آنکھ بھر آئے تو منظر نہیں دیکھے جاتے ۔۔۔(فلسطینی مسلمانوں کی حالت زار پر )
آنکھ بھر آئے تو منظر نہیں دیکھے جاتے
ہم سے مقتل میں کٹے سر نہیں دیکھے جاتے
ڈھلتے جاتے ہیں جو ویرانی میں لمحہ لمحہ
ٹوٹتے پھوٹتے یہ گھر نہیں دیکھے جاتے
جن فضاؤں میں اڑا کرتے تھے پنچھی ان میں
تیرتے پھرتے ہیں جو پر نہیں دیکھے جاتے
سامنا ہونا ضروری تھا تقاضا تھا یہی
عکس آئینے میں ڈھل کر نہیں دیکھے جاتے
کچھ تصور میں بھی فاروق رہا کرتے ہیں
راستے سارے گزر کر نہیں دیکھے جاتے
کلام : ڈاکٹر زبیر فاروق الرعشی