نئے نصاب تعلیم کے ممکنہ خدشات!

     نئے نصاب تعلیم کے ممکنہ خدشات!
     نئے نصاب تعلیم کے ممکنہ خدشات!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

یکساں نصاب تعلیم پر جن دنوں تحریک انصاف کی حکومت کے دوران بحث ہورہی تھی، توہم نے اسی وقت نشاندہی کی تھی کہ معاملا اتنا آسان نہیں ہوگا۔ یکطرفہ اقدامات سے معاشرے میں بے چینی بڑھے گی، اب جبکہ کتابیں شائع ہوچکی ہیں اور سکولوں میں پڑھائی جارہی ہیں تو انکشاف ہواہے کہ کھلواڑ ہوا کیا تھا؟ کتابوں میں اتنے دل آزار نکات سامنے آئے ہیں کہ ہم یقین نہیں کرسکتے کہ واقعی نصاب تعلیم یکساں اور متفقہ تھا بھی؟یا صرف یہ مسلط کیا جانامقصود تھا۔ہر ذی شعور شخص جانتا ہے کہ فرقوں کے درمیان اختلافات موجود ہیں اور ایک فرقے کا نقطہ نظر دوسرے سے قدرے مختلف ہے توصرف انہیں باتوں کو نصاب تعلیم میں شامل کیا جائے جن پر اتفاق رائے موجود ہے۔ اپنی رائے کو دوسرے مکتبہ فکر پر مسلط نہ کریں۔

یہ المیہ توکافی دیر سے چل رہا ہے کہ پاکستان کے منتخب نمائندے جو عوام کے ووٹوں سے اسمبلی میں پہنچتے ہیں،انہیں ملکی مسائل سے زیادہ اپنی قیادت کے حکم پراحتجاج کرنے یا احتجاج روکنے میں دلچسپی ہے، اسی تگ و دو میں نمائندہ ایوان کو مچھلی منڈی بنادیا جاتا ہے اور ایک دوسرے پرغیر مہذبانہ انداز میں تنقید اور اپنی قیادت کی تعریف کی جاتی ہے۔اگلے ہی لمحے میں یوں بات پھر تنازع کی شکل اختیار کرلیتی ہے، جس کی وجہ سے میرے جیسا عام پاکستانی تکلیف محسوس کرتا ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ ہر منتخب نمائندے کو’تاریخ پاکستان‘ سے آگاہی کے لیے مختلف مصنفین کی کتابوں کا مطالعہ ضرورکرنا چاہیے۔یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ قیام پاکستان سے اب تک کسی شخص نے بھی اس ایشو پر کبھی بات نہیں کی کہ مملکت خداداد کومعرض وجود میں لانے سے پہلے ہونے والی جدوجہد آزادی میں مختلف مکاتب فکر کا رویہ کیا رہا؟اور یہ بھی کہ اب تک ان کا کیا کردار ہے؟کیا ریاست پاکستان کے لئے خطرہ ہیں یا محب وطن ہیں؟ مجھے حیرت ہے کہ آج 77 سال گزر جانے کے باوجود بھی کسی بڑے مصنف کی کوئی مصدقہ متفقہ تحریر سامنے نہیں آئی کہ پاکستان کے معرض وجود میں آنے کی جدوجہد میں کن کن بڑی شخصیات نے عملی اقدامات میں حصہ لیا؟جب پاکستان معرض وجود میں آیا تو اب تک کی جو ترقی ہوئی ہے اس میں کن بڑے لوگوں کے آباؤ اجداد کا کیا کردار رہا ہے۔

پاکستان کثیر المذاہب کے ساتھ کثیر المسالک ملک بھی ہے، ہر شہری کو اپنے عقائد کے مطابق عمل کرنے کی آزادی ہے۔ پھر 31 علما ء کے 22 نکات میں تمام مکاتب فکر نے اتفاق کیا تھا کہ قرآن وسنت پاکستان کا سپریم لاء ہوگا، جبکہ قرآن و سنت کی وہی تشریح اور تعبیر قابل قبول ہوگی جو اس مسلک کے ہاں مسلمہ ہوگی۔ جس کا مطلب ہے کہ کسی ایک مسلک کی فقہی رائے کو دوسرے پر مسلط نہیں کیا جائے گا لیکن یکساں نصاب تعلیم کے عنوان کے تحت شائع ہونے والی کتابوں کا مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ مکتب اہل بیت کے عقائد کو نظرانداز کرکے نصابی کتب کو یکطرفہ طورپر شائع کیا گیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ان حالات میں اس نفرت آمیز رویے کو کتابی شکل میں نصاب تعلیم کا حصہ بنایا جا رہا ہے، جس سے دوسرے مکتبہ فکر کی دل آزاری ہو تی ہے،جس کی وجہ سے پاکستان کے اندر فرقہ واریت پھیلنے کے امکانات زیادہ تیزی سے رونما ہو رہے ہیں۔

میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یہ ملک کسی ایک مکتبہ فکر کی جدوجہد کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ موجودہ پاکستان کے کچلے ہوئے طبقے کی قربانیوں سے یہ یہاں تک پہنچا ہے  اگر ملک کے اندر کسی ایک مکتبہ فکر کے عقائد کو نظر انداز کر کے نصابی کتب میں تحریف کا سلسلہ شروع ہوا ہے، تو وہ پاکستان کی ترقی سالمیت اور بقا کے لیے یکسوئی کی جو فکر تھی اس کو متاثر کیا جا رہا ہے۔جبکہ یہ احساس گہرا ہوتا چلاجارہا ہے کہ ایک مسلک کی رائے کو ماننے کے لئے دوسرے کو مجبور کیا جارہا ہے تویہ ملکی سلامتی اور آئین پاکستان کی روح کے خلاف ہوگا۔میں حکومت وقت کی خدمت میں عرض کرنا چاہتا ہوں متنازعہ نصاب تعلیم کے نام پر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی اتحادی حکومت کی سرپرستی میں نفرت کا پودا لگایا جا رہا ہے،وہ معاشی اور سیاسی اقدامات سے زیادہ خطرناک ہے، کیونکہ نئے پیدا شدہ حالات کی وجہ سے بے چینی مزید بڑھ سکتی ہے۔لہٰذا حکومت تحقیق کرکے متنازعہ نصاب تعلیم کو جاری کرنے والے اشخاص کوکلیدی عہدوں سے ہٹا کر متاثرہ مکتبہ فکر کو یقین دلائے کہ ان کا عقیدہ محفوظ ہے۔کیونکہ پاکستان کے تمام محب وطن جوانوں کا مقدس خون دفاع وطن کے لئے بہتا ہے اور آپ جانتے ہیں کہ ہمارا ازلی دشمن پاکستان میں نہ صرف فرقہ واریت کے نام سے عوام کو تقسیم کرنے کی سازشیں کر رہا ہے بلکہ خیبر پختونخواہ اور بلوچستان کے علاقوں،اور کراچی میں ہونے والی دہشت گردی کی مذمت کرتے ہوئے کہنا چاہتا ہوں کہ ان حالات پر گہری نظر رکھنے والے محب وطن افراد کو ان اہم عہدوں پرتعینات کیا جائے۔

یکساں نصاب تعلیم کے تحت شائع کی گئی چند درسی کتب میرے سامنے پڑی ہیں جن میں عقائد کے حوالے سے مضر اور شر پسندی کا انداز جھلک رہا ہے۔ان کتب کے حوالہ جات کے مطابق نشاندی کی غرض سے افسروں اور بیو روکریٹس سے خط و کتابت کے ذریعے سازش کو بے نقاب کرنے والے برادرم غلام حسین علوی کی محنت کو سلام پیش کرتا ہوں۔ارباب اقتداار کو یہ باور کروانا ضروری ہے کہ اس سازش کے پیچھے جن عناصر کے بھی ہاتھ ہیں،خواہ وہ کسی بڑے عہدے پر بیٹھا ہوا ہے اور باختیار ہونے کی وجہ سے اس شرپسندی کو تقویت دے رہا ہے، اس کو روکا جائے۔ خصوصا ًآرمی چیف سید عاصم منیر سے گزارش ہے کرتا ہوں کہ آپ کسی فرد کو ذمہ داری دیں جو نصاب تعلیم میں ہونے والی سازش کی تہہ تک پہنچ کر فسادی عناصر کا آہنی ہاتھوں سے قلع قمع کرے،تاکہ پاکستان کے عوام کے اندر یکسوئی،ملکی ترقی کے لیے ہم فکری ضروری ہے۔اس طرح ہم فرقہ واریت ختم کر کے پاکستان بنانے والوں کی روح کو سکون دے سکتے ہیں۔

مزید :

رائے -کالم -