاں سے نظر نیچے دوڑانے پر ایک حسین شام نظر آتی تو اردگرد ایک مہکتی اور چمکتی ہوئی شب کا منظر تھا۔ نیچے اگر دریا بہہ رہے تھے تو اوپر درختوں کی پھلوں سے لدی ڈالیاں تھیں جو اشارہ پاکر نیچے آنے اور من پسند میووں کا نذرانہ پیش کرنے کے لیے بے قرار تھیں۔ کچھ خدام ایک کونے پر پرندوں اور جانوروں کا گوشت سلگتی انگیٹھیوں پر بھون رہے تھے۔ ان سے اٹھنے والی اشتہا انگیز خوشبو اس لذت اور ذائقے کا اعلانِ عام تھی جو کھانے والوں کی بھوک کو کبھی بجھنے نہیں دیتی تھی۔ ساتھ ہی شیشے سے زیادہ شفاف مگر چاندی کے بنے ہوئے جام و صبو اور پیالہ و ساغر بہت نفاست اور خوبصورتی سے رکھے ہوئے تھے۔۔۔ اس انتظار میں کہ محفل گرم ہو اور وہ ساقی گری کی خدمت سے اپنے مالک کے ذوق طلب کی تسکین کریں۔
میں یہ مناظر دیکھنے میں محو تھا اور مجھے احساس ہورہا تھا کہ یہ سب کچھ میرے لیے اجنبی نہیں ہے۔ مجھے یاد آیا کہ میں برزخ کی زندگی میں ان مناظر کو دیکھ چکا تھا۔ اسی اثنا میں مجھے محسوس ہوا کہ سواری کی رفتار دھیمی ہورہی ہے۔ میں نے اشارہ کیا اور اسکرین غائب ہوگئی۔ میری سواری منزل مقصود پر پہنچ رہی تھی۔ بلندی سے یہ جگمگاتا ہوا محل اتنا حسین لگ رہا تھا کہ میرا دل چاہا کہ میں یہاں ٹھہر کر یہ منظر دیکھتا رہوں۔ اس منظر سے لطف اندوز ہونے کے لیے میں نے محل کے اطراف میں دو تین چکر لگائے۔ پھر مجھے خیال آیا کہ صالح نیچے میرا منتظر ہے۔ اس لیے میں نے اترنے کا فیصلہ کیا۔ میری یہ سواری یا شیش محل اسی جگہ دھیرے سے اترگیا جہاں صالح موجود تھا۔
میں باہر نکلا تو صالح نے ایک مسرت آمیزہنسی کے ساتھ میرا استقبال کیا اور بولا:
’’میں یہ سمجھ رہا تھا کہ تم اسے عرش سمجھ کر اس کا طواف کررہے ہو۔ اچھا ہوا تم نے سات چکر نہیں لگائے۔‘‘
اس کے دلچسپ تبصرے پر میں خود بھی اس کی ہنسی میں شریک ہوکر اس سے بغلگیر ہوگیا۔ پھر وہ مجھ سے علیحدہ ہوتے ہوئے بولا:
’’تم پہلے اپنے محل کا معائنہ کرو گے یا کھانے پینے کا ارادہ ہے؟‘‘
’’میں تو اس رہائش گاہ کے حسن سے مبہوت ہوکر رہ گیا ہوں۔ میں سوچ بھی نہیں سکتا کہ خوبصورتی اس طرح بھی تخلیق کی جاسکتی ہے۔‘‘
’’عبداللہ! یہ تو صرف آغاز ہے۔ اس وقت سے لے کر دربار والے دن تک جو کچھ بھی تم دیکھو گے قرآن اس سب کو ’نزل ‘یعنی ابتدائی مہمانی کا سر و سامان کہتا ہے۔ جو کچھ اس کے بعد ملے گا وہ تو نہ کسی کان نے سنا، نہ کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ کسی دل پر کبھی اس کا خیال گزرا ہے۔‘‘
’’تم ٹھیک کہتے ہو۔ یہ باتیں قرآن و حدیث میں بیان ہوئی تھیں، مگر جنت اس سے مختلف ہے جو نقشہ قرآن مجید میں بیان ہوا ہے۔ میرا مطلب ہے کہ یہ اس بیان سے کہیں زیادہ خوبصورت جگہ ہے۔‘‘
’’اس کا سبب یہ ہے کہ جنت کا قرآن میں ذکر نزول قرآن کے وقت اہل عرب کے ذہنوں میں پائے جانے والے عیش و عشرت کے اعلیٰ نمونے کے پس منظر میں ہوا ہے۔ یعنی جن چیزوں کو اہل عرب زیادہ بڑی نعمت سمجھتے تھے، اسی کو بیان کردیا گیا۔ وہ آدمی بے وقوف ہوگا جو جنت کو صرف انھی تک محدود سمجھے گا۔‘‘
’’تم صحیح کہتے ہو، زمانۂ نزولِ قرآن کے عرب تو شاید ان بہت سی نعمتوں کا اندازہ بھی نہ کرسکتے تھے جو میرے زمانے یعنی انفارمیشن ایج میں ایجاد ہوچکی تھیں۔ قرآن مجید نے ان عربوں کی رعایت سے زرعی دور کی رفاہیت اور عیش و عشرت کا نقشہ کھینچا تھا۔ لیکن بھائی جس سواری میں سوار ہوکر میں آیا ہوں، اس نے تو میرے تخیل کو بھی شکست دے دی۔‘‘
’’اس طرح کی بہت سی چیزیں تم ابھی اور دیکھو گے۔ خیر یہ بتاؤاب کیا ارادہ ہے؟‘‘
میں اس کی بات سنی ان سنی کرتے ہوئے اردگرد پھیلے ہوئے حسین ماحول میں کھوگیا۔ میں ایک ایک چیز اور ایک ایک منظر کو اپنی نگاہوں میں سمیٹ لینا چاہتا تھا۔ صالح نے میری محویت کو دیکھا تو شرارت آمیز مسکراہٹ کے ساتھ کہنے لگا:
’’تم غالباً حوروں کو ڈھونڈ رہے ہو۔ وہ تمھارا استقبال کرنے باہر آئی تھیں، اب سب اپنی رہائش گاہوں میں لوٹ گئی ہیں۔ البتہ تم چاہو تو۔۔۔‘‘
میں نے اسے جملہ پورا کرنے کا موقع دیے بغیر پوری سنجیدگی سے جواب دیا:
’’میرے زمانے میں انسانیت کے دو امام ہوا کرتے تھے۔ ایک امام کارل مارکس جو پیٹ کو زندگی کی اصل بتاتے تھے اور دوسرے امام فرائڈ جو۔۔۔‘‘
میں جملہ ادھورا چھوڑ کر لمحے بھر کے لیے رکا جس پر صالح نے ایک زوردار قہقہ لگایا۔ میں نے بھنے ہوئے گوشت کی اشتہا انگیز خوشبو کو سونگھتے ہوئے کہا:
’’میں سردست امام کارل مارس کی پیروی کا ارادہ رکھتا ہوں۔‘‘
(جاری ہے، اگلی قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں)
(ابویحییٰ کی تصنیف ’’جب زندگی شروع ہوگی‘‘ دور جدید میں اردو زبان کی سب زیادہ پڑھی جانے والی کتاب بن چکی ہے۔ کئی ملکی اور غیر ملکی زبانوں میں اس کتاب کے تراجم ہوچکے ہیں۔ابو یحییٰ نے علوم اسلامیہ اور کمپیوٹر سائنس میں فرسٹ کلاس فرسٹ پوزیشن کے ساتھ آنرز اور ماسٹرز کی ڈگریاں حاصل کی ہیں جبکہ ان کا ایم فل سوشل سائنسز میں ہے۔ ابویحییٰ نے درجن سے اوپر مختصر تصانیف اور اصلاحی کتابچے بھی لکھے اور سفر نامے بھی جو اپنی افادیت کے باعث مقبولیت حاصل کرچکے ہیں ۔ پچھلے پندرہ برسوں سے وہ قرآن مجید پر ایک تحقیقی کام کررہے ہیں جس کا مقصد قرآن مجید کے آفاقی پیغام، استدلال، مطالبات کو منظم و مرتب انداز میں پیش کرنا ہے۔ ان سے براہ راست رابطے کے لیے ان کے ای میل abuyahya267@gmail.com پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔)