ہماری دین داری

ہماری دین داری
ہماری دین داری

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


وقتِ مغرب کی باجماعت نماز کھڑی تھی۔امام نے سورۃ فاتحہ کی تلاوت مکمل کرتے ہوئے ”والاالضآلین“کہا تو ایک مقتدی نے بلند آواز میں ”آمین“کہہ ڈالا۔اتنا سُننا تھا کہ امام صاحب نماز توڑ کر اس ”آمین“کہنے والے مقتدی پر حملہ آور ہوئے، اور اسے یہ کہتے ہوئے دھکے دے کر مسجد سے باہر نکال دیا کہ تو نے نہ صرف ہماری نماز کوفسخ کر دیا ہے بلکہ مسجد کو بھی نجس کر دیا ہے۔
دینی مسائل اور معامالات پر ”فیصلہ زَنی“ کا اختیار کچھ تو مسجد و منبر کے”متولیوں“ نے خود سے اپنا استحقاق بنا رکھا ہے اور کچھ ہمارے معاشرے نے یہ ذِمّہ داری اُنہیں سونپ رکھی ہے،کیونکہ معاشرہ اجتماعی طور پردین سے مکمل جانکاری کو لازمی سمجھنے سے احتراز برتتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ دین کے بطن سے جنم لینے والی معاشرتی، اخلاقی اور معاشی اقدار ہمارے روّیوں کو متاثر نہیں کر سکیں۔اگر دینداری کی ذِمّہ داری کو ہم نے چند”مخصوص کندھوں“پر اُٹھانہ رکھا ہوتا تو شاید یہ معاشرتی،معاشی اور اخلاقی اقدار ہماری رَگوں میں بہنے والے خون کے ساتھ دوڑ رہی ہوتیں اور ہم بچّے کے لمحہئِ پیدائش پر کانوں میں اذان خود دے لیتے۔میّت کے غُسّل اور جنازہ کی رسومات سے بذاتِ خود عہدہ برآ ہوتے۔ہمیں پیدائش و وفات کے درمیان کی تمام دینی ضروریات پر فیصلے اور فتاویٰ کی الجھنوں میں نہ جانا پڑتا۔اس طرح مخصوص طبقہ نہ توہمارے ذہنوں کو اپنی دینی برانڈمیں لے سکتا اور نہ ہی معاشرے میں اتنا تَشدّد، عدم رواداری،رشوت ستانی اورمعاشرتی غلاظت کا تعفن چارسُو دم گُھٹنے کا سبب ہوتا۔


وطنِ عزیز میں ماضی قریب میں برپا ہونے والے چند واقعات پر ہی نظردوڑا لیجیے۔قصور کی معصوم بچّی زینب کے ساتھ زیادتی کے واقعہ سے لے کر سیالکوٹ میں جلنے والے سری لنکا کے پریانتھا کمارا تک،کراچی میں فیکٹری میں جلنے والے مزدوروں سے لے کر جی ٹی روڈ گجرات پرپولیس کی مَسخ شُدہ لاشوں کے روح فرسامناظرتک اس بات کی بیّن دلیل ہیں کہ معاشرے کی طرف سے چند کندھوں پر مُسلّط کردہ اجارہ داری پر نظرِ ثانی کی ضرورت ہے۔ہمارے دنیاوی تعلیمی اداروں اور مذہبی تعلیمی اداروں کے نصاب پر دسترس کے لئے سرکار نے کسی نہ کسی وجہ سے اپنے دائرے اختیار میں واضح فرق رکھا ہے۔دنیاوی تعلیمی اداروں کے نصاب پر سرکار کو اختیار کُلّی حاصل ہے، جبکہ نجی تعلیمی اداروں کے نصاب کے تعیّن پر سرکار نے جُزوی اختیار استعمال کیا ہے۔دینی تعلیمی اداروں کے نصاب کے تعیّن کا اختیار فرقہ وارانہ نصابی بورڈوں کو حاصل ہے۔ہر مکتبِ فِکر (فرقہ)نے اپنا الگ نصابی بورڈ تشکیل دے رکھا ہے تاکہ اپنے مشاہیر کی تعلیمات پر اپنے ”مقتدیوں“کی راہنمائی ”دُرست سمت“ میں کر سکیں۔جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ مکاتبِ فِکر کے درمیان پائے جانے والے فروعی اختلافات وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کم ہونے کی بجائے شِدّت اختیار کرتے جا رہے ہیں۔


ایک اعلیٰ سطحی مجلس میں جہاں مختلف دینی نصابی بورڈوں کے مقتدر احباب کو دعوت دی گئی تھی مدرسّہ جاتی تعلیمی نصاب پر گفتگو ہوئی۔اُن سے درسِ نظامی کے نصاب میں یکساں تبدیلی کی بات کی گئی تاکہ مدرسّہ کے طلبا و طالبات مسجد و منبر کی تعلیم کے ساتھ ساتھ کَسبِ حلال کے دیگر راز سیکھ کر معاشرے میں اہم کردار ادا کر سکیں۔اس بات کو قطعاً پسند نہ کیا گیا۔حالانکہ درسِ نظامی کا رائج الوقت نصاب اورنگزیب عالمگیر کے دور کے ایک عالمِ دین، نظام الدّین سیہالوی نے 1748ء میں ترتیب دیاتھا۔آج چار سو سال سے زیادہ کا عرصہ گزر جانے کے باوجود یہ نصاب اُسی طرح پڑھایا جا رہا ہے۔صاحبِ علم لوگ اس نصاب کے بہت سے مشتملات کو آج غیر ضروری سمجھتے ہیں،تاہم پھر بھی پڑھائے جا رہے ہیں۔اس میں ”السبع الملعلّقات“ بھی موجود ہیں۔جو دورِ جہالت کی سات طویل عربی نظموں پرمشتمل ہیں۔ان میں اس وقت کے معروف شعراء اِمرالقیس اورزُہیربن سُیلمہ کی نظمیں خالصتاً دورِ جہالت کی فُحش شاعری کی نُمائندگی کرتی ہیں۔یہ وہ کلام ہے جس کوعربی جاننے والے احباب اپنے بیوی بچّوں کے سامنے پڑھنے سے ہمیشہ اجتناب کرتے ہیں۔


علاوہ ازیں مدارس کے ذریعہئ آمدن سے جانکاری سے متعلق جب سرکار نے اَدنیٰ سی کوشش کی،تو اکثر اطراف سے شور اُٹھا کہ نہیں ہم ایسا کبھی نہیں ہونے دیں گے۔اس کی وجہ سے صاحبِ مطالعہ اور واقف ِ حال لوگ بخُوبی آگاہ ہیں۔ماضی قریب میں کراچی کے ایک مدرسّہ کے سربراہ کی وفات کے بعد اُس کے بنک اکاؤنٹ میں اربوں روپے کی رقم موجود ہونے کا انکشاف ہوا۔حالانکہ مدرسّہ کے علاوہ اس کا کوئی اور ذریعہ آمدن نہ تھا۔
آج”بڑے مذہبی لوگ“ اپنے مخصوص مکتبِ فِکر (فرقہ)،اپنے مقتدیوں کی بقاء اور اس بُنیاد پر حاصل ہونے والی آمدنی پر جب سوال اُٹھتا دیکھتے ہیں تو کبھی سرکارِوقت کو مرزائیوں کی معاون اورکبھی یہودی ایجنٹ قرار دیتے ہیں۔ان کی تمام تقاریراورتحریریں خام مال مہیّا کرتی ہیں تاکہ اُن کے مقتدی بلا چون و چرا اُن کے حکم کے مطابق جلسے و جلوسوں کا اہتمام کر سکیں،نعرہ بازی سے اُن کے نام فضاؤں میں بُلندکر سکیں اور جسے وہ کہیں اسے کافر قرار دے کر عبرت کا نشان بناڈالیں۔


اگر آج ہم نے دین کو نبیؐ کی تعلیمات کی روشنی میں مخلوقِ آدم کے دلوں میں اتارنا ہے تو قرآنِ کریم اور حدیث کو ہر شہری کو خود سے سمجھنا ہوگا۔جس کے لئے عربی زبان سے کما حقّہُ آگاہی حاصل کرنا ہوگی۔اگر ہمیں ملک کو شَر پسندی،دہشت گردی،شُعلہ بیانی،منفی روّیوں،معاشی اور معاشرتی غلاظتوں سے پاک کرنا ہے تو دنیاوی نصابِ تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی تعلیمی نصاب کی جزیات،تعلیماتِ نبویؐ کے عین مطابق ڈھالنا ہوں گی۔ بدلتے وقت کے ساتھ ساتھ آنے والے زمانے کے چیلنجز کامقابلہ کرنا ہے تو پھرنصاب کے ساتھ ساتھ دینی تعلیمی اداروں کا آڈِٹ اسی طرح لازم کرنا ہوگا، جس طرح دیگر سرکاری،نیم سرکاری اور نجی اداروں کا کیا گیا ہے۔

مزید :

رائے -کالم -