بتالیسویں قسط۔۔۔ معلومات سفرنامہ
مچھلیاں لائن نہیں بناتیں
ہم کیا ہیں اور ہماری فکری اور مذہبی قیادت نے قوم کی تربیت کتنی غلط بنیادوں پر کردی ہے، اس کی ایک مناسبت مجھے گینٹنگ تھیم پارک میں نظر آئی۔ میں اپنی اہلیہ کے ہمراہ ڈائناسور کے حوالے سے بنے ہوئے ایک حصے میں جانے کے لے لائن میں کھڑا تھا۔ یہاں مصنوعی پہاڑوں اور غاروں میں ڈائنا سور کے زمانے کی منظر کشی کی گئی تھی اور ان کے حوالے سے معلومات بیان کی گئی تھیں۔ اس پورے حصے کا سفر ایک مصنوعی نہر کے ذریعے سے کشتی میں بیٹھ کر کیا جاتا تھا۔ ہم سے آگے قطار میں ایک عرب جوڑا کھڑا تھا جو نہر میں وقفے وقفے سے مچھلیوں کا چارہ پھینکتے تھے۔ یہ چارہ چھوٹے چھوٹے دانوں کی شکل میں تھا۔ جب جب یہ لوگ دانہ پھینکتے رنگ برنگی چھوٹی بڑی مچھلیاں اس جگہ ٹوٹ پڑتیں۔ اس وقت ایک عجیب منظر وجود میں آجاتا۔
اکتالیسویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
مجھے یہ منظر دیکھ کر احساس ہوا کہ ہم انسانوں نے ایک قطار بنارکھی ہے اور بہت تحمل سے اپنی باری کا انتظار کررہے ہیں۔ مگر مچھلیوں میں کوئی قطار نہ تھی۔ جس کا نتیجہ یہ نکلتا کہ جس کا زور چلتا اور جس کاداؤ لگتا وہی مچھلی دانہ نگل لیتی۔ مچھلیوں کا ایسا کرنا ان کا کوئی عیب نہ تھا۔ ان کی دنیا کا قانون ہی یہی ہے۔ مگر انسانوں کی دنیا میں ہر جگہ قطار بنائی جاتی ہے۔ قطار عدل و انصاف کی علامت اورا س بات کی یقین دہانی ہے کہ طاقتور اور کمزور، امیر و غریب اور مرد و عورت سب کو یکساں حقوق میسر ہیں۔ مگر بدقسمتی سے پاکستانی معاشرہ پچھلے کئی عشروں سے جس اصول پر تربیت پایا ہے وہ مچھلیوں والا اصول ہے کہ جس کا زور چلتا اور جس کاداؤ لگتا ہے وہی مچھلی دانہ نگل لیتی ہے۔ یہاں میرٹ کا چلن عام نہیں۔
ہماری مذہبی اور فکری قیادت اس صورتحال کی اصلاح کے لیے پریشان نہیں۔ وہ پریشان ہے تو امریکہ کو نیچا دکھانے کے لیے، افغانستان، فلسطین اور کشمیر سے غیروں کو بے دخل کرنے کے لیے۔ یہ لوگ قوم کو اس کام کے لیے اٹھاتے ہیں جسے کرنے کی اُس میں طاقت نہیں اور اگر کر بھی دے تو دوسروں کی تباہی سے زیادہ اپنی تباہی بڑھتی ہے۔ اور اس کام کی طرف توجہ نہیں دیتے جو کچھ عرصے کی تربیت کے بعد باآسانی ہوسکتا ہے۔ جس کے بعد ہم پر باہر سے کوئی ظلم کرسکے گااور نہ اندر سے۔ہم کہتے ہیں دنیا ہمارے ساتھ عدل نہیں کرتی۔ مگر اس سوال کا جواب نہیں دیتے کہ کیا ہم نے اپنی قوم میں عدل نافذ کردیا ہے۔ جب تک ہم اپنی قوم میں عدل نافذ نہیں کرتے ، دنیا کبھی ہمیں عدل نہیں دے گی۔
لنکاوی کا جزیرہ
گینٹنگ ہائی لینڈمیں زیادہ تر مقامی لوگ آتے ہیں یا پھر جنوبی اور جنوب مشرقی ایشیا کے لوگ۔ اس لیے کہ گرم مرطوب علاقے کے لوگوں کے لیے یہاں کا موسم انتہائی خوشگوار اور یہاں کا تھیم پارک اور کیبل کار کا تجربہ بالکل منفرد ہوتا ہے۔ اہل مغرب کے لیے ظاہر ہے کہ ان دونوں چیزوں میں کوئی خاص کشش نہیں۔ اس لیے وہ گینٹنگ میں خال خال ہی نظر آتے ہیں۔ ان کی منزل ملائیشیا کے شمال مغربی حصے کے قریب بحرِ اینڈامن ( Andaman Sea) میں واقع لنکاوی کا جزیرہ ہوتا ہے۔
لنکاوی کا جزیرہ بلاشبہ دنیا کے حسین ترین مقامات میں سے ایک ہے۔ ایک زمانے میں یہ علاقہ اپنے عقابوں اور ماربل کے لیے مشہور تھا۔ اسی مناسبت سے اس کا نام لنکاوی وجود میں آیا جس میں دونوں الفاظ کا مفہوم شامل ہے۔اس کو حسن بخشنے والی اصل شے یہاں کے جنگل ہیں جو لاکھوں برس سے یہاں موجود ہیں۔ اصطلاحاً یہ جنگل rainforest کہلاتے ہیں۔ یہ اصطلاح ان جنگلوں کے لیے استعما ل ہوتی ہے جو بارہ مہینے بارشوں کی زد میں رہتے ہیں۔ سارا سال مسلسل بارش صرف انھی علاقوں میں ہوتی ہے جو خط استوا پر واقع ہیں۔ ان میں برازیل، وسطی افریقہ اور جنوب مشرقی ایشیاکے علاقے شامل ہیں۔ یہ جنگلات زمین کا صرف چھ فیصد حصہ ہیں مگر دنیاکے نصف نباتات و حیوانات ان میں پائے جاتے ہیں۔
لنکاوی کا جزیرہ بھی ایسے ہی جنگلات کا حامل ہے جس کو نامعلوم زمانے سے برسنے والی مسلسل بارشوں نے اتنا گھنا بنادیا تھا کہ یہاں تک رسائی آسان کام نہ تھی، نہ دنیا کے لیے یہ کوئی اہم مقام تھا۔ تاہم اسّی کی دہائی میں ملائیشیا کی حکومت نے اسے ایک سیاحتی مقام بنانے کے لیے یہاں بڑے پیمانے پر ترقیاتی کام شرو ع کیا۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج یہ دنیا اور خاص کر مغربی دنیا کے لیے ایک بہت پرکشش سیاحتی مقام ہے۔
خدائی صفات کا ایک دوسرا پہلو
ہمارا ہوٹل عام عمارتو ں کی طر ح نہیں بنا ہوا تھا بلکہ گھنے جنگل میں کچھ فاصلے پر ہٹ (Hut) بنے ہوئے تھے۔ کچھ ہٹ سمندر کے اوپر بھی بنائے گئے تھے مگر وہ بہت مہنگے تھے۔ ہمارا قیام گھنے جنگل میں تھا۔ ہم شام کے وقت جہاز کے ذریعے سے لنکاوی پہنچے تھے۔ ہوٹل پہنچے تو گھنے جنگل میں تن تنہا ایک ایسے ہٹ میں ہم ٹھہرے جس کے ارد گرد دور دور تک کوئی اور آباد نہ تھا۔ میری اہلیہ اس تصور سے کچھ وحشت زدہ ہوگئیں کہ یہاں تنہائی میں ٹھہرنا ہوگا۔ اس پر مستزاد یہ کہ کمرے میں جاتے ہی ایک گرگٹ نما بڑا جانور نکل آیا۔ خیر ہوٹل کا عملہ اسے مار کر لے گیا مگر اس کے بعد میری اہلیہ کی آنکھوں سے نیند اڑگئی۔ پھر اگلی رات اس قدر طوفانی بارش ہوئی کہ کچھ حد نہیں جس سے کئی درخت اور ان کی شاخیں زمین بوس ہوگئیں۔ بارش اور بادلوں کی گڑگڑاہٹ، شاخیں اور درخت گرنے کی آواز اور پھر مختلف جانوروں اور حشرات کی آوازوں نے رات کے وقت ایک عجیب سماں قائم کیے رکھا۔
لنکاوی کی خوبصورتی کا احساس ہمیں بعد میں ہوا۔ مگر اس سے قبل ہی جن چیزوں سے سابقہ پڑا اس نے طبیعت پر ایک خاص اثر ڈالا۔ میں ایسی چیزوں اورمعاملات کو خدا کی خلاقیت کا وہ چہرہ کہتا ہوں جس کی تاب کوئی انسان نہیں لاسکتا۔پروردگار بڑا رحیم وکریم ہے۔ مگر اس کی طاقت اتنی زیادہ اور انسان اس کے مقابلے میں اتنا کمزور ہے کہ انسان کے لیے یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ خدا کو ناراض کرکے اپنے لیے عافیت کی کوئی راہ ڈھونڈ سکے۔آج خدا غیب میں رہ کر اپنا تعارف کرارہا ہے۔ کل قیامت کے دن جب وہ سامنے آئے گا تومجرموں کے لیے وہ دن بدترین دن ہوگا۔ قیامت کے دن پروردگار عالم آگ کاناقابل برداشت عذاب جو ہر طرح کے نباتات اور حیوانات کو جلاڈالنے کے لیے بہت ہے، صرف سرکشوں، متکبرین اور ظالموں کو دے گا، باقی لوگوں کو وہ اگر تپتے صحراؤں اور وحشت خیز جنگلوں میں بے آسر ا بھٹکنے کے لیے چھوڑدے، تب بھی یہ عذاب ان کے لیے بہت ہے۔
حسنِ فطرت کا شاہکار
بلاشبہ یہ جزیرہ حسن فطرت کا ایک پوشیدہ خزانہ ہے جہاں روزانہ درجنوں ہوائی جہاز ہزاروں لوگوں کو لے کر اترتے ہیں۔ اس کے علاوہ اس کی جیٹی پر کشتی کے ذریعے سے بھی سیاحوں کی بڑی تعداد آتی ہے۔ 478 مربع کلو میٹر پر پھیلا ہوا یہ چھوٹا سا جزیرہ اپنے اندر وسیع جنگلات اور جنگلی حیات کی ان گنت اقسام لیے ہوئے ہے۔اس کا ساحل انتہائی خوبصورت اور پرسکون ہے۔ پورے جزیرے پر ساحلی پٹی کے ساتھ ہر طرح کے ہوٹل بنے ہوئے ہیں۔ ہمارا ہوٹل جزیرے کے سب سے آخری سرے پر واقع تھا جس کے بعد پہاڑ آجاتے ہیں۔ ان پہاڑوں تک لے جانے کے لیے ایک کیبل کار ہے۔ پہاڑ کی چوٹی سے جزیرے کا انتہائی حسین منظر سامنے آتا ہے۔ ایک طرف تاحد نظر پھیلا ہوا سمندر ہے اور دوسری طرف سر سبز درختوں سے آراستہ دلکش پہاڑی مناظر۔ پہاڑ کی چوٹی سے غروب آفتا ب کا نظارہ بے حد متاثر کن ہے۔
مجھے یہاں سب سے بڑی سہولت یہ لگی کہ گاڑی بہت ارزاں نرخ پرکرائے پر مل جاتی ہے اور پورے جزیرے پر عملاً ٹریفک نہ ہونے کے برابر ہے۔ روڈ بہت کشادہ اور ہموار ہیں۔ راستے بھی پیچیدہ نہیں۔ اس لیے ایک نیا آدمی باآسانی ان نقشوں کی مدد سے گاڑی چلاسکتاہے جو ہر جگہ باآسانی مل جاتے ہیں۔زیادہ تر راستے ساحل کے ساتھ ساتھ یا ساحل پر موجود پہاڑوں پر بنے ہوئے ہیں۔ میں اس جزیرے کے ہر حصے پر گاڑی کے ذریعے سے گیا۔تاہم مجھے یہ اندازہ ہوا کہ جہاں میرا ہوٹل واقع تھا وہی علاقہ ہر اعتبار سے سب سے زیادہ بہتر اور دلکش تھا۔ اس جزیرے کا مرکزی قصبہ ’Kuah‘ اس جگہ واقع ہے جہاں جیٹی بنی ہوئی ہے۔ اس جیٹی کی نشانی عقاب کا وہ بڑا سا مجسمہ ہے جو ایک پلیٹ فارم پر ایستادہ ہے۔ یہیں سے وہ بوٹس ملتی ہیں جو island hopping کے لیے لے جاتی ہیں۔ آئی لینڈ ہاپنگ میں ایک تیر رفتار اسپیڈ بوٹ میں بٹھاکر قریب واقع دو تین جزیروں میں لے جایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ قریبی جزائر میں عقاب اور دیگر جنگلی حیات کے مشاہدے کے لیے بھی بہت سے ٹور ملتے ہیں۔ میرے خیال میں جو لوگ زندگی کے ہنگاموں سے دور رہ کر کچھ وقت سکون کے ساتھ فطرت کی نیرنگیوں میں گزارنا چاہتے ہیں ان کے لیے یہ جگہ بہترین ہے۔ یہاں آکر زندگی اور وقت دونوں کی رفتار تھمی ہوئی سی محسوس ہوتی ہے ۔ البتہ ہر لمحہ بدلتے موسم کی آہٹیں شام و سحر کے وجود کا احساس ضرور دلادیتی ہیں۔
سرِبازار می رقصم
لنکاوی کا جزیرہ وہ جگہ ہے جہاں فطرت بلامبالغہ پچھلے کئی کروڑ برسوں سے اپنے رنگ اور اپنے جلوے وقت کی رم جھم کے ساتھ برسارہی ہے۔ اس بات سے بے پروا کہ اس کے حسن کی دید کے لیے کوئی دیدہ ور یہاں آتا بھی ہے یا نہیں۔ حسنِ فطرت کی یہ عجیب ادا ہے کہ وہ اپنے جلوے بکھیرنے کے لیے کبھی عشاق کی محفل کا انتظار نہیں کرتی۔ اسے اپنی بے حجابی کے لیے انسانی دید سے زیادہ سورج کی نگاہِ روشن اور تاروں کی جگمگاتی نظر کا انتظار رہتا ہے۔ اسے رونق سے زیادہ ویرانی اور شہرت سے زیادہ گمنامی پسند ہے۔
حسن ِ بے پروا کو اپنی بے حجابی کے لیے
شہر سے ہوں بن جو پیارے تو شہر اچھے کہ بن
مجھے چار سو پھیلے اس حسن کو دیکھ کر بار ہا یہ احساس ہوا کہ یہ حسن تو خود کسی اور حسین کی زلفوں کا اسیر ہے۔ اُس حسنِ ازل کی ایک نظر کے لیے کروڑوں سال سے یہ بے خودی کے عالم میں رقص کیے جارہا ہے۔ مگر اس قاتل ادا نے ابھی تک پلٹ کر حسن فطرت کو نہیں دیکھا۔ وہ تو کسی اور کے رقص کا منتظر ہے۔ کسی صاحبِ شعور، صاحبِ اختیار، صاحبِ اقتدار کے رقصِ بندگی کا۔ جس کی آنکھوں سے نکلنے والا ایک قطرۂ ناچیز اسے فطرت کی ہزار بارشوں سے زیادہ عزیز ہے۔ جس کی تسبیح و تمجید کا ایک گیت فطرت کے ہزار سُروں سے زیادہ سریلا ہے، جس کی عبدیت کا ایک رنگ فطرت کے ہزار رنگوں سے زیادہ خوش نما ہے۔ جس کی اٹھی ہوئی خدا آشنا نظر ہر پہاڑ کی بلندی سے بلندتر ہے اور جس کی جھکی ہوئی پیشانی زمین اور سمندر کی ہر وسعت سے زیادہ عریض ہے۔ اس لیے کہ وہ صاحبِ شعور ہوکر رقصِ بندگی کرتا اور صاحبِ جنوں ہوکر حدود آشنائی میں جیتا ہے۔ فطرت کا رقص بہت حسین ہے۔ مگر بندگی کا رقص حسین تر ہے۔ اس لیے کہ یہ ایک بادشاہ کا رقصِ عبدیت ہے۔ یہ رقص ایمان سے شروع ہوتا اور معرفت کی روشنی پاکر اپنے جوبن پر آتا ہے۔ یہ رقص جو دل کی محفل کو آباد کرتا ہے، سانسوں کی مالا میں یاد الٰہی کے موتی پروتا، آنسوؤں کی لڑی بنتا اور آخر کار عبد کو معبود سے ہم کلام کردیتاہے:
نمی دانم کہ آخر چوں دم دیدار می رقصم
مگر نازم با ایں ذوقے کہ پیش یار می رقصم
بیا جاناں تماشا کن کہ درانبوہ جانبازاں
بصد سامان رسوائی سرِ بازار می رقصم
(مجھے نہیں معلوم کہ میں (اپنے دوست کے) دیدار کے وقت رقص کیوں کرنے لگتا ہوں۔ مگر مجھے اس پر فخر ہے کہ میرا رقص صرف اپنے دوست کے سامنے ہی ہوتا ہے۔
میرے محبوب آؤ اور یہ تماشہ تو دیکھو کہ تمھارے جانبازوں کے گروہ میں سے میں ہوں جو اپنی رسوائی کا ہزار سامان کیے سربازار رقص کررہا ہوں)
انگزیر خاتون اور ملائیشیا میں فروغِ اسلام
لنکاوی میں قیام کے دوران میں ایک روز ہم’’Seven Wells ‘‘گئے۔یہ پہاڑی ندی سی تھی جہاں پہاڑوں سے آنے والا پانی سات چھوٹے چھوٹے تالابوں کی شکل میں جمع ہوتا اور پھر ایک آبشار کی شکل میں بلندی سے نیچے گرتا ہے۔ اسے دیکھنے کے لیے کافی بلندی پر سیڑھیاں چڑھ کر جانا پڑتا ہے۔ یہ راستہ ایک جنگل سے گزرتا ہے اور اس وقت وہاں بالکل سناٹا تھا۔ ہم جیسے ہی وہاں پہنچے انتہائی تیز بارش شروع ہوگئی۔ مقامی انتظامیہ نے وہاں ایسے ہی حالات کے لیے چند جگہیں بنارکھی تھیں جن پر چھت ڈلی ہوئی تھی۔ ہم نے جس جگہ پناہ لی وہاں ایک انگریز خاتون بھی موجود تھیں۔ کچھ دیر میں ان سے گفتگو کا آغاز ہوگیا جو کافی دیر تک جاری رہا۔
ان کا تعلق لندن سے تھا اور یہ ملائیشیا میں بغرضِ ملازمت مقیم تھیں۔ یہ ایک برطانونی یونیورسٹی سے وابستہ تھیں اور داخلے کے خواہشمند، اس خطے کے طلبا کا انٹرویو کرتی تھیں۔ اسی مقصد کے لیے یہ پاکستان بھی آچکی تھیں۔ ایسی ملاقاتوں میں میرا مقصد ہمیشہ ایک ہی ہوتا ہے ۔ وہ یہ کہ غیر محسوس طریقے پر اسلام کا تعارف لوگوں تک پہنچاؤں۔ اس لیے کافی دیر مقامی، مغربی اور پاکستانی حالات پر گفتگو کرنے کے بعد میں انھیں مذہب کے موضوع پر لے آیا۔
وہ خاندانی اعتبار سے کیتھولک تھیں۔ مگر مغرب کے عام پڑھے لکھے افراد کی طرح مذہب سے بالکل غیر متعلق۔ بس خدا کا نام سن رکھا تھا۔ اسلام کا تعارف بس دہشت گردی کے حوالے ہی سے تھا۔ زیادہ دلچسپی بدھ مت سے تھی جس کا ظاہری دھوم دھڑکا (اس کی کچھ جھلکیاں بینکاک میں دیکھیں اور اس سے قبل سری لنکا کے سفر میں میں دیکھ چکا تھا) انھیں بہت پسند تھا۔ انھیں مذہبی لوگوں کے اس تصور سے سخت وحشت تھی کہ تمام انسان جہنم میں جائیں گے سوائے اپنے لوگوں کے۔ مجھے یہی دروازہ نظر آیا جس کے ذریعے سے اسلام کی تعلیمات کا تعارف ان تک کروایا جاسکتا تھا۔ میں نے اس حوالے سے ان کے سامنے قرآن کی آیت رکھ دی جس میں نجات کا پیمانہ کسی خاص گروہ سے وابستگی نہیں بلکہ توحید اور آخرت پر ایمان اور عمل صالح کو قرار دیا گیا تھا۔ پھر اسلام سے متعلق کچھ اور چیزیں بھی ان کے سامنے رکھ دیں۔ اس طرح کی ابتدائی گفتگو میں صرف اسلام کا مختصر تعارف ہی کروایا جاسکتا ہے جو میں نے کروانے کی کوشش کی اور میری باتیں انہوں نے توجہ سے سنیں۔
دو گھنٹے بعد بارش ختم ہوئی تو وہ رخصت ہوگئیں۔ مگر اپنے پیچھے یہ سوال چھوڑ گئیں کہ آخر کب مسلمان اپنی دعوتی غفلت سے بیدار ہوکر توحید و آخرت پر مبنی لائی ہوئی خاتم النبیین کی دعوت انسانیت کے سامنے پیش کریں گے۔ مجھے اندیشہ ہے کہ جب تک مسلمان یہ نہیں کریں گے اسی طرح غیر مسلموں سے پٹتے رہیں گے۔ ملائیشیا وہ جگہ ہے جو اسلام کی دعوتی قوت کا زندہ ثبوت ہے اور جہاں مسلمان تاجروں نے بغیر جنگ و فتح کے اس علاقے کو مفتوح کیا تھا۔
جاری ہے۔ اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں