مسلمان کا مقام علامہ اقبالؒ کی نظر میں
ڈاکٹر عبدالسمیع
ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ ایک بہت بلند مرتبت انسان تھے۔ ان کے کردار کی بہت سی خوبیوں میں سے ایک خوبی یہ بھی تھی کہ وہ اسلام کے سچے پرستار تھے۔ مسلمانوں کے ہمدرد اور بہی خواہ تھے۔ چنانچہ ان کے کلام کا ایک بہت بڑا حصہ اسلام اور مسلمان کے متعلق ہے جس کا مقصد مسلمانوں کو ان کی کھوئی ہوئی عظمت یاد دلانا اور اس کو دوبارہ حاصل کرنا ہے۔ مسلمانوں کو مختلف اصولوں اور پیرایوں میں آپ نے خطاب کیا ہے‘ اُن کی بانگ درا نے مسلمانوں کو غفلت کی نیند سے بیدار کیا۔ نالہ نیم شئ نے مردہ قلوب کو جھنجھوڑا اور زندگی کی روح پھونکی۔ ضرب کلیم نے دلوں کے جامد بتوں کو توڑ ڈالا۔
دوسرے اُردو شعرا کے مقابلہ میں علامہ اقبال کے ہاں ہمیں ان کا ذہنی ارتقاء بڑی صفائی کے ساتھ نظر آتا ہے۔ سیالکوٹ اور لاہور کے سبزہ زاروں کا پروردہ مشرقی شاعری کا یہ پیغامبر بوٹے گل اور نغمہ بلبل سے جیسے جیسے روشناس ہوتا گیا ویسے ویسے ہی عالم حقائق اس کے سامنے نکھرتے چلے گئے۔ جیسے جیسے قانون فطرت اور حسین کائنات کے راز منکشف ہوتے گئے ایسے ہی ان کا ذہن بھی ان کو قبول کرنے کے لیے کھلتا رہا اور آخر ارتقا کے مختلف مراحل طے کرنے کے بعد وہ وقت بھی آیا جب مشرقی فلسفہ کے اس ترجمان نے کیمبرج یونیورسٹی کے پروفیسر نکلسن سے بھی خراج تحسین حاصل کیا۔
آج ہندوستان کے مسلمان شاعروں میں اقبال پہاڑ پر کھڑے ہیں اور تنہا نغمہ سرائی کر رہے ہیں۔
علامہ اقبالؒ مسلمانوں کی درماندہ حالت پر غور کرتے ہیں اور نتیجہ نکالتے ہیں کہ مسلمانوں کے زوال کا ایک سبب یہ ہے کہ مسلمانوں نے خود اپنے آپ کو اپنی سیرت وکردار کو لٹا دیا ہے۔ غلامی اور محکومی کی زندگی کے عادی ہو گئے ہیں۔ اپنے کردار کی خوبیوں سے اس قدر دور ہوئے کہ خود اپنی کتاب سے بے بہرہ ہو گئے اور اسے ناقص سمجھنے لگے اس لیے کہ یہ ان کو غلامی کے طریقے نہیں سکھاتی۔
علامہ اقبالؒ کا دل درد انسانیت سے معمور تھا‘ مسلمانوں کی پس ماندہ حالت سے اقبالؒ کا دل تڑپ اُٹھتا تھا۔ چنانچہ کئی بار بارگاہ ایزدی میں اپنی قوم کی حالت پیش کی کبھی دعائیں مانگیں اور کبھی شکایت بھی کی اور پھر شکریہ بھی ادا کیا۔
میں بندۂ ناداں ہوں‘ مگر شکر ہے تیرا
رکھتا ہوں نہاں خانۂ لاہوت سے پیوند
اک ولولۂ تازہ دیا میں نے دلوں کو
لاہور سے تا خاک بخاریٰ وسمرقند
تاثیر ہے یہ میرے نفس کی کہ خزاں میں
مرغانِ سحر خواں مری صحبت میں ہیں خورسند
لیکن مجھے پیدا کیا اس دیس میں تو نے
جس دیس کے بندے‘ ہیں غلامی پہ رضا مند
اس کائنات کی تمام مخلوقات پر انسان کو بزرگی بخشی گئی ہے۔ انسان کے کردار اور اس کے وجود میں لانے والی قوت خود اس کے جذبات اور تخیل ہوتے ہیں۔ جذبات کو اعلیٰ تخیلات اور بلند افکار کے تابع کرنے کا نام دراصل تربیت ہے کیونکہ جب افکار اور تخیل پختہ ہو جاتے ہیں تو اعمال کی صورت میں ظہور پذیر ہوتے ہیں اور جب عمل بار بار کیا جاتا ہے تو عادت بن جاتی ہے۔ عادتوں ہی سے انسان کا کردار یا سیرت بنتے ہیں۔ چنانچہ اقبال مرحوم نے ہمیشہ عمل پر زور دیا اور مسلمانوں کے زوال کا ایک سبب یہی بتایا کہ وہ اعمال سے گریز کرنے لگے ہیں۔ جب کوئی قوم عمل سے جی چراتی ہے تو اس کی قسمت کا ستارہ ہمیشہ ڈوب جایا کرتا ہے۔
یہی نکتہ اقبالؒ نے مندرجہ ذیل اشعار کے ذریعہ مسلمانوں کو سمجھانے کی کوششیں کی ہیں۔
ہاں ایک حقیقت ہے کہ معلوم ہے سب کو
تاریخ امم جس کو نہیں ہم سے چھپاتی
ہر لحظہ ہے قوموں کے عمل پر نظر اس کی
بر آں صفت تیغ وپیکر نظر اس کی
تاریخ شاہد ہے کہ کئی بار گنتی کے مسلمانوں نے کافروں کے لشکر پر فتح حاصل کی۔ قوت ایمان‘ اتحاد‘ خود اعتمادی ان کی سیرت کے عناصر تھے۔ ایسے کردار کے حامل مسلمان جس طرف بھی قدم بڑھاتے فتح ونصرت ان کے قدم چومتی۔ اقبال اس حقیقت کا انکشاف کرتے ہیں کہ جب یہ خوبیاں مسلمانوں سے جاتی رہتی ہیں تو وہ کبھی بھی ترقی کے میدان میں دوڑ نہیں جیت سکتے۔ اس طرح مسلمان اپنے مقام کو کھو دیتے ہیں۔
اقبالؒ کہتے ہیں کہ گذشتہ زمانہ میں توحید ایک زندہ قوت تھی‘ لیکن آج کے مسلمان کو یاد دلاتے ہیں کہ ان کی حالت ایک ایسی فوج کی مانند ہے جس کی شمشیریں قل ھو اللہ احد کے نیام سے خالی ہیں۔ اسی درد کو محسوس کرتے ہوئے اقبال کہہ اُٹھتے ہیں:
آہ اس راز سے واقف ہے نہ مُلاّ‘ نہ فقیہ
وحدت افکار کی ہے‘ وحدت کردار ہے خام
علامہ اقبالؒ نے اپنے کلام کے ذریعے حکمت جدید کی کئی فریب ونظریات کو کھوکھلا ثابت کر دیا۔ ان نظریات پر نہایت حکیمانہ اور عالمانہ تنقید کی۔ کھوٹے اور کھرے کو خوب پرکھا۔ اپنے ضمیر کی روشنی سے مایوسی کے اندھیروں کو دور کر دیا۔ مومن کی سیرت بنائی اور ثابت کیا کہ مسلمان کا درجہ بہت بلند ہے۔ اسلام کی بزرگی اور خوبیاں بیاں کرتے ہیں:
روح اسلام کی ہے نور خودی‘ نار خودی!
زندگانی کے لیے نار خودی نور وحضور!
یہی ہر چیز کی تقویم‘ یہی اصل نمود
گرچہ اس روح کو فطرت نے رکھا ہے مستور
لفظ ’اسلام‘ سے یورپ کو اگر کد ہے تو خیر
دوسرا نام اسی دین کا ہے فقر غیور
مسلمان کی سیرت کا لازمی جزو خودی ہے اور ایک خود شناس مسلمان کو موت بھی کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتی۔
ہو اگر خود نگر و خود گر وخود گیر خودی
یہ بھی ممکن ہے کہ تو موت سے بھی مر نہ سکے
علامہ اقبال نے مومن اور مسلمانوں کے کردار کا خاکہ بار بار کھینچا ہے۔ مسلمانوں سے فرمائش کرتے ہیں کہ وہ پھر ویسے ہی غیور وخود شناس مسلمان بن جائیں۔ فرماتے ہیں:
قہاری و غفاری و قدوسی و جبروت
یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان
کافر اور مومن کی پہچان اس طرح بتاتے ہیں کہ
کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گم ہے
مومن کی یہ پہچان کہ گم اُس میں ہیں آفاق
مومن کو اور دوسرے اشخاص سے جو چیز متمیز کرتی ہے وہ ہے تسلیم ورضا‘ مومن سوائے خدا کے اور کسی کے سامنے نہیں جھکتا خواہ آسمان اس پر کتنے ہی مظالم توڑے اور وہ ہمیشہ سے آسمان کا مقابل رہا ہے۔ کتنی مشکلات کا سامنا ہو سوائے اللہ کے اور کسی کے آگے مسلمان نہیں جھکتا۔
افلاک سے ہے اس کی حریفانہ کشاکش
خاکی ہے مگر خاک سے آزاد ہے مومن
علامہ اقبالؒ نے مسلمان سے فرمائش کی ہے کہ وہ قرآن میں غوطہ زن ہو جائے۔ بالآخر قرآن ہی اسے جدت فکر اور بلندی کردار عطا کرے گا۔ خودی کی تکمیل کرے بے خودی کا علاج‘ اس کے سوا کچھ نہیں کہ مسلمان خود آگاہ خود شناس بنے۔ اقبال نے ہمیشہ محبت اور فقر کا سبق دیا۔ محبت سے اس کی مراد دہن اور لگن کا ایسا جذبہ ہے جس پر عقل اور وسوسے رکاوٹیں اور بندش نہ لگا سکیں۔ فقر سے مراد اللہ کی اطاعت ہے۔ ایسا شخص جو سوائے اللہ کے اور کسی کے سامنے نہ جھکے یعنی مسلمان جب غور وفکر کے ساتھ عمل پر بھی کار بند ہو تو وہ کبھی زوال اور پستی میں نہیں گھر جاتا۔
خوار جہاں میں کبھی ہو نہیں سکتی وہ قوم
عشق ہو جس کا جسور‘ فقر ہو جس کا غیور
دنیا ایک بڑا میدان ہے‘ جب کسی کو کوئی دھن سوار ہو جائے تو پھر وہ کوئی حیلہ حوالہ نہیں بناتا‘ یوں بھی یہ دنیا بہت بڑی اور بہت وسیع ہے اور ہر ایسے شخص کو جسے سچ اور عمل کا شوق ہو دنیا اسے دعوت فکر وعمل دیتی ہے
یہی دعوت علامہ اقبالؒ ان لفظوں میں دیتے ہیں:
جرأت ہو نمو کی تو فضا تنگ نہیں ہے
اے مرد خدا! ملک خدا تنگ نہیں ہے