حضرت بلالؓ کی ایمان افروز داستان حیات ۔۔۔ قسط نمبر69

حضرت بلالؓ کی ایمان افروز داستان حیات ۔۔۔ قسط نمبر69
حضرت بلالؓ کی ایمان افروز داستان حیات ۔۔۔ قسط نمبر69

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

زید بن حارثہؓ، دعوتِ حق پر لبیک کہنے والے پہلے غلام تھے ۔ نو دفعہ اسلامی لشکروں کے سپہ سالار بنا کر بھیجے گئے۔ عائشہؓ نے ایک دفعہ کہا تھا جس فوج کشی میں زیدؓ شریک ہوتے تھے، اُس میں امارت کا عہدہ اُن ہی کو عطا ہوتا تھا۔ موتہ کی مہم میں جہاں انہوں نے شہادت پائی، جعفر طیارؓ اور عبداللہ بن رواحہؓ جیسے جلیل القدر صحابی اُن کے جلو میں تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اپنا منہ بولا بیٹا بنایا۔ اُن کا خصوصی شرف یہ ہے کہ تمام صحابہء کرامؓ میں وہ واحد شخص ہیں جن کا نام قرآنِ کریم میں آیا ہے۔ موتہ کی دوسری مہم کے لئے سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کے بیٹے اُسامہؓ کو صغر سنی کے باوجود جیشِ اسلامی کی امارت سونپی جبکہ عمرؓ جیسے اجل صحابی اُن کی فوج میں شامل تھے۔ عمرِ فاروقؓ نے خلافت کا عہدہ سنبھالا تو اُسامہؓ کا وظیفہ اپنے صاحب زادے عبداللہ رضی اللہ عنہ سے زیادہ رکھا۔ عبداللہ رضی اللہ عنہ نے وجہ دریافت کی تو عمرؓ نے فرمایا:
’’یہ اس لئے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسامہؓ کو تجھ سے زیادہ عزیز رکھتے تھے اور اس کے والد انہیں تیرے والد سے زیادہ محبوب تھے۔‘‘

حضرت بلالؓ کی ایمان افروز داستان حیات ۔۔۔ قسط نمبر68 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
غزوۂ مریسیع کے موقع پر حضورؐ نے زیدؓ کو مدینے میں اپنی جانشینی کا شرف بخشا۔
عامر بن فہیرہؓ نے ہجرت کے پُر خطر تاریخی سفر میں ان کے ساتھ رہ کر اُن کا وہ اعتماد حاصل کیا جو رہتی دنیا تک سب کے لئے باعث رشک رہے گا۔ ان کی تربیت کا یہ عالم تھا کہ جب سانحہ بیر معونہ میں جبار بن سلمیٰ کلابی کا نیزہ اُن کے سینے سے پار ہوا تو بے ساختہ منہ سے نکلا’’خدا کی قسم میں کامیاب ہو گیا‘‘ جبار جو اس موقعے پر اپنے آپ کو کامیاب سمجھ رہا تھا کچھ نہ کہہ پایا۔ یہ الفاظ اس جوشِ ایمانی اور جذبہ یقین کے ساتھ کہے گئے تھے کہ اُن کی گونج اُس وقت تک قاتل کے ذہن کے پردوں سے ٹکراتی رہی جب تک وہ ضحاک بن سفیانؓ سے اُن الفاظ کا مفہوم جان کر مسلمان نہیں ہو گیا۔
شقران صالحؓ ، عبدالرحمن بن عوفؓ کے غلام تھے۔ انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نذر کر دیا تو حضورؐ نے انہیں آزاد فرما دیا مگر شقرانؓ اپنی خوشی سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت پر مامور رہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اُن کی خدمات سے اس قدر خوش تھے کہ وفات کے وقت بطورِ خاص اُن سے حسن سلوک کی وصیت فرمائی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل خانہ میں ان کا مقام یہ تھا کہ خیر الانام صلی اللہ علیہ وسلم کی تجہیز و تکفین میں وہ گھر والوں کے ساتھ شامل رہے۔ جو چادر اُس وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زیب بدن تھی، شقانؓ اُس کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے جسدِ اطہر کی تدفین تک اپنے ہاتھوں میں تھامے رہے یہاں تک کہ روشنی غروب ہو گئی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار فرمایا تھا:
’’لوگو! ابوبکر اور عمر کی اقتدا کرو اور عمار کی روش سیکھو۔‘‘
ایک اور موقع پر انہوں نے ارشاد فرمایا تھا:
’’اگر عمار کو دوباتوں کے درمیان اختیار دیا جائے تو وہ اُسی بات کو اختیار کریں گے جو بہتر ہو گی۔‘‘
میں نے عبداللہ بن عباسؓ سے سُنا ہے کہ قرآنِ کریم کی یہ آیت عمارؓ ہی کی شان میں نازل ہوئی تھی کہ وہ شخص جو رات کو سجدے اور قیام کر کے عبادت کرتا ہے اور آخرت کے خوف سے اپنے رب سے رحمت کی اُمید رکھتا ہے، گناہگاروں کے برابر نہیں ہو سکتا۔
عمارؓ نے بھی بڑی منزلت پائی۔ ابھی چند روز قبل میں نے سُنا کہ انہیں کوفے کا والی مقرر کر دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر قدم پر اُن کی رہنمائی فرمائے۔
سلمان فارسیؓ جنہوں نے جنگ احزاب میں خندق کھودنے کا مشورہ دیا تھا، رہتی دنیا تک افقِ اسلام پر ایک تابندہ ستارے کی طرح جگمگاتے رہیں گے۔ اب تو کسی کو یاد بھی نہیں کہ کبھی وہ غلام بھی تھے۔ سارے صحابہ میں اُن کا بے حد احترام ہے۔ اللہ کے رسولؐ نے ایک بار فرمایا تھا:
’’جنت تین شخصوں کی مشتاق ہے۔ علی، عمار اور سلمان‘‘۔
علیؓ نے ایک بار کہا تھا:
’’سلمان ایسا سمندر ہیں جو کبھی خشک نہیں ہوتا۔‘‘
حضور صلی اللہ علیہ وسلم انہیں سلمان الخیر کہا کرتے تھے۔
معاذؓ ابن جبلِؓ جیسے جید عالم نے ایک موقع پر اپنے ایک شاگرد سے کہا تھا:
’’میرے بعد چار آدمیوں سے علم حاصل کرنا۔‘‘
ان چار میں سلمانؓ کا بھی نام تھا۔ چند ماہ قبل تک تو سلمانؓ مدینے ہی میں تھے لیکن آج کل سنا ہے عراق چلے گئے ہیں۔ اُن کے ساتھ گزرا ہوا وقت میری زندگی کا حسین سرمایہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اُن کی راہوں میں خوشیاں بکھیرے رکھے!(جاری ہے )

حضرت بلالؓ کی ایمان افروز داستان حیات ۔۔۔ قسط نمبر70 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں