ایک جملہ لوگ کیا کہیں گے
تحریر: سعدیہ مغل
یہ ایک جملہ لوگ کیا کہیں گے کیا ہے یہ جملہ اور اس کا مقصد کیا ہے؟ یہ جملہ ایک ایسا تیر ہے جس نے اِس معاشرے کو بُری طرح چھلنی کر دیا ہے، آگے بڑھنے کی چاہ، کچھ کر گُزرنے کی لگن، قابلیت پہ اعتماد کرنے والا ہر وہ دوسرا انسان ذہنی بیماری کا شکار ہو جاتا ہے کہ لوگ کیا کہیں گے؟ اور ایسے ہی ہر ایک فرد جو اِس معاشرے میں بستا ہے مجھ سمیت ہر فرد اِس جملے کا شکار بن کر رہ چُکا ہے۔ اگر میں یہاں آپ بیتی کا ذکر کرؤں تو میں یہ کہوں گی کہ میں نے اپنی زندگی سے بے شمار سبق حاصل کیے ہیں میری زندگی میں یہ جملہ ایک پھندا ہے کہ میں کسی کام کو کرنے کی کوشش کرؤں اور وہ پھندا اور مضبوط ہوتا چلا جائے جو مجھے میرے ارادوں کو کھوکھلا کر دے جو مجھے مضبوط بننے کے بجائے مجھے کمزور کر دے جب بھی میں نے کچھ کرنے کا آگے بڑھنے کا ارادہ کیا ہمیشہ مجھ پہ تنقید کی گئی ہمیشہ مجھے یہ بتایا گیا کہ میں یہ کام کرؤں گا تو لوگ کیا کہیں گے میری آگے بڑھتے ہوئے قدم یہ کہہ کر روک دیے جاتے رہے کہ لوگ کیا کہیں گے؟بچپن سے اب تک سوائے تنقید کے نہ کچھ سُننے کو ملا اور نہ دیکھنے کو حوصلہ کیا ہے یہ صرف کتابوں میں میں نے پڑھا ہے اور لوگ سوائے تنقید کے کچھ نہیں کرتے حوصلہ نہیں دیتے صرف راہ میں رکاوٹ بننے کے لیے ہر قدم تیار رہتے ہیں آخر کیوں زندگیاں ہماری ہوتیں اور ہم فکر لوگوں کی کیوں کریں؟
جب ہم دُکھی ہوتے ہیں تو لوگ ہمارا دُکھ بانٹنے نہیں آتے لوگ ہمیں دلاسہ دینے نہیں آتے ہم خود اپنے لیے بہترین تھپکی ایک بہترین دلاسہ ہوتے ہیں لوگ صرف اُس وقت آتے ہیں جب تنقید کی جائے کیونکہ لوگ سوائے جلے پہ نمک لگانے کے سوائے تنقید کے کچھ نہیں کرتے پھر کیوں ہمیں لوگوں کی اتنی فکر ہوتی ہے پھر کیوں ہم اپنی زندگیوں کے اہم فیصلے لیتے وقت لوگوں کے بارے میں سوچتے ہیں کیوں ہم نا چاہتے ہوئے بھی اپنی خواہشات کا گلہ گھونٹ دیتے ہیں کیوں ہم اُن لوگوں کے لیے اپنے خوابوں کو قربان کر دیتے ہیں جو حقیقت میں ہمارے لیے کمزوری کا باعث بنتے ہیں نا کہ ہماری طاقت کبھی سوچا ہے کہ وہ لوگ کبھی بُرے وقت میں ہمارے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں جب ہم بلکل تنہا خود کو ثابت کر رہے ہوتے اور وہی لوگ تماشائی بن کر تماشا دیکھ رہے ہوتے ہیں کیوں؟ کیوں کہ ہم خود اُن کو اس قابل بناتے ہیں ہمیں کیوں اُن کی فکر ہوتی ہے ہم کیوں اپنی زندگیوں کے اہم فیصلے کرنے سے پہلے لوگوں کے بارے میں سوچتے ہیں اس حوالے سے میں نے کافی لوگوں کی رائے بھی لی کافی لوگوں کو دیکھا جانا اُنہیں مگر اُس سے کہیں حہرے بے نقاب ہوئے کہیں پوشیدہ رازوں سے پردہ ہٹا سب کی رائے مختلف مگر سب کا اپنا نظریہ، سب کی ایک الگ سوچ ساری کہانیاں بے کار رہی یہ ایک جملہ جس نے میری آپ کی ہم سب کی زندگیوں کو اِس ایک جملے میں جکڑ کر رکھ دیا ہے۔ ہمارے پاؤں اِس مضبوط زنجیر میں باندھ چُکے ہیں جس کی وجہ سے ہم آگے بڑھنے کے بجائے ایک گہری کھائی میں جا رہے ہیں ہم بہتر مستقبل کے بجائے اُسی پرانی سوچ میں جکڑئے ہوئے ہیں جس سے ہم کبھی باہر نہیں نکل سکتے۔ اگر نظر دورائی جائے ایک بار باقی ملکوں کی جانب تو اندازہ ہو گا کہ باقی ممالک کامیاب کیوں ہیں کیونکہ وہ وہی کرتے جو اُنہیں بہتر لگتا ہے نا کہ ہماری طرح لوگوں کی فکرؤں میں اپنی زندگیاں برباد کر دیں مگر جس دن ہم اس ایک جملے سے جان چھڑا دیں گے اُس دن ہمیں زندگی کا اصل مقصد اصل معنی معلوم ہو گا ہمیں یہ احساس ہو گا کہ یہ زندگی ہماری ہے نا کہ لوگوں کی ہمیں لوگوں کی فکر کی پروا کیے بنا آگے بڑھنا ہو گا اور وہ کام کرنا ہو گا جو ہمیں اچھا لگے جس سے ہمارا ضمیر مطمئن ہو۔
مگر اس میں کچھ قصور ہمارے والدین کا بھی ہوتا ہے جو بچپن سے ہی ہمیں یہ سکھاتے ہیں کہ فلاں کی اولاد نے فلاں کام کیا ہے فلاں کا بچہ یہ بن گیا وہ بن گیا تم نے ہر حال میں بننا ہے ورنہ لوگ کیا کہیں گے؟ اپنی اولاد کو مجبوراً وہ کروایا جاتا ہے جو وہ کرنا ہی نہیں چاہتے جو کرنے کو اُن کے ذہن مطمئن ہی نہیں ہوتے ہیں جو اُن کے خوابوں خیالوں میں شامل ہی نہیں ہے اُنہیں کچھ اور بننا ہے اور وہ کہیں اور جا رہے ہیں ایک گمشدہ رستے کی طرف اُنہیں دھکیل دیا جاتا ہے مگر والدین اپنی اولاد کی سوچ اُن کے خیالات اُن کے خوابوں کو ایک طرف رکھتے ہیں اور ایک الگ زندگی گزارنے پر مجبور کرتے ہیں کہ دنیا جس پہ راضی ہو کیونکہ لوگ کیا کہیں گے؟ آج کا دور یہ دور جہالت کا دور ہے کہنے کو تو ہم سب پڑھے لکھے اور سُلجھے ہوئے کہلائے جاتے ہیں مگر حقیقت تو یہ ہے کہ اگر سچائی بیان کی جائے تو ہم سے بڑا جاہل کوئی نہیں ہے۔ اگر ایک امیر گھر میں دھوم دھام سے شادی کرؤائی جاتی ہے اور غریب کے بچے وہی دیکھ کر کہیں کہ ہم نے بھی ایسا فنکشن کرنا ہے تو وہ کیسے کریں گے جن کے پاس دو وقت کا کھانا مشکل سے ملتا ہو شادی بیاہ تو ایک طرف مگر آج کل جنازوں میں دیکھا جائے تو یہ رواج عام ہے کہ طرح طرح کے کھانوں کا اہتمام کیا جاتا ہے کیوں جنازوں میں ایسا کیوں؟ کیوں کہ لوگ کیا کہیں گے ہمیشہ یہ سوچ کر کہ لوگ کیا کہیں گے ہم اپنی زندگیوں کے خوبصورت لحمے ضائع کر دیتے ہیں اور نا چاہتے ہوئے بھی ہم وہ کام کرتے ہیں جو کرنا ہم پسند نہیں کرتے لوگوں کی پروا کرتے کرتے زندگی کے حسین لحمے ضائع کر کے ہاتھ کچھ نہیں آتا سوائے پچھتاوئے کے۔
یہ اکثر دیکھنے میں آیا ہے ہم آخر کب تک اس احساسِ کمتری کا شکار رہیں گے کب تک ہمارے دماغ ایک اُس جملے کی زد میں رہیں گے کب ہم منفی سوچ کو پیچھے چھوڑ کر مثبت سوچ اپنائیں گے آج کے اس ترقی یافتہ دور میں کوئی تو حل نکلے گا کہ ہم وہ کریں جس سے ہمارے دل ہمارے دماغ ہماری سوچیں مطمئن ہوں یہ اِسی صورت ہو سکتا ہے کہ ہم اس جملے کو اپنی زندگیوں سے نکال کر باہر کریں گے۔ لوگوں کا کام ہی یہی ہے اگر اچھا کام کرؤ تو بھی وہ بات کریں گے بُرا کرؤ گے پھر بھی تنقید کریں گے کیونکہ دُنیا کسی حال میں بھی خوش نہیں ہوتی نا خود خوش رہتے لوگ نا خوش رہنے دیتے ہیں لوگ کیا کہیں گے اسی ایک سوچ میں ہماری زندگی کا مقصد کہیں پیچھے رہ جاتا ہے لوگوں کی پروا جب تک کریں گے تو ہم کبھی بھی کچھ نہیں کر سکیں گے جس روز ہم نے یہ سوچنا بند کر دیا کہ لوگ کیا کہیں گے اُس دن ہمارے تمام بگڑے کام بننا شروع ہو جائیں گے ورنہ لوگ کیا کہیں گے؟ اس ایک جملے سے ہماری نسلیں تباہ و برباد ہو کر رہ گئی ہیں خدارا اپنی نسلوں کو تباہ و برباد ہونے سے بچائیں اور اس جملے کو اپنی زندگیوں سے ختم کریں پھر دیکھیں کہ آپ کی زندگی کس طرح اپنے مقاصد میں کامیاب ہو گی انشاء اللہ۔ اللہ سب کا حامی ہو۔
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔