ہر پاکستانی کا، ایک ہی سوال
آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل(ر) فیض حمید کی گرفتاری اور اُن کے کورٹ مارشل کی خبر تو دھماکہ خیز تھی ہی لیکن اِس دھماکے میں یہ بڑا دھماکہ بھی چھپا ہوا تھا کہ اُن کی بعداز ریٹائرمنٹ سرگرمیوں کو آرمی ایکٹ کی خلاف ورزی گردانا گیا،اور ان کی چھان پھٹک کر کے اُنہیں کٹہرے میں لا کھڑا کیا گیا۔اِس کے بعد ان کے تین فوجی معاونین کو بھی گرفتاری نصیب ہو گئی۔تحقیقات کا دائرہ کتنا وسیع ہے،اس کی لپیٹ میں کون کون آئے گا، یہ کہنا مشکل ہے کہ آئی ایس پی آر نے اِس حوالے سے کوئی رہنمائی فراہم نہیں کی۔جو کچھ بتایا گیا ہے،اس کی تفصیل میں جانا یوں ممکن نہیں کہ یہ اندھیرے میں تیر چلانے کے مترادف ہو گا۔ پاکستانی قوم میں اور جن لوگوں کی بھی کمی ہو، تیر چلانے والوں کی کمی نہیں ہے۔ان میں بڑی تعداد اندھیرے سے فائدہ اٹھانے والوں کی ہے جس کا تیر جس پر چل جائے اور جہاں چل جائے،اِس کی کسی کو فکر ہے نہ پرواہ۔عوام کو رکھیے ایک طرف، خواص کو بھی یہ مشغلہ بہت مرغوب ہے،اور وہ اندھیرے کا فائدہ اٹھانے ہی پر کمر بستہ نہیں رہتے اندھیر مچانے پر بھی لگے رہتے ہیں۔
آئی ایس آئی ہمارا قابل ِ فخر ادارہ ہے۔ کاؤنٹر ٹیرررازم کے حوالے سے اِس کی خدمات کا انکار کسی طور ممکن نہیں۔اِس میں بڑی تعداد میں فوجی افسران کام کرتے ہیں،سربراہی بھی اعلیٰ ترین فوجی افسروں کے حصے میں آتی ہے۔ قانونی طور پر وزیراعظم اِس کے سربراہ کی تقرری کرتے ہیں اور وہ وزیراعظم ہی کو جوابدہ ہوتا ہے لیکن بار بار مارشل لاء کے نفاذ اور پھر سیاست کی بے لگامیوں نے معاملے کو الٹ دیا ہے۔ آرمی چیف کی گرفت اِس پر مضبوط ہوتی چلی گئی ہے۔لیفٹیننٹ جنرل (ر) اختر عبدالرحمن اِس کے سربراہ تھے تو میڈیا کو اُن تک رسائی نہ تھی، وہ کیمرے اور خبروں سے دور رہتے تھے،اُنہیں خاموش مجاہد کہا اور سمجھا جاتا تھا۔ جنرل ضیاء الحق کا انتہائی اعتماد اُنہیں حاصل رہا اور اُن ہی کی سربراہی میں افغانستان میں سوویت یونین کے دانت کھٹے کیے گئے۔ امریکہ کے پالیسی سازوں کو بھی تب یقین نہیں تھا کہ سوویت فوجیں کہیں سے واپس بھی دھکیلی جا سکتی ہیں، یہ معجزہ کر دکھایا گیا۔ سوویت فوجوں کے ناقابل ِ تسخیر ہونے کے دعوے ہوا میں اُڑ گئے۔بت پاش پاش ہوا تو اس کے مجبور پجاریوں میں بھی نفسیاتی توانائی کی لہر دوڑی، سوویت وفاق میں شامل کئی ریاستوں نے علم ِ بغاوت بلند کیا، وسطی ایشیاء آزاد ہوتا چلا گیا۔ آج دنیا کے نقشے پر سوویت یونین نام کا کوئی ملک موجود نہیں ہے۔خدا بخشے (یا نہ بخشے) بڑی خوبیاں تھیں مرنے والے میں۔
یہ لڑائی پاکستان نے نہیں،افغان مجاہدین نے لڑی،ان کی پشت پر البتہ ہم کھڑے رہے۔ترتیب و تربیت کے جملہ امور انجام دیئے گئے، پاکستان کی سرزمین لاکھوں مہاجرین کے سامنے بچھی رہی، مجاہدین یہاں آ کر تازہ دم ہوتے اور پھر اپنی سرزمین پر جا کر جوہر دکھاتے۔اُنہیں وسائل کی فراہمی کی ساری ذمہ داری آئی ایس آئی کے کاندھوں پر تھی۔ سی آئی اے اور آزاد دنیا کے دوسرے ادارے اِس ہی سے رابطہ رکھتے اور اُس ہی کے ذریعے مجاہد تنظیموں سے تعلق قائم کر سکتے تھے۔کسی امریکی اہلکار یا ایجنسی کو افغان سرزمین پر پاؤں دھرنے یا براہِ راست افغانوں سے معاملہ کرنے کی جسارت تھی نہ اجازت۔جنرل ضیاء الحق اور ان کے رفقاء نے معاملہ صرف اور صرف اپنے ہاتھ میں رکھا اور وہ اہداف حاصل کر دکھائے جو بیشتر عالمی طاقتوں (بشمول امریکہ اور چین) کو بھی مطلوب تھے۔عالم ِ اسلام بھی اس جدوجہد سے جڑا ہوا تھا۔
سوویت فوجوں کے انخلاء کے بعد جو کچھ ہوا، وہ اب تاریخ کا حصہ ہے۔ جنرل ضیاء الحق،جنرل اختر عبدالرحمن اور ان کے متعدد رفقاء طیارے کے حادثے میں لقمہ ئ اجل ہوئے اور افغانستان میں مربوط و منظم حکومت قائم کرنے کا خواب ادھورا رہ گیا۔جنرل اختر عبدالرحمن کے چیئرمین جائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی بننے کے بعد جنرل حمید گل نے آئی ایس آئی کی سربراہی سنبھالی تھی، محترمہ بے نظیر بھٹو وزارتِ عظمیٰ پر فائز ہوئیں، تو معاملات ہاتھ سے نکلنا شروع ہو چکے تھے۔کہا جاتا ہے کہ صدر جنرل ضیاء الحق اور وزیراعظم محمد خان جونیجو کے درمیان سوویت فوجوں کی واپسی کے حوالے سے ہونے والے معاہدہ جنیوا پر فاصلے پیدا ہو چکے تھے،یہی بات جونیجو اسمبلی کی تحلیل اور بعدازاں حادثہ ئ بہاولپور پر منتج ہوئی۔جنرل ضیاء الحق بعداز سوویت یونین جس طرح کا افغانستان چاہ رہے تھے، جونیجو اس میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے تھے، ان دونوں کے خواب اپنے اپنے تھے۔ جونیجو صاحب کا کہنا تھا کہ مذاکرات کے جس سلسلے کا آغاز ضیاء دور میں ہوا تھا، وہ اسے ختم کر سکتے ہیں نہ کوئی نیا موڑ دے سکتے ہیں جبکہ جنرل ضیاء الحق کا خیال تھا کہ مذاکراتی سلسلے کو فیصلہ کن موڑ (اپنے حق میں) دیا جا سکتا ہے۔وزیراعظم جونیجو جنرل ضیاء الحق کے نامزد وزیر خارجہ صاحبزادہ یعقوب خان کو ان کے منصب سے الگ کر کے معاملات کو اپنے ہاتھ میں لینے کی کامیاب کوشش کر چکے تھے۔اُنہوں نے وزارت خارجہ میں زین نورانی مرحوم کو لا بٹھایا اور انہی نے جنیوا مذاکرات کو سرے لگایا۔کشتی کنارے لگا دی یا یہ کہیے کہ منجدھار میں پھنسا دی۔محمد خان جونیجو کو وزارتِ عظمیٰ کے منصب سے ہاتھ دھونا پڑے تو جنرل ضیاء الحق اور جنرل اختر عبدالرحمن کو جان سے،پاکستان کے خارجی معاملات ”لاوارث بچے“ کی صورت ہچکیاں لینے لگے۔ وہ دن جائے اور آج کا آئے،افغانستان میں بہت کچھ ہو چکا، لیکن وہ نہیں ہو پایا جس کی توقعات ہم باندھ رہے تھے یا یہ کہیے کہ جس کے خواب دیکھ رہے تھے یا یہ کہیے کہ جس کے منصوبے بنا رہے تھے۔ آئی ایس آئی کا البتہ قومی امور میں عمل دخل بڑھ گیا،آلات، تجربے اور تربیت سے لیس وہ داخلی نظام میں اپنے جوہر دکھانے لگی۔
جنرل ضیاء الحق اور جنرل اختر عبدالرحمن کی شہادت(جو اگست ہی کے مہینے کی 17تاریخ کو واقع ہوئی تھی) کے بعد پاکستان کئی نشیب و فراز سے گذرا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو، نواز شریف، جنرل پرویز مشرف،آصف علی زرداری، عمران خان نے اپنے اپنے جوہر دکھائے،لیکن پاکستانی سیاست کو سکون اور استحکام نصیب نہیں ہوا۔پاکستان کی معیشت سنبھلتی اور بگڑتی رہی، سیاست الجھتی اور سلجھتی رہی، یہاں تک کہ نوبت آئی ایس آئی کے ایک سابق سربراہ کے کورٹ مارشل تک پہنچی ہے، ان پر بعداز ریٹائرمنٹ بھی قانون شکنی کا الزام ہے۔اِس دوران ہماری ریاست ایٹمی طاقت بنی، چھ ایٹمی دھماکے کر کے اس نے اپنی دھاک بٹھائی لیکن اس کے اجتماعی نظم کو استوار اور بحال نہیں کیا جا سکا۔آج بھی اسے یہی چیلنج درپیش ہے،آزادی کی77ویں سالگرہ مناتے ہوئے بھی یہ معلوم نہیں ہو پا رہا کہ ہماری قسمت کے فیصلے کون، کہاں کر گذرتا ہے۔آئینی فیصلہ ساز نہ ہر فیصلے میں شرکت کا اعتراف کرتے ہیں، نہ اس کی ذمہ داری اٹھانے پر تیار نظر آتے ہیں۔ لیفٹیننٹ جنرل(ر) فیض حمید کی گرفتاری نے ریاستی بدنظمی کے حوالے سے اُٹھنے والے سوالات کو مزید گہرا کر دیا ہے،طاقت کے نشے میں دھت ہونے والوں کو جب تک آئین کی لگام نہیں ڈالی جائے گی ہم آگے نہیں بڑھ سکیں گے لیکن یہ لگام کون ڈالے گا؟ ہر پاکستانی کے چہرے پر یہی سوال لکھا ہے۔ ایک بار پڑھ لیجیے یا سو بار، جواب مل جانا چاہیے۔
(یہ کالم روزنامہ ”پاکستان“ اور روزنامہ ”دُنیا“ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)