حضرت بلالؓ کی ایمان افروز داستان حیات ۔۔۔ قسط نمبر68
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آج سیاہ و سفید کی تمیز مٹا کر مجھ سیاہ فام کو وہ توانائی بخش دی تھی کہ میری آواز نور کا ایک سیل بن کر سارے عرفات میں مؤجزن تھی۔ اذان کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے امامت فرمائی اور دو رکعت نماز ظہر اور پھر ساتھ ہی دوسری اقامت کے ساتھ دو رکعت نمازِ عصر قرأت کے ساتھ ادا کی۔ دونوں نمازیں قصر کے ساتھ پڑھیں۔ نماز سے فارغ ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خیمے کے پاس تشریف لائے، کچھ دیر جبل مشاۃ کے سامنے صخرات کے پاس قبلہ رُخ کھڑے رہے اور رب العزت کے حضور دعائیں مانگتے رہے۔ پھر قصواء سے اُترے اور خیمے میں داخل ہو گئے۔ آخری وحی اسی خیمے میں نازل ہوئی جو سورۃ مائدہ کی تیسری آیت کی شکل میں محفوظ ہے۔ یہ وحی ہمارے دین کی تکمیل کا اعلان تھا۔ وہ دین جو پیغمبرِ اولؑ سے شروع ہو کر نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم پر مکمل ہوا۔
حضرت بلالؓ کی ایمان افروز داستان حیات ۔۔۔ قسط نمبر67 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
غلامی
دمشق بہت بڑا شہر ہے۔ دنیا کا شاید قدیم ترین شہر۔ کئی قدیم و جدید تہذیبوں کا سنگم۔ صدیوں سے تجارت کا عظیم مرکز۔ یہاں بھانت بھانت کے لوگ رہتے ہیں۔ ایک سے ایک نکتہ داں، بال کی کھال کھینچنے والا۔ کچھ ایسے بھی ہیں جنہیں صرف نکتہ چینی سے سروکار ہے۔ میں نے کچھ لوگوں کو یہ کہتے سنا ہے کہ اسلام نے غلامی کے رواج کو بُرا کہتے ہوئے بھی اُسے روا رکھا اور زمانہء جاہلیت کی دیگر مذموم رسوم کی طرح اُسے یک قلم منسوخ کرنے کی بجائے اصل مسئلے سے چشم پوشی برتی۔ طبع آزمائی ہر شخص کا حق ہے لیکن فکر کا توازن اللہ کی دین ہے۔ میں، جس نے غلامی کے ہر دکھ کو اپنی جان پر جھیلا ہے، شاید اس موضوع پر کچھ کہنے کا زیادہ حق رکھتا ہوں۔
میں سمجھتا ہوں کہ ہر رسم کا ایک سماجی یا معاشرتی پس منظر ہوتا ہے۔ ہر رسم کی ابتدا کسی معقول وجہ سے ہوتی ہے۔ کچھ عرصے تک اُس کی معقولیت اور جواز قائم رہتا ہے، بعد میں انسان کی وقتی ضروریات یا اُس کا نفسیاتی عدم توازن اُس کی شکل بگاڑ دیتا ہے اور وہ اس حد تک مسخ ہو جاتی ہے کہ اُس کا بنیادی مقصد ہی نظروں سے اوجھل ہو جاتا ہے اور پھر سب بغیر سوچے سمجھے لکیر پیٹتے رہتے ہیں۔ عرب میں، جہاں تک مجھے علم ہے، پہلے پہل حبشہ کے لوگوں کو باقاعدہ غلام بنایا گیا تھا اور یہ اس لئے کہ یہ لوگ سمندر پار سے آ کر عربوں پر حملے کرتے رہتے تھے اور اُن کے علاقوں میں آئے دن لوٹ مار کرتے رہتے تھے۔ بعد میں بے گناہ حبشیوں کو بھی غلام بنایا جانے لگا بلکہ حبشی اور غلام تقریباً ہم معنی الفاظ ہو کر رہ گئے۔ پھر غلاموں کی ضرورت اور بڑھی تو کمزور عرب قبیلوں کے لوگوں کو، بے سہارا افراد کو، یہاں تک کہ نہتے مسافروں کو بھی پکڑ پکڑ کر غلام بنایا جانے لگا۔ سلمان فارسیؓ کے ساتھ بعینہ یہی صورت پیش آئی تھی، وہ اللہ لوگ، تلاشِ حق میں اپنے مرشد کی وصیت پر موصل سے حجاز کے سفر کو روانہ ہوا تو کچھ رقم دے کر بنو کلب کے ایک قافلے میں شامل ہو گیا۔ چند بھیڑ بکریاں جو اُس کا کل مال و متاع تھا، اُس کے ساتھ تھیں۔ قافلے والوں نے بدمعا ملگی کی۔ راستے میں پہلے تو اس کی بھیڑ بکریاں کھالیں اور وادی القریٰ پہنچ کر خود اُسے بھی ایک یہودی کے ہاتھ غلام کی حیثیت سے فروخت کر دیا۔ اُس یہودی نے اُسے کچھ عرصہ اپنے پاس رکھ کر مدینے کے بنو قریظہ میں اپنے ایک رشتے کے بھائی عثمان بن الاشہل کو بیچ دیا۔ اس طرح یہ مردِ حق مدینے میں وارد ہوا جہاں تاریخ نے اُس کے لئے لازوال عظمت و جلالت کا تاج تیار کر رکھا تھا۔ میرے والد اور والدہ تو شاید محض حبشی ہونے کے ناتے غلام بنا لئے گئے تھے۔ شقران صالحؓ اور عامر بن فہیرہؓ کا بھی اتنا ہی قصور تھا کہ وہ حبشی نژاد تھے۔
زیدؓ کے والد حارثہ یمن کے ایک نہایت معزز قبیلے قضاء سے تعلق رکھتے تھے۔ اُن کی والدہ سعدیٰ مشہورِ زمانہ حاتم طائی کے قبیلے کی ایک شاخ بنو مِعَن سے تھیں۔ ایک دفعہ وہ اپنے بچے کو لے کر میکے جا رہی تھیں کہ راستے میں بنوقین کی ایک جماعت نے غارت گری کی اور زیدؓ کو غلام بنا کر مکے لے آئے اور عکاظ کے میلے میں چار سو درہم کے عوض بیچ دیا۔ حکیم بن حزامؓ اُن کے پہلے آقا تھے۔ ثوبانؓ اور یاسرؓ کا تعلق بھی یمن سے تھا۔ یاسرؓ کا ایک بھائی لاپتہ ہو گیا تھا۔ وہ اُس کی تلاش میں اپنے دو بھائیوں حارث اور مالک کے ساتھ مکے آئے۔ بھائی تو واپس یمن چلے گئے مگر وہ خود مکے میں رہ پڑے، بنو مخزوم کے حلیف ہو کر۔ اُسی قبیلے کے ابو حذیفہ بن المغیرہ کی جاریہ، سمیہ بنتِ خباطؓ سے شادی کر لی۔ انہی کے بطن سے عمارؓ پیدا ہوئے۔ سمیہؓ کی نسبت سے یاسرؓ اور عمارؓ کا شمار بھی غلاموں میں ہونے لگا۔ سالمؓ، مولیٰ ابی حذیفہؓ بھی سلمان فارسیؓ کی طرح فارس نژاد تھے۔ صہیب بن سنانؓ عرب تھے۔ اُن کے والد شاہ فارس کی طرف سے شہر موصل کے پاس دریائے دجلہ کے کنارے ایک مقام ابلہ میں حاکم تھے۔ رومیوں نے اُن پر شب خون مارا اور صہیبؓ کو جو اُس وقت بچے تھے، پکڑ کر لے گئے۔ وہ وہیں رومیوں کے ساتھ پلے بڑھے۔ بعد میں قبیلۂ کلب کے لوگوں نے انہیں خرید لیا اور مکے لا کر فروخت کر دیا۔ خباب بن ارتؓ بنو تمیم کے اور ابوفکیہؓ قبیلہ ازد کے تھے۔ انہیں بھی باہر سے لا کر مکے میں فروخت کیا گیا تھا۔
اب غلامی کی حیثیت سزا کی نہیں رہ گئی تھی بلکہ ذی مرتبہ لوگوں کی ضرورت بن کر اُس نے ایک معاشرتی حقیقت کی صورت اختیار کر لی تھی۔ سزائیں تو دیر سویرسے ختم ہو جاتی ہیں مگر اب جو غلامی کا طوق کسی کی گردن میں پڑتا تو پھر موت ہی اُسے اُس بندھن سے آزاد کراتی اور اس نجات دہندہ کے لئے غلاموں کی نظریں اور ہاتھ ہر وقت آسمان کی طرف اُٹھے رہتے۔ غلامی کے اس ہمہ گیر رواج میں تاریخی اور جغرافیائی عوامل کے علاوہ علاقائی اور قبائلی عصبیتیں اور آقاؤں کے ذاتی مزاج کی بداعتدالیاں بھی شامل ہوتی گئیں اور رفتہ رفتہ یہ ایک ایسا ہم رنگِ زمیں جال بن گیا جو کسی کو نظر بھی نہیں آتا تھا، محسوس بھی نہیں ہوتا تھا۔ مراعات یافتہ طبقہ اُسے اپنی روزمرہ زندگی کا معمول سمجھ کر اُس پر غور بھی نہیں کرتا تھا مگر جن کے لئے یہ جال بچھا تھا اُن کی زندگی میں زہر گھولے رہتا تھا۔ مسئلے کی نوعیت یوں ہو تو اصلاحِ احوال کا کیا محل ہے۔ حل تو اُس چیز کا ڈھونڈا جاتا ہے جو حل طلب ہو۔ غلامی تو کسی کے نزدیک کوئی مسئلہ تھا ہی نہیں اور جن کے نزدیک تھا وہ مجھ جیسے بے نوا، بے سہارا لوگ تھے جو وقت کے معاشرتی تناظر میں کوئی آواز نہیں رکھتے تھے۔
مکے میں، صہیب رومیؓ اپنے روم کے قیام کے زمانے کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ روم میں جبر و استبداد سے تنگ آ کر غلاموں نے اپنے آپ کو ایک غلام کی قیادت میں منظم کیا اور اپنے آقاؤں کے خلاف بغاوت کر دی۔ رومیوں نے اُن کی سرکوبی کے لئے کئی لشکر روانہ کئے لیکن سرفروش غلاموں کی فوج اس بہادری سے لڑی کہ اُنہیں شکست دے دی، مگر آخری لڑائی میں باوسیلہ آقاؤں کی فوج فتح یاب ہوئی اور غلام ہار گئے۔ غلاموں نے یہ جنگ اپنی آنکھوں میں آزادی کا خواب سجا کر لڑی تھی کیونکہ اُن کا خیال تھا کہ وہ رومیوں سے نجات حاصل کر کے اپنے اپنے علاقوں میں واپس چلے جائیں گے۔ لیکن ان کا یہ خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا اور آزادی کی اُس تگ و دو میں ہزاروں غلام اپنی جان کی بازی ہار گئے۔(جاری ہے)
حضرت بلالؓ کی ایمان افروز داستان حیات ۔۔۔ قسط نمبر69 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں