حضرت بلالؓ کی ایمان افروز داستان حیات ۔۔۔ قسط نمبر67
ابو محذورہ واپس اپنی صفوں کی طرف جانے لگے تو اُن صفوں سے ایک اور آواز اُبھری’’یا محمد! میں عتاب بن اسید ہوں، آپ کا مشہور دشمن!‘‘
یہ کہتے ہی اُس بیس سالہ نوجوان نے نہایت بلند آواز سے کلمہء شہادت ادا کیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بھرے مجمع میں اپنے منہ بولے دشمن سے ایمان کی شہادت سنی تو فوراً اعلان فرمایا:
’’میں تمہیں مکے کا امیر مقرر کرتا ہوں‘‘
ساتھ ہی دینی تعلیم کے لئے انہوں نے معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو اُن کے ساتھ مامور کر دیا۔ عتاب بن اسید کا مشاہرہ ایک درہم یومیہ مقرر ہوا۔
اُس سال فریضۂ حج اُنہی کی قیادت میں ادا ہوا۔
حضرت بلالؓ کی ایمان افروز داستان حیات ۔۔۔ قسط نمبر66 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
ایک لمحے پہلے کا دشمن دین، اسلام کے مفتوحہ شہر کا مطلق العنان والی بن گیا، ایک لمحے پہلے کا غیر سنجیدہ، شریر نوجوان کائنات کی سب سے محترم عبادت گاہ کا مؤذن مقرر ہو گیا۔ یہ تھا عفو و درگزر کا وہ سبق جو ہادیِ برحق صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیاوی اور مادّی مصلحتوں میں جکڑی ہوئی انسانیت کو سکھایا۔ پھر عتابؓ اور ابو محذورہؓ ہی کیا، محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمت بے پایاں کا نفسیاتی اثر یہ ہوا کہ دیکھتے ہی دیکھتے پورا علاقہ ایمان کی روشنی سے منور ہو گیا۔
ابھی چند روز پہلے میں اپنے ایک بزرگ دوست کے یہاں اُنہیں عمرے کی مبارکباد دینے حاضر ہوا تھا۔ مکے کا حال احوال سننے کا بھی شوق تھا، کہ آخر مکہ میری جائے پیدائش تھا اور وہاں کے ایک ایک ذرے سے میری ہزار ہزار یادیں وابستہ تھیں۔باتوں باتوں میں معلوم ہوا کہ ابو مجذورہؓ آج بارہ سال بعد بھی مسجد الحرام میں مؤذن کے فرائض انجام دے رہے ہیں اور اہل مکہ میں اُن کا بڑا احترام ہے۔ اللہ تعالیٰ اُنہیں ہمیشہ شاد کام رکھے۔
خطبۂ عرفات
دس ہجری، ذی الحج کی نو تاریخ، جمعہ کا دن، مقام: منیٰ۔ علی الصبح ربیعہ بن کعبؓ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے وضو کا انتظام کیا اور میں نے فجر کی اذان دی۔ ہم نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز ادا کی اور جب سورج ذرا نکل آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے وادی نِمرہ میں اپنے لیے خیمہ نصب کرنے کا حکم دیا۔ میں نے یہ ہدایت لوگوں تک پہنچا دی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم منیٰ سے روانہ ہوئے۔ جاہلیت کے زمانے میں قریش کا یہ دستور تھا کہ وہ عرفات پہنچنے سے پہلے مزدلفہ میں مشعر الحرام کے قریب قیام کرتے تھے۔ چنانچہ خیال یہ تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم عرفات جاتے ہوئے مزدلفہ میں قیام فرمائیں گے، لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس دستور کے برعکس براہِ راست وادیِ نِمرہ میں تشریف لائے اور سنت ابراہیمی ؑ کے مطابق اعلان فرمایا:
’’اپنے مقدس مقامات پر ٹھہرو کیونکہ تم اپنے باپ ابراہیمؑ کی میراث پر ہو۔‘‘
حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کوہِ ثبیر کے ایک غار کے دہانے پر سرخ اونی کپڑے کا ایک خیمہ نصب کر دیا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دن ڈھلے تک خیمے میں قیام فرمایا اور عبادات میں مصروف رہے۔ پھر اپنی اونٹنی قصواء پر سوار ہوئے اور وادیِ عرفات میں جبل الرحمت کی طرف بڑھے۔ میں پاپیادہ قصواء کی مہار تھامے ساتھ ساتھ چل رہا تھا۔ فرزندانِ توحید نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو جبل الرحمت کی طرف جاتے دیکھا تو سب کے سب بصد اشتیاق اس چھوٹی سی پہاڑی کے گرد اکٹھے ہونے لگے۔ قصواء خراماں خراماں قدم اُٹھاتی ہوئی اپنے عظیم المرتبت سوار کو پہاڑی کے اوپر لے گئی۔ ہمارے نیچے وادی میں ایک لاکھ سے بھی کہیں زیادہ کا اجتماع تھا۔ احرام میں ملبوس فرزندانِ توحید کا اتنا بڑا اجتماع چشمِ فلک نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔
چاروں طرف مُکبرِّ تعینات تھے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لبِ مبارک سے ادا ہونے والے ایک ایک جملے کو اس طرح دُہراتے جائیں کہ ایک ایک لفظ ہر شخص کے کانوں تک پہنچ جائے۔
حمد و ثناء کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جاہلیت کے تمام دستور میرے قدموں تلے ہیں۔
اے لوگو! بیشک تمہارا رب ایک ہے، اور بیشک تمہارا باپ ایک ہے۔
کسی عربی کو عجمی پر اور کسی عجمی کو عربی پر، کسی سرخ کو سیاہ پر اور کسی سیاہ کو سرخ پر کوئی فضیلت نہیں ہے، اگر کوئی فضیلت ہے تو محض تقویٰ کی بنیاد پر۔
سب مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔
جو خود کھاؤ وہی اپنے غلاموں کو کھلاؤ، جو خود پہنو وہی ان کو پہناؤ۔
آج جاہلیت کے تمام خون معاف کر دئیے گئے اور سب سے پہلے میں اپنے خاندان کے ربیعہ بن حارث کا خون معاف کرتا ہوں۔
جاہلیت کے تمام سود بھی باطل کر دئیے گئے اور سب سے پہلے میں اپنے چچا عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کا سود منسوخ کرتا ہوں۔
عورتوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرو۔ تمہارا عورتوں پر اور عورتوں کا تم پر حق ہے۔
تمہارا خون، تمہارا مال تاقیامت اسی طرح حرام ہے جس طرح اس مہینے میں اور اس جگہ آج کا دن حرام ہے۔
میں تم میں ایک چیز چھوڑے جا رہا ہوں۔ اگر تم نے اس کو مضبوطی سے تھامے رکھا تو کبھی گمراہ نہ ہو گے۔ وہ چیز کیا ہے، اللہ کی کتاب!
اللہ نے ہر حق دار کو اس کا حق دے دیا ہے۔ اب کسی کو وارث کے حق میں وصیت جائز نہیں۔
بچہ اس کا ہے، جس کے بستر پر پیدا ہوا اور زنا کار کے لیے پتھر ہے اور اس کا حساب اللہ کے ذمے ہے۔
جو اپنے باپ کے سوا کسی اور کے نسب سے ہونے کا دعویٰ کرے اور جو غلام اپنے آقا کے سوا کسی اور طرف اپنی نسبت کرے، اس پر اللہ کی لعنت۔
عورت کو اپنے شوہر کے مال میں سے اس کی اجازت کے بغیر کسی کو کچھ دینا جائز نہیں۔
قرض ادا کیا جائے، عاریتاً لی ہوئی ہر چیز واپس کی جائے، عطیے کا بدلا عطیہ ہے اور ضامن تاوان کا ذمہ دار ہے۔‘‘
میدانِ عرفات میں چاروں طرف پھیلے ہوئے مکبِّر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک ایک لفظ نشر کر رہے تھے اور حجاج ہمہ تن گوش، نہایت غور سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خطبہ مبارک سُن رہے تھے۔ خطبہ کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حاضرین سے دریافت فرمایا:
’’تم سے اللہ کے ہاں میری نسبت پوچھا جائے گا تو تم کیا جواب دو گے؟‘‘
مجھ سمیت سب نے بیک آواز عرض کیا:
’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! ہم کہیں گے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلمنے اللہ کا پیغام ٹھیک ٹھیک ہم تک پہنچا دیا‘‘
اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگشتِ مبارک آسمان کی طرف بلند کی اور تین مرتبہ یہ الفاظ دُہرائے:
’’اے اللہ تو گواہ رہنا کہ یہ لوگ کیسی صاف صاف گواہی دے رہے ہیں۔‘‘
خطبہ تمام ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اذان دینے کا حکم دیا۔ چند ہی لمحوں میں ساری وادی میری آواز سے گونج رہی تھی۔ میں سراپا آواز بن چکا تھا، ایسی آواز، جو ہر طرف پہنچ رہی تھی اور عرفات کی پہاڑیوں سے ٹکرا کر واپس مجھ تک آ رہی تھی۔(جاری ہے )
حضرت بلالؓ کی ایمان افروز داستان حیات ۔۔۔ قسط نمبر68 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں