بیرون ملک سےسرمایہ کاری کیسے لائیں؟
میں اس وقت ترکی کے شہر استنبول میں بیٹھا ہوں۔یہ لوگ شکل شباہت میں مجھ سے ملتے جلتے ہیں۔اکا دکا لوگ انگریزی کے کچھ حروف سمجھتے ہیں۔لیکن مجھے انگلش بولتے دیکھ کر امریکن یا برٹش سمجھتے ہیں۔ جب میں انہیں بتاتا ہوں کہ میں پاکستانی ہوں لیکن ناروے میں رہتا ہوں تو بڑی اپنائیت سے دیکھتے ہیں۔ پوچھتے ہیں کہ ناروے میں کیوں رہتے ہو؟ وہ تو ٹھنڈا ملک ہے۔ میں خاموش رہتا ہوں کیونکہ انکی انگریزی اس سے زیادہ نہیں تھی۔جو کام یہ کرتے ہیں بہت دیانت داری سے کرتے نظر آتے ہیں۔ سٹرس لیول نارمل تھا۔ جس سے پتہ چلتا تھا کہ ہر شخص کا گزر اوقات اسکی نوکری یا کام کے اندر ہوجاتا ہے۔ ایک دن میرے سامنے بہت بارش ہوئی۔ تیز بارش، میں شیشے میں اسے دیکھتا رہا۔ میں دیکھنا چاہتا تھا کہ سڑکوں پر پانی جمع ہوجاے گا؟ کافی طوفانی بارش کے بعد بھی کئی پانی کھڑا نظر نہیں آیا۔ سٹارم واٹر پلاننگ میں کوئی خامی نظر نہیں آئی۔ میں ناروے میں صفائی کے معیار سے بہت متاثر ہوں۔ لیکن یہاں استنبول میں بھی صفائی ستھرائی متاثر کن تھی۔ میرا خیال ہے اگرچہ لوگ محنتی ہیں مگر ہر شعبے میں ٹیکنالوجی کا استعمال فرق بڑھا دیتا ہے۔
یہاں بھی مسجد سے آذان کی آواز پانچ وقت آتی ہے۔ انکی زبان میں ماشااللہ بکثرت سننے میں آتا ہے۔کام کے دوران میں نماز بھی پڑھتے ہیں۔ انہیں معلوم ہے انکی کرنسی پر ٹف ٹائیم ہے۔ امریکہ کا ذکر سنا ہے میں نے ان کی آپس کی گفتگو میں۔ میں نے خود کو سمجھایا کہ دیکھیں ترکی والوں کو یہ فائدہ ہے کہ سمندر ان کے نیڑ ے ہے۔ ای۔ یو کی ممبرشپ کے خواہاں ہیں۔ دفاع پر اتنا نہیں خرچ کرتے ہوں گے۔ کیونکہ کسی بڑی طاقت سے اکیلے میں محاذ آرائی نہیں ہے۔ نیٹو کے ممبر ہیں۔ اجتماعی دفاع کی ذمہ داری نیٹو کی ہے۔ یہ تو بڑا فائدہ ہے۔
ترکی والے سیاحت کو بہت اہم صنعت سمجھتے ہیں۔ یو ں کہیے یہ سیاحت کو بیچتے ہیں۔اور کون سے ممالک ہیں جو سیاحت کو نظر انداز کرتے ہوں گے؟ مشرق وسطی کی ریاستوں نے تو اپنی ساری دولت سیاحت کے فروغ کے لیے لگا دی ہے۔جب سیاحت بڑھتی ہے تو سرمایہ کاری کا رحجان بڑھتا ہے۔پھر سرمایہ کار اس ملک کا رخ کرنے لگتے ہیں۔اگر لوگ بہت با اخلاق ہیں۔ امن و امان پر یقین رکھتے ہیں۔ سرکاری تکلفات سرمایہ کاری کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنتے تو سرمایہ کاری کو فروغ ملنا قدرتی بات ہے۔
ہم بیوروکریسی دنیا کے سارے ممالک میں دیکھتے ہیں۔ یہ پڑھے لکھے اور قابل ترین لوگ باقی عوام سے زیادہ جانتے ہیں کہ ہم نے سیاحت اور سرمایہ کاری کے لیے سہولیات مہیا کرنی ہیں۔ کون ہے جو یہ چاہتا ہے کہ جس ملک میں وہ اور اسکی فیملی اور بچے رہتے ہیں خوشحال نہ ہو۔ اپنے گھر کو خوشحال اور محفوظ رکھنے کے لیے تو ہر شخص اپنی جان مارتا ہے۔ یہ وطن بھی ہمارا گھر ہے۔ اسکی خوشحالی کے لیے اپنا اپنا کردار تو سب ادا کرتے ہوں گے۔ لیکن شاید ترجحات میں سیاحت اور سرمایہ کاری کافی نیچے ہو۔
ٓؓدنیا مقابلے کا ایک گلو بل ویلیج ہے۔ جب ایک سیاح نے چھٹیاں گزارنے جانا ہوتا ہے تو اسکے پاس بہت سے آپشنز ہوتے ہیں۔وہ ان میں اپنے لیے بہترین آپشن سیلیکٹ کرتا ہے۔یہ بات سرمایہ کاری کی بھی ہے۔اگر دنیا میں سرمایہ کاری کے لحاظ سے سب سے ٹاپ پر نہ پہنچا جاسکے پھر بھی سب سے بہتر ممالک کی لسٹ میں شامل ہونا بھی بڑی بات ہے۔ہما را اندازہ ہوسکتا ہے سہی نہ ہولیکن جو ممالک سیاحت اور سرمایہ کاری کو اپنے ممالک کی طرف نہیں لاسکے وہ باقی ممالک سے پیچھے رہ گئیے۔ہم بھی ان میں سے ایک ہیں حالانکہ ہم اس شعبے میں بہت آگے جاسکتے ہیں۔
ترک زبان بھی یورپ کی باقی زبانوں کی طرح الٹی لکھی جاتی ہے۔ یوں بھی کہہ سکتے ہیں جن زبانوں کو ہم سیدھا سمجھتے ہیں۔ یہ لوگ انہیں الٹا سمجھتے ہیں۔ہماری اچھی انگریزی دیکھ کہ وہ متاثر نہیں ہوتے۔ انہیں معلوم ہے کہ ہم انگریزوں کی کالونی رہے ہیں۔ لیکن مجھے لگا کہ انگریزی کو انہیں اپنے نصاب میں اچھی جگہ دینی چاہیے تھی۔ نیشنل پرائیڈ بھی عجیب چیز ہے۔انگریز بھی ایک قوم ہیں اور یہ لوگ بھی ایک تاریخی قوم ہیں۔ انکی زبان کو یہ کیوں اہمیت دیں؟ لیکن انگریزی زبان دنیا کی بزنس زبان تو ہے ہی۔ اور امریکی صدر سے انگریزی نہ بولیں تو شاید اسکی سزا بھی ملتی ہے۔
مجھے کافی مشکل پیش آئی جب اکثر اشارے کنائے میں بات سمجھانا پڑی۔ اپنے ارد گرد سب کچھ کسی اجنبی زبان میں دیکھ کر پھر سے اپنے ان پڑھ ہونے کا احساس ہوا۔ پھر لگا کچھ ایسے حقائق کو جلد تسلیم کرنا دانشمندی ہے۔ جنھیں نیشنل پرائیڈ یا کسی اور وجہ سے ہم نظرانداز کررہے ہوتے ہیں۔یہ دنیا کے گلوبل ولیج نے ہمارے چیلجنز بہت بڑھا دیئے ہیں۔ اگر یہ گلوبل ولیج نہ بنتا تو بہت کچھ پردے میں رہتا ۔ اور مقابلہ اس قدر کھلے عام نہ ہوتا تو ہماری دوڑ دنیا کے ساتھ ہے۔ اس بات کو جلد تسلیم کرنا دانشمندی ہے۔ اگر دنیا گلوبل ولیج نہیں تھا تو سوشل میڈیا نے بنا دیا ہے۔ امریکی سینٹ کی انٹلیجنس کمیٹی نے گوگل ، فیس بک، اور ٹویٹر کے سی۔اوز کو بلا کر تفتیش کی کہ آ پ لوگوں نے یہ جو پلیٹ فارم بنائے ہیں ان پر آپ لوگوں کو کنٹرول نہیں ہے اور ہمارے متحارب ممالک آپکے انہی پلیٹ فارمز کے اندر سے ہماری جمہوریت کو کھوکھلا اور کنفیوز کررہے ہیں۔ ہمیں بہت شکایت ہے آپ کے ان پلیٹ فارمز سے۔
گوگل والے آئے ہی نہیں۔ فیس بک اور ٹویٹر نے خشک حلق کے ساتھ بہت صفائی پیش کرنے کی کوشش کی۔ بزنس فرسٹ کی پالیسی کو سینیٹرز نے خوب چیلنج کیا۔ بڑی مشکل سے مذکورہ کمپنیوں کے سی۔اوز نے اس سیشن سے جان چھڑائی ۔ دن کے دوران سٹاک مارکیٹ کے شئیرز گرے ضرور لیکن ان کمپنیوں نے دنیا کے بہترین دماغوں کو ہائیر کیا ہوا ہے۔ میرٹ کی پاسداری ، انصاف اور قانون کی بالادستی کے بغیر دنیا کے اس گاوں میں جگہ بنانا نا ممکن ہے۔ اور یقین جانیے یہ گلوبلائیزیشن بڑا چیلینج ہے۔
۔۔
ادارہ کا بلاگرزکے ذاتی خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔