صدف بیٹی تمہیں ہم کیسے بھول جائیں؟
جب کسی ماں کی گود میں کوئی کلی کھل کر پھول بنتی ہے۔ یہ وہ ماں ہی جانتی ہے اس کلی کی قیمت کیا ہے اور یہ کس طرح کلی سے پھول میں تبدیل ہوئی ہے۔ جب یہ خاکسار اپنی فیملی سمیت پیاری بیٹی صدف(جو چند روز قبل ڈان کالج برنالہ آزادکشمیر میں بجلی کی لٹکتی ہوئی تار کے حادثے میں شہید ہو گئی تھی) کے گھر گاؤں ہزاری تحصیل برنالہ ضلع بھمبر گیا، اور صدف کی المناک سانحہ میں شہادت کے متعلق معلومات لیں اور فاتحہ خوانی کی۔ صدف کی ماں کی حالت دیکھ کر بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بیٹی کی یا اولاد کا اس طرح ہاتھوں ہاتھ چلے جانا کیسا ہوتا ہے؟ کہنے کو تو یہ ایک لڑکی تھی جو بس اپنی آئی کے ساتھ وفات پا گئی۔ کیونکہ جس معاشرے میں یہ پیدا ہوئی اور پلی بڑھی، اس معاشرے کے اندر خواتین کا کردار بہت محدود ہے اور انسان کی موت(چاہے قتل ہی کیوں نہ ہو) اللہ کا لکھا سمجھ کر صبر کر لیا جاتا ہے۔ سب لوگ اس بات پر متفق ہو جاتے ہیں۔ کہ تقدیر ایسے ہی لکھی تھی، لہٰذا صبر کے بغیر کچھ ہو بھی نہیں سکتا۔ اس طرح ہر قسم کی انسانی غلطیوں کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ تقدیر میں جو لکھا تھا سو ہو گیا اب کیا کرنا ہے، لیکن تقدیر میں جو لکھا تھا اس کا ہمیں کیسے علم ہے؟ ہم تو تقدیر کے کھیل کو سمجھ ہی نہیں سکتے، یہ جو تقدیر کا لکھا ہوتا ہے۔ اللہ کا لکھا اور اسی کے پاس محفوظ ہوتا ہے، لیکن جو اللہ تعالیٰ کے واضح احکامات(قرآن مجید کی صورت میں) ہمارے سامنے ہیں۔ ان کو ہم کیوں نظر انداز کر دیتے ہیں؟ جب اللہ نے ایک بے گناہ قتل کو پوری انسانیت کا قتل کہہ کر قتل کے جرم کو سب سے بڑا جرم قرار دے دیا تو پھر بھی ہم بات بات پر قتل کرنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں، لیکن جس چیز (تقدیر کے لکھے ہوئے) کا ہمیں پتہ ہی نہیں اس کو ہم بلاتاخیر قبول کر لیتے ہیں۔ یہ کون ہے جو ہمیں تقدیر کی معلومات دیتا ہے؟
اگر قرآن پاک میں جہاد سے ڈرنے والے لوگوں کو یہ پیغام دیا بھی گیا ہے کہ آپ اپنی زندگی سے ایک ساعت آگے جا سکتے ہیں۔ نہ پہلے مر سکتے ہیں۔ تو اس سے یہ نتیجہ کیسے اخذ کیا جا سکتا ہے کہ جس کو ہم نے قتل کر دیا۔ اس کی زندگی اتنی ہی تھی؟ زندگی موت کے راز تو اسی مالک کے ہاتھ میں ہیں جس کا زندگی موت پر اختیار ہے۔ ہمیں تو اس مالک کے احکامات پر عمل کرنے کا حکم ملا ہے، نا کہ اس کے راز و نیاز ڈھونڈنے کی ذمہ داری، یہ جو صدف بیٹی ہم نے کھو دی ہے۔ جانتے ہیں کہ وہ کیا تھی؟ کیا بن سکتی تھی؟ اپنے خاندان کا کتنا سرمایہ تھی؟ اس ملک اور قوم کے لئے کیا کردار ادا کر سکتی تھی؟ اس دنیا کو کیا فائدہ دے سکتی تھی؟ یقینا آپ نہیں جانتے ہوں گے،
اگر جانتے تو پھر اس کی جان کی حفاظت کرتے!! جی میں بتا دیتا ہوں۔ میری اس بیٹی کی اس دنیا کے لئے کیا افادیت تھی۔ ذرا غور کریں، جن دوائیوں کی مدد سے کروڑوں یا شاید اربوں انسان زندگی کی ہاری ہوئی بازی جیت کر جی رہے ہیں، ان دوائیوں کو بنانے کے پیچھے انسانی دماغ ہے۔ یہی دنیاوی علم ہے۔ یہی دینی علم ہے۔ جن ٹیکنالوجیز کے بل بوتے پر آپ کے لئے یہ دنیا ایک گاوں میں سمٹ آئی ہے اور آپ گوگل کے نقشے کو استعمال کر کے زمین اور سمندر میں راستوں کو تلاش کرکے آسانی سے منزل پر پہنچ جاتے ہیں۔ یہ بھی کئی انسانوں کے دماغوں کے کمالات ہیں اور صدف اسی علم کے راستے کی مسافر تھی۔ بی ایس سی کی ڈگری لے کر ایم ایس سی کے لئے یونیورسٹی میں قدم رکھ چکی تھی اور اپنے ارمانوں بھرے دل کے ساتھ خوشی خوشی اپنے سابقہ تعلیمی ادارے سے اپنی کارکردگی کا سرٹیفکیٹ لینے گئی اور واپس ایمبولینس میں ایک لاش صدف کی ماں نے وصول کی۔۔۔۔اُف ہائے یہ زمین کیوں نہیں پھٹی، یہ آسمان گرا کیوں نہیں؟ کیا یہ زمین آسمان بھی ہماری طرح ایک ماں کے دکھ کو سمجھنے سے قاصر ہیں؟
کیا یہ آسمان بھی اندھا ہے،جس کے نیچے ایسے ظلم روا رکھے جا رہے ہیں، جن کے نتیجے میں کوئی صدف محفوظ نہیں ہے؟ یہ زمین ایسے لوگوں کے بوجھ تو برداشت کر سکتی ہے۔ جو ہماری صدفوں کو کھا جاتے ہیں، لیکن کیا صدف جیسی کلیوں کو برداشت نہیں کر پاتی؟ اب بہت سے لوگ ہوں گے جو صدف کے ماں باپ کو حوصلہ دیں گے کہ صبر کرو اللہ نے ایسے ہی لکھ رکھا تھا، لیکن ایسا کوئی ایک بندہ بھی نہیں جو ان کے دکھ کو سمجھ سکے جو اس قوم کے نقصان کو جان سکے اور اس نقصان کے ازالے کی آواز بن سکے؟ ……ازالہ؟ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ صدف کی کمی کا والدین کے لئے کوئی ازالہ بھی ہے؟ نہیں والدین کے لئے نہیں، بلکہ ہم سب کے لئے، ہمارے معاشرے کے لئے، ہماری بچیوں کے لئے، ہمارے بچوں کے لئے اور اس دنیا کے لئے ہمیں اس المناک سانحہ کی مکمل تحقیقات کرنی ہے۔ اور ذمہ داروں کا تعین کر کے سزا دلوانا ہے۔ اپنی غلطیوں پر پردے ڈالنے کی بجائے ان غلطیوں کو درست کرنا ہے۔
تاکہ ہماری کوئی اور صدف ہم سے کھو نہ جائے، تاکہ ہم علم سے محروم نہ ہو جائیں، تاکہ ہماری ترقی رک نہ جائے تاکہ ہمارے بچے اس طرح غیر محفوظ ہو کر نہ رہ جائیں۔ شنید ہے، بلکہ دستاویزی ثبوت موجود ہے کہ جس نجی کالج کے اندر یہ حادثہ پیش آیا اس کالج کی انتظامیہ کی طرف سے محکمہ برقیات کو متعدد بار درخواست دی گئی کہ اس 1100 وولٹ مین لائن کی زمین کی طرف لٹکی ہوئی تار کو درست کیا جائے ورنہ یہ کسی بھی وقت کسی بڑے حادثے کا سبب بن سکتی ہے، لیکن کیا مجال کہ صدف کی شہادت تک کسی کے کان پر جوں رینگی ہو۔ یہ ایک واقعہ نہیں اس ملک میں اس سے ملتے جلتے سیکڑوں سانحات روزانہ پیش آتے ہیں۔ پرانے پاکستان میں بھی آتے تھے، نئے پاکستان میں بھی کوئی ٹس سے مس نہیں ہوا۔