حکیم محمد عمر انبالوی مرحوم کی یادیں
راقم چھٹی کا طالب علم تھا جب برادر اکبر انجینئر صوفی محمد اقبال انور کے ہم راہ بھیرہ کے معروف محلے جو ”ساہنیاں دا محلہ“ کے نام سے معروف تھا، میں مقیم حکیم عمر انبالوی سے پہلی ملاقات ہوئی تھی۔اس محلے کی تاریخی اہمیت مسلم رہی ہے۔یہاں کے باسی ہندوؤں نے تقسیم ہند کے بعد بھارت کے مختلف شعبہ ہائے زندگی میں بڑا نام کمایا ہے۔ معروف فلمی دنیا سے وابستہ شخصیت بلراج ساہنی اسی محلے کے باسی تھے۔ بھیشم ساہنی اور کلپنا ساہنی ایسی مشہور شخصیات کے بزرگوں کی یہ محلہ جنم بھومی رہا ہے۔پنڈت نہرو کے قریبی دوست، ترکی میں بھارت کے پہلے سفیر چمن لال ساہنی ایڈووکیٹ،جو ہند و پاک کے معروف وکیل بھی تھے یہیں کے رہائشی تھے، ان ہی کے عزیز جو اس زمانے میں ہائی کورٹ کے جج بھی رہے،ان کی حویلیاں اسی محلے میں موجود تھیں۔بلراج ساہنی نے اپنے ”سفر نامہ پاکستان“ میں ”ساہنیاں دے محلے“ کا جس جذباتیت سے ذکر کیا ہے اس سے اس محلے کی اہمیت مزید اُجاگر ہوجاتی ہے۔خیر سے جب راقم چھوٹی عمر میں اس محلے میں پہلی دفعہ گیا تو خوبصورت اور پُرشکوہ عمارات، جن کو یہاں رہنے والے ”ماڑیاں“کہتے تھے،کو دیکھ کر ششدر رہ گیا تھا۔اس محلے کی اس دور کی عمارات کو پاکستان کے ”آرٹ اینڈ کرافسٹ“ایسے معروف مجلے میں سرفہرست رکھا گیا ہے۔
ایسی ہی ساہنیوں کی ایک پُرشکوہ تین منزلہ عمارت میں انبالے سے ہجرت کر کے بھیرہ میں آنے والے حکیم عمر انبالوی رہائش پزیز تھے۔مقام مسرت ہے کہ ان کے پڑپوتے ذوالفقار نے اس عمارت کو آج بھی اصل حالت میں قائم رکھا ہوا ہے۔ حکیم صاحب اس عمارت کی تیسری منزل پر مقیم ہوتے تھے، وہیں مریضوں کی نبض دیکھ کر دوا تجویز کرتے تھے۔یہ 80ء کی دہائی تھی، جب اُن کی عمر سو برس کے قریب تھی، لیکن وہ اس عمر میں بھی چاک وچوبند دکھائی دیتے تھے۔
حکیم عمر انبالوی جب انبالہ سے ہجرت کرکے بھیرہ میں مقیم ہوئے،ان دنوں بھیرہ کے حکماء کا پورے پاکستان میں شہرہ تھا۔حکیم شاہ محمد شیخ پوری، حکیم غلام رسول علی پوری، حکیم مولوی برکات احمد بگوی، حکیم ایرانی،حکیم غلام مرتضیٰ شیخ پوری،طرطی پور کے حکماء اور حکیم ڈاکٹر خواجہ احسان الٰہی مرحوم ایسے معروف حکماء کے ہوتے ہوئے حکیم عمر انبالوی نے اپنی شخصیت اور فن کے بل بوتے پر بھیرہ میں ایک خاص مقام حاصل کر لیا تھا۔عالم جوانی میں آپ کا مطب پیر خاکی کے قریب ہوتا تھا جس کے بالکل متصل بھیرہ کا معروف محلہ ”حکیماں والا تھا“،جس کے بارے میں معروف محقق استادمحترم ڈاکٹر بلال سہیل پرنسپل چک لالہ کالج راولپنڈی کی تحقیق یوں ہے کہ اس محلے کے حکماء جن میں خواجگان بھی تھے، کا تعلق دہلی کے معروف شاعر اور حکیم مومن خان مومن کے خاندان سے تھا۔
گذشتہ دِنوں برمنگھم میں مقیم بھیرہ سے تعلق رکھنے والے راقم کے عزیز دوست معروف آرتھو پیڈک ڈاکٹر حافظ محمد خالد تین ہفتے کے لئے پاکستان تشریف لائے۔ وہ زمانہ طالبعلمی کی یادوں کو تازہ کرنے ہر اس جگہ گئے جہاں ان کی بچپن کی یادیں وابستہ تھیں۔حکیم شاہ محمد شیخ پوری مرحوم کے خاندان کے حکیم میاں طاہر وڑائچ سے ملاقات کے بعد ”ساہنیاں دے محلے“ کے ذکر پر ڈاکٹر خالد نے بتایا کہ ان کے ایک دوست ذوالفقار، جو لندن میں مقیم ہیں ان کا تعلق اس محلے کے معروف حکماء سے ہے۔برمنگھم جاتے ہوئے خالد بھائی ذوالفقار کے پاس لندن میں چند گھنٹوں مقیم رہے۔ وہیں راقم سے ان کا رابطہ کروایا گیا۔ تب معلوم ہوا کہ موصوف حکیم عمر انبالوی کے پڑپوتے ہیں۔ان کے والد حکیم محمد اقبال اپنے دادا عمر انبالوی کے ساتھ بھیرہ میں مطب کرتے رہے، پھر لندن کو سدھارے۔ انہوں نے 2008ء میں وہیں وفات پائی۔ یہ خاندان اب وہیں بسیرا کئے ہوئے ہے۔
حکیم عمر انبالوی 1900ء کے لگ بھگ انبالہ کے ایک علمی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ان کے والد محمد بہادر انبالے کے معروف حکماء میں سے تھے۔حکیم عمر نے تعلیم مکمل کرنے کے بعد علی گڑھ کے طبیہ کالج سے طب کی تعلیم حاصل کی۔ پھر اس شعبے سے یوں وابستہ ہوئے کہ پون صدی تک اس مشرقی علم و حکمت میں مستغرق رہے۔ بھیرہ میں غزالی زماں حکیم ڈاکٹر احسان الٰہی مرحوم کے مطب کے قریب آپ کا دواخانہ ہوتا تھا،جہاں آپ یرقان ایسے موزی مرض کا اس دور میں شافی علاج کرتے تھے۔آپ کا تعلق انبالے کی اس آرائیں فیملی سے تھا جنہوں نے تقسیم ہند کے بعد سرگودھا میں ڈیرے ڈالے تھے۔وہاں اس برادری کے قائم کردہ معروف تعلیمی ادارے گورنمنٹ انبالہ مسلم کالج اورانبالہ ہائی سکول آج بھی علم کی روشنی بکھیر رہے ہیں۔ حکیم عمر انبالوی نے سرگودھا کی بجائے بھیرہ کو اپنا مسکن بنایا۔بھیرہ میں کرنال اور پانی پت کی کثیر مہاجرت کرنے والی آرائیں برادری کی فیملیز آج بھی موجودہیں۔
حکیم عمر انبالوی نے بھر پور زندگی گزاری وہ میرے چچا محمد شفیع کے گہرے دوست تھے۔ان کے والد محمد بہادر انبالے کی معروف علمی شخصیت تھی۔حکیم عمر انبالوی کو اللہ نے تین بیٹوں سے نوازا تھا۔محمد لطیف جنیوا میں مقیم ہیں،جو 95 سال کی عمر میں بھی بھر پور زندگی گزار رہے ہیں۔ انہوں نے اقوام متحدہ میں پاکستانی ہائی کمیشن جنیوا میں اکاؤنٹینٹ کے طور پر خدمات سر انجام دی تھیں۔ان کے دوسرے فرزند، محمد بلال ایم بی بی ایس کرنے کے بعد حکیم محمد سعید شہید کے معروف ہمدرد دواخانے میں حکیم شہید کے ساتھ کام کرتے رہے۔ان ہی کے فرزند حکیم محمد اقبال لندن کو سدھارے جہاں یہ خاندان آج بھی بھیرہ کی یادوں کو سینے سے لگائے ہوئے ہے۔ محمد بلال نے نوے برس کی عمر میں داعی اجل کو لبیک کہا۔حکیم عمر انبالوی کے تیسرے فرزند محمد اصغر کراچی میں معروف ”سٹیل ملز“ کے اعلیٰ افسر رہے۔ انہوں نے بھی 90برس سے زائید عمر پائی۔ حکیم عمر انبالوی شعر وحکمت سے شغف رکھتے تھے راقم نے ان کو 94 برس کی عمر میں بھی چاک چوبند پایا۔وہ ریڈیو پاکستان کی نشریات کے گرویدہ تھے۔صبح نماز فجر سے پہلے اُٹھتے، ادائیگی نماز کے بعد سیر کرتے لیکن دس بجے کے بعد ناشتہ کرتے۔ ان کی یاداشت آخر وقت تک غضب کی رہی۔جب ضعف شدید ہو گیا تب بھی ”ساہنیاں دے محلے“ میں اپنے حویلی نما مکان کی تیسری منزل کی وسیع چھت پر وہ مغرب کے بعد دیر تک واک کرتے رہتے تھے۔ راقم کے شہر کی معروف عمارات جو بقول کامران لاشاری چیئرمین وال سٹی پاکستان،لاہور کی عمارات کے پائے کی ہیں اب منہدم ہوتی جارہی ہیں،ایسے میں حکیم انبالوی کے پڑیوتے ذوالفقار نے لندن سدھارنے کے باجود اپنے بزرگوں سے وابستہ عمارت کو اصلی شکل میں قائم رکھا ہوا ہے۔ضرورت اِس امر کی ہے کہ ہم اپنے اس تہذیبی ورثے کو جو90فیصد زمین بوس ہوچکا ہے، سنبھالیں، ورنہ ہم اپنی تہذیب وتاریخ سے آنے والی نسل کو آگاہی فراہم کرنے سے قاصر رہیں گے۔حکیم عمر کے پڑپوتے نے اپنے خاندان کی یادگاروں کو سنبھالا ہوا ہے۔ انہوں نے شاہی مسجد بھیرہ میں خاندان بگویہ کے قائم کردہ میوزیم میں حکیم عمر کے خاندان سے وابستہ بہت سی نادر اشیاء کو رکھ دیا ہے، جنہیں دیکھ کر آنے والے سیاح اس شہر کی قدرومنزلت سے آگاہی حاصل کر سکیں گے۔