معلوماتی سفرنامہ،’کھول آنکھ زمیں دیکھ‘۔۔ ۔ پندرہویں قسط
خدا کو کس نے بنایا
اتفاق کی بات ہے کہ نیویارک میں اپنی بہن کے گھر بیٹھا جب میں یہ تحریر لکھ رہا تھا تو میری بیچ والی بھانجی ماہ رخ نے، جو پرائمری اسکول کی طالبہ ہے، اچانک مجھ سے سوال کیا کہ اللہ میاں کو کس نے بنایا۔ شاید خدا کو یہ منظور تھا کہ اس مقام پر عقلِ عام کی روشنی میں بھی یہ ثابت ہوجائے کہ خدا کے بارے میں یہ سوال ہی اصلاً غلط ہے اس لیے اس نے اس معصوم بچی کے دل میں اسی وقت یہ سوال ڈالا۔ میں اس سے مذکورہ بالا بحث نہیں کرسکتا تھا کیونکہ یہ اس کی سمجھ میں نہیں آتی۔ میں نے اس سے کہا کہ’’ A B C D ‘‘ سناؤ۔ اس نے سنائی تو میں نے اس سے پوچھا کہ Aسے پہلے کیا آتا ہے۔ اس نے کہا کہ A سے پہلے تو کچھ بھی نہیں آتا۔ اس پر میں نے کہا کہ جس طرح Aسے پہلے کچھ نہیں اسی طرح اللہ میاں سے پہلے بھی کچھ نہیں تھا۔ جب اللہ میاں سے پہلے کچھ نہیں تھاتو انہیں کسی نے پیدا بھی نہیں کیا۔ یہ بات باآسانی اس کی سمجھ میں آگئی۔
معلوماتی سفرنامہ،’کھول آنکھ زمیں دیکھ‘۔۔ ۔ چودہویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
ارتقا کا نظریہ
خدا کے سوا کائنات کی کسی دوسری توجیہ کی غیر موجودگی میں ، انکارِ خدا کے لیے ، منکرینِ مذہب کے پاس صرف ارتقا کا نظریہ بچا ہے۔جس کو وہ انکارِ خدا کی اساس سمجھتے ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ ایک لمحے کے لیے اگر ہم ارتقا کے نظریے کو بالکل درست مان بھی لیں تب بھی یہ انکارِ خدا کی بنیاد کیسے بن سکتا ہے؟مذہب کا دعویٰ یہ ہے کہ مخلوقات کو خدا نے بنایا۔ اس نے خدا کے طریقۂ تخلیق کو بیان نہیں کیا۔ اس ضمن میں قرآن نے صرف ایک بات کہی ہے۔ وہ یہ کہ ا للہ نے آدم ؑ کوخصوصی تخلیق سے پیدا کیا ۔ سور�ۂ اٰلِ عمران آیت ۵۹میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے، ’’ عیسیٰ کی مثال اللہ کے نزدیک آدم ؑ جیسی ہے۔ اس نے اسے مٹی سے پیدا کیا۔ پھر فرمایا ہوجا تو ہو گیا‘‘۔ کیا کوئی یہ ثابت کرسکتا ہے کہ خدا کی یہ بات غلط ہے اور جس آدم ؑ سے یہ انسانیت وجود میںآئی وہ مٹی سے پیدا نہیں ہوئے۔
انسانوں کو جانوروں کی ایک ترقی یافتہ شکل ثابت کرنے کے لیے جو کچھ کہا اور پیش کیا جاتا ہے وہ اپنی خواہش کا اظہار تو ہوسکتا ہے حقائق سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ یہ محض اندازے اور قیاسات ہیں۔ جن پر مشرق اور مغرب دونوں جگہ بہت تنقید ہوچکی ہے۔یہ لوگ تو انسان کے حیوانی وجود کے بارے میں بھی یہ ثابت نہیں کرسکے کہ یہ حیوانوں سے ترقی پاکر وجود پذیر ہوا ہے۔ کجا کہ وہ انسان کے اس شعوری اور روحانی وجود کے بارے میں کوئی دعویٰ کرسکیں جس کے قریب تو کیا دور تک بھی کوئی جانور نہیں پہنچ سکا۔
انسان کا روحانی وجود اور علم ا لانسان
انسان ایک حیوانی وجود رکھتا ہے۔اس میں وہ تمام بنیادی جبلتیں پائی جاتی ہیں جو حیوانوں کا خاصہ ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ یہ بھی ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ انسان جانوروں سے بلند تر ایک وجود اور شعور رکھتا ہے جسے مذہبی اصطلاح میں روحانی وجود کہا جاتا ہے۔اہل مغرب علم الحیوانات سے تو کسی طور یہ ثابت نہیں کرپائے کہ کب اور کیسے یہ نرا حیوان ایک بلند تر ذہنی اور روحانی شخصیت میں تبدیل ہوا۔لیکن وہاں اصولی طور پر یہ طے ہوچکا تھا کہ انسان کی تشریح خدا اور بائبل والے آدم ؑ سے ہٹ کر ہی کرنی ہے۔ لہٰذا علم ا لانسان کی بنیاد رکھی گئی اور ایک پورا فلسفہ گھڑ لیا گیا۔ جس میں انسان کے ذہنی اور روحانی ارتقا کا سفروحشی انسان سے متمدن انسان تک دکھایا گیا۔ اس سلسلے میں جس استدلال کا سہارالیا گیا وہ تحقیق کا نہیں حماقت کا شاہکار تھا۔
اس شعبے کے ماہرین کا طریقۂ کار یہ ہے کہ یہ معاصر غیر متمدن قبائل کا مطالعہ کرتے ہیں۔ ان کی توہم پرستی اور وحشیانہ زندگی کو دیکھ کر انہیں یقین ہوجاتا ہے کہ جس گوہرِ نایاب کی وہ تلاش میں تھے وہ ان کے ہاتھ آگیا۔ یعنی انہوں نے انسان کی اصل ڈھونڈ لی۔ وہ ان قبائل کی تمام خصوصیات کو دورِ قدیم کے انسان پر چسپاں کردیتے ہیں۔ پھر اپنی یہ نادر تحقیق دنیا کے سامنے بڑے اعتماد کے ساتھ پیش کرتے ہیں کہ یہ ہے ہمارا آغاز۔
اس استدلال کی بنیادی کمزوری اصولی طور پر یہ مان لینا ہے کہ تمدن کا شجر اسی غیر متمد ن بیج سے پھوٹا ہے ، حالانکہ اس بات کا پور ا امکان ہے کہ یہ وحشی انسان شاخِ تمدن سے ٹوٹ کر گرا ہو اور نا موافق حالات میں پروان چڑھ کر اس حال کو پہنچا ہو۔ انسانی تمدن کو اپنے ارتقا کے لیے مناسب ماحول چاہیے۔ جس جگہ یہ حالات دستیاب نہ ہوں انسان مجبوراً خود کو صرف بنیادی جبلی ضروریات تک محدود کرلیتا ہے اور وحشیانہ اور جانوروں سے قریب تر اندازِ زندگی اختیار کر نے پر خود کو مجبور پاتا ہے۔ آج کے متمدن انسان کو بھی تنہا کسی غیرآباد ویرانے میں پہنچادیں جہاں کسی قسم کے وسائل نہ ہوں۔ پھر دیکھئے کہ وہ اپنی زندگی کا سفر کس طرح طے کرتا ہے۔ اسی طرح افریقہ، آسٹریلیا اور امریکا کے قدیم قبائل کی مثال کو بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ یہ زمانہ قبل از تاریخ کے کسی دور میں تہذیبِ انسانی کے مرکزی دھارے سے کٹنے کے نتیجے میں وجود پذیر ہوئے ہوں گے۔ ان کی موجودگی سے یہ نتیجہ کیسے برآمد ہوتاہے کہ تہذیب کا دھار الازماًان سے نکلا ہے۔
اس بات کو ایک مثال سے سمجھئے۔ آج سے چند ہزارسال قبل ایک مرد وعورت میں عشق ہوا۔ ان کا تعلق باہمی دشمن قبائل سے تھا۔ جس کی بنا پر ان کی شادی ناممکن تھی۔ چنانچہ یہ دونوں نہ صرف اپنے قبائل بلکہ اس سارے علاقے سے دور فرار ہوگئے جہاں تک ان کی پہنچ ممکن تھی وگرنہ یہ دونوں قتل کردیے جاتے۔ اب یہ دونوں اس دور کی متمد ن دنیا سے دور کسی ویرانے میں اپنی نئی زندگی کا آغاز کرتے ہیں۔ جہاں ان کا واسطہ انسانوں سے زیادہ حیوانوں سے پڑتا ہے۔یہ دونوں تنہامل کر کونسا تمدن تعمیر کریں گے۔ تمدن صرف انسانی ہاتھ تشکیل نہیں دیتے۔ یہ سیکڑوں نسلوں کے تجربات، ہزاروں سالوں کی تحقیق کے بعد جنم لینے والے آلات اور مخصوص قدرتی وسائل وحالات کا محتاج ہوتا ہے۔ ان سب کے بغیر یہ دونوں کیاتیر چلائیں گے؟ ان کی اولاد کی باہمی شادیوں کا مسئلہ کیسے حل ہوگا؟ ان کے لباس، رہنے سہنے اور کھانے پینے کے معاملات ان کے پرانے قبیلے کی سطح کا کیسے ہوسکتا ہے؟ لازمی طور پر چند صدیوں میں ان دونوں سے ایک غیر متمدن قبیلہ جنم لے لے گا۔ یہ محض ایک مثال ہے وگرنہ عشق کے علاوہ جنگ وجدل، قدرتی حوادث، معاشی مسائل اور دیگر کئی وجوہات کی بنا پر بارہا انسان اپنی اصل سے کٹے ہیں۔جس براعظم پر بیٹھا میں یہ تحریر لکھ رہا ہوں یہاں بھی انسان چالیس ہزار سال قبل ، چائنا کو اس وقت امریکا سے ملانے والے ایک گلیشےئر کے ذریعے ، شکار کے پیچھے آئے تھے۔ بعد میں آئس ایج کے خاتمے سے یہ زمینی رابطہ منقطع ہوگیا تو یہ لوگ یہیں پھنس گئے۔ ایشیا والوں نے تو عظیم تہذیبیں جنم دیں مگر یہ لوگ آخری وقت تک شکاری ہی رہے۔
رہی عقائد و نظریات کی بات تو اس معاملے میں انسان نے ہر دور میں الٹی سمت میں سفر کیا ہے۔ یہ کہنا قطعاً غلط ہے کہ انسان نے شرک اور توہم پرستی سے اپنا آغاز کیا اور پھر خداؤں کی تعداد کم کرتا کرتا ایک خدا تک پہنچا۔ انسان نے تو معلوم تاریخ میں بھی ایک خدا سے اپنے سفر کا آغاز کیا ہے اور تین سے تین کروڑ خداؤں تک پہنچ گیا۔ خود اپنی امت کو دیکھ لیں۔ شرک کی جتنی مذمت اس دین میں ہے کسی اور میں نہیں۔ اس کا آغاز آخری درجے کے موحدین سے ہوا۔ اور آج حال دیکھ لیجیے۔ خدا کے گھر میں بیٹھ کر غیر اللہ کے نام کی دہائی دی جاتی ہے۔ انسان کی اس طبیعت سے واقف کوئی شخص کسی قبیلہ کے توہم پرستانہ عقائد دیکھ کر کبھی اس نتیجے پر نہیں پہنچ سکتا کہ یہ انسان کے ابتدائی عقائد ہیں۔
میری زندگی کی کتاب میں
بات میوزیم سے شروع ہوئی تھی مگر کہاں پہنچ گئی۔ دراصل وہ ایک انتہائی شاندار ، معلوماتی اور حیرت انگیز جگہ تھی۔ اس روز ورکنگ ڈے تھا مگر لوگ بڑی تعداد میں ، بالخصوص طلبا وہاں آئے ہوئے تھے۔اسکولوں کی بسوں میں بھر کر چھوٹے چھوٹے بچے بھی آئے ہوئے تھے۔ میں اندازہ کرسکتا ہوں کہ ان کے ذہن میں کیا سوالات پیدا ہوتے ہوں گے۔ اپنی بھانجی کا ایک سوال میں پیچھے نقل کرچکا ہوں۔ اس میوزیم میں آنے والے اکثر لوگ انکارِ خدا یا کم از کم اعراضِ خدا کا ذہن لے کر جاتے ہوں گے۔ حالانکہ یہ خدا کی حمد وتسبیح کرنے کی بہترین جگہ تھی۔ یہی معاملہ ان معلوماتی چینلز کا ہے جو دنیا بھر میں دیکھے جاتے ہیں۔ مثلاََ ڈسکوری ، نیشنل جیوگرافک وغیرہ۔ اب تو کیبل کے ذریعے یہ ہمارے بھی گھر گھر میں دیکھے جاتے ہیں۔ میں نے جو اس قدر دراز نفسی سے کام لیا ہے اس کی وجہ یہی ہے کہ انہوں نے لاشعوری طور پر ہمارے لوگوں کو انکارِ خدا کی راہ پر ڈال دیا ہے۔ کیونکہ وہ اس اعلیٰ طریقے سے اپنی بات پیش کرتے ہیں کہ لوگ خدا کے منکر نہ بھی ہوں تو اس کا ہونا نہ ہونا ان کی نگاہ میں برابر ہوجاتا ہے۔اور زیادہ سے زیادہ خدا کی وہی حیثیت رہ جاتی ہے جو فلسفہ میں مبداء اول کو حاصل ہے۔ یعنی خدا نے دنیا پیدا تو کردی مگر اس کے بعد اس سے بے تعلق ہوگیا۔
اس بحث کے آخر میں بے اختیار میرا دل چاہتا ہے کہ اپنی بہن پروین سلطانہ حناؔ کی ایک نظم لکھتا چلوں۔ اس بحث کا اس سے اچھااختتام میرے ذہن میں نہیں آرہا۔
میری خواہشات کے پرندسب
تہہ دام ہیں ترے حکم سے
تیرے حسن میں بڑی تاب ہے
میرے عجز میں کوئی شک نہیں
مگر اتنا سن مرے مہرباں
میری خواہشات کے باب میں
کسی امتحان کے نصاب میں
تیرا نام جس پر رقم نہیں
میری زندگی کی کتاب میں
وہ ورق نہیں وہ ورق نہیں
امریکی گالیاں
معاف کیجیے گا میں آپ کو سفر نامے سے بہت دور لے گیا۔ دراصل مغرب الحاد (Atheism) اور عیسائیت دونوں کا گڑھ ہے۔ میرے جیسے آدمی کے لیے یہ ممکن نہیں کہ میں ان سے لاتعلق ہوکر گزر جاؤں۔پھر اللہ تعالیٰ نے اسباب بھی ایسے پیدا کیے کہ مجبوراً مجھے دونوں پر قلم اٹھانا پڑا۔مجھے امید ہے کہ پڑھنے والوں کے دل میں اگر ایمان کا کوئی شائبہ بھی موجود ہے تو انہیں یہ بحث غیر متعلق نہیں لگی ہوگی۔آپ نے اوپر کی نظم نہیں پڑھی تو اب پڑھ لیں۔ مومن کی زندگی کے ہر ورق پر خدا کانام رقم ہوتا ہے۔بہرحال اب آئیے واپس نیویارک کی طرف۔ میوزیم میں کئی گھنٹے گزارنے کے بعد میں واپس ہوا۔ راستے میں دو جھگڑے دیکھے۔ ایک خواتین کا دوسرا مردوں کا۔ گھر آنے والی بس میں ایک آدمی چڑھا تو نجانے کس بات پر اس کی دوسرے سے تلخ کلامی ہوگئی۔ نوبت مارپیٹ تک آگئی۔ لوگوں نے بڑی مشکل سے بیچ بچاؤ کرایا۔ دوسرا جھگڑا گھر کے قریب سپر اسٹور کی پارکنگ سے گاڑی نکالنے پر دو خواتین میں ہواجہاں ایک خاتون دوسری کی گاڑی پیٹ پیٹ کر اسے دعوتِ مبازرت دے رہی تھیں۔
ان دونوں لڑائیوں میں ان تمام فحش امریکی گالیوں (تاہم خواتین کے لیے بعض گالیاں تکنیکی طور پر قابلِ عمل نہ تھیں)کا آزادانہ استعمال کیا گیا جو عکاسی تو امریکی معاشرے کی کرتی تھیں ، مگر اب ہالی وڈ کی مہربانی سے اقوامِ عالم کا قابلِ صد افتخار سرمایہ بن چکی ہیں اور ان کے نوجوان تبرک سمجھ کرانہیں اپنی اپنی قوموں میں تقسیم کرتے ہیں۔
نیویارک میں نمازِ جمعہ
نیویارک میں متعدد مساجد ہیں۔ مجھے مین ہٹن میں واقع اسلامک کلچر ل سنٹر کی جامع مسجد میں نماز جمعہ ادا کرنے کا موقع ملا۔ یہ مسجد کسی عرب ملک غالباً کویت کے عطیے سے بنائی گئی ہے۔مسجد کی عمارت کافی بڑی اور خوبصورت ہے۔ مسجد کے ساتھ ایک لان بھی ہے۔مسجد اسلامی فنِ تعمیر کے مطابق بنائی گئی ہے اور اس کے ساتھ ایک مینار بھی تعمیر کیا گیا ہے۔ مسجد کی چھت ایک گنبد کی طرز پر تعمیر کی گئی ہے اور کافی بلند ہے۔مسجد کے وسیع ہال اور لان میں کافی تعداد میں نمازی آسکتے ہیں۔
مجھے مسجد کی مکانیت کا علم نہ تھا۔ مگر جیسے ہی سب وے سے باہر نکلا تو اس عمارت کی ساخت نے دور سے بتادیا کہ یہ مسجد ہے۔مسجد میں بڑی تعداد میں نمازی موجود تھے۔ باہر لان میں بھی صفیں بچھی ہوئی تھیں۔ جبکہ مسجد کے ہال سے دو سیڑھیاں اس بالکنی کی طرف جارہی تھیں جن میں خواتین کے لیے نماز کی ادائیگی کا انتظام تھا۔ یہاں کافی خواتین بھی موجود تھیں۔
مسجد عربوں کے زیرِ انتظام تھی۔ خطبہ گو انگریزی میں تھا مگر عربی طرز پر تھا۔یعنی ہماری طرح پہلے اردو میں تقریر اور بعد میں’’ اصل‘‘ عربی خطبے والا معاملہ نہ تھا۔جس کا مطلب اکثر عوام اور بعض اوقات مولوی صاحب کو بھی نہیں معلوم ہوتا۔ بلادِ عرب میں خطبے کا طریقہ یہ ہوتاہے کہ پہلے خطبے میں امام صاحب کوئی وعظ ونصیحت کی بات کہتے ہیں اور دوسرے میں زیادہ تر دعائیں کی جاتی ہیں۔ یہی انداز یہاں اختیار کیا گیا تھا۔ صرف اس فرق کے ساتھ کہ پہلا خطبہ انگریزی میں تھا اور دوسرے میں عربی میں دعائیں کی گئی تھیں۔
امریکا میں اسلام کا فروغ
امریکا میں اسلام سب سے زیادہ تیز رفتاری سے پھیلنے والا مذہب ہے۔ اس ملک میں جتنے مذاہب ہیں، حالیہ برسوں میں ان میں سب سے زیادہ ترقی اسلام کو حاصل ہوئی ہے۔ امریکا میں قیام کے دوران ایک رپورٹ پڑھی جس کے مطابق امریکا میں مسلمانوں کی تعداد80 لاکھ ہے۔ بعض اندازوں کے مطابق مسلمانوں کی تعداد یہودیوں سے بھی زیادہ ہوچکی ہے۔ مسلمانوں میں پاکستا نی مسلمانوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ مجموعی طور پر30 فیصد مسلمانوں کا تعلق جنوبی ایشیا، 30 فیصد کا افریقہ اور25 فیصد کا عرب ممالک سے ہے۔ مسلمانوں کی تعداد میں ایک طرف مہاجرین اضافہ کررہے ہیں اور دوسر ی طرف نو مسلم۔ ہر سال تقریباََ 20 ہزار امریکی اسلام قبول کرتے ہیں۔ان میں سے چودہ ہزار کا تعلق سیاہ فام لوگوں سے ہوتا ہے۔ مساجد کی تعداد میں گزشتہ چھ برسوں کے مقابلے میں 25 فیصد اضافہ ہوا ہے اور ان کی تعداد2100 سے بڑھ گئی ہے۔ اس میں چھوٹی اور نئی مساجد شامل نہیں۔ جمعہ کی نماز کے لیے خطبے میں انگریزی اور عربی کا استعمال ہوتا ہے۔ ان مساجد میں ہفتہ وار درس کا انتظام بھی ہوتا ہے۔ 21 فیصد مساجد میں مستقل طور پرقرآن کریم اور فقہ کی تعلیم دی جاتی ہے۔
یہ مساجد اسلام کے فروغ میں اہم کردار ادا کررہی ہیں۔ اس کا ایک نمونہ میں نے جمعہ کی نماز میں دیکھا۔ نماز ختم ہوئی تو امام صاحب نے ایک عیسائی مردوعورت کے قبولِ اسلام کا اعلان کیا۔ حاضرین کی بڑی تعداد نے اس محفل میں شرکت کی۔ یہ دونوں سیاہ فام تھے جنہیں کلمہ پاک پڑھایا گیا اور تمام حاضرین نے ان کے ساتھ اس کو دہرایا۔ بعد میں سب لوگوں نے ان کو جاکر مبارکباد دی۔ اس دوران میں سوچ رہا تھا کہ امریکا میں قبول اسلام کی شرح سیاہ فام افراد میں زیادہ ہے۔ شاید اس کا سبب اسلام کی اعلیٰ اخلاقی تعلیمات اور مساوات کا تصور تھا۔ مثلاً نماز کو ہی لے لیں۔ اس وقت اس مسجد میں درجنوں رنگ و نسل کے لوگ جمع تھے مگر دین کے رشتے سے وہ سب بھائی بھائی تھے۔ خطبے کے دوران یہ سب لوگ بلا ترتیب بیٹھے تھے مگر جیسے ہی خدا کے حضور کھڑے ہونے کا وقت آیا چند لمحوں میں بغیر کسی خارجی کوشش کے یہ انتہائی ترتیب سے کھڑے ہوگئے۔ ہم مسلمان اس منظر کو دیکھ دیکھ کر عادی ہوچکے ہیں مگر ایک غیر مسلم کی نگاہ میں ، خصوصاً اگر اس کا تعلق معاشرے کے کسی پسماندہ طبقے سے ہے تو یہ منظر بہت غیر معمولی ہوگا۔اقبال نے کیا خوب کہا تھا۔
بندہ و صاحب و محتاج وغنی ایک ہوئے
تری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے
اسلام کی جانب راغب خاتون
مسجد میں قبول اسلام کی اس محفل کے دوران میرے ذہن میں بار بار یہ سوال سر اٹھا رہا تھا کہ ایسا کیوں ہے کہ قبولِ اسلام کی شرح سفید فام لوگوں میں کم ہے۔سیاہ فام لوگوں میں قبولِ اسلام کی شرح کے زیادہ ہونے کی وجہ میں اوپر بیان کرچکاہوں۔ جبکہ سفید فام لوگوں میں فروغِ اسلام کی کمی کا ایک سبب شاید یہ ہے کہ اسلام کی تعلیم کو اعلیٰ علمی بنیادوں پر پیش نہیں کیا جارہا ۔ ان کی ذہنی سطح کے اعتبار سے ضروری لٹریچر اس بڑے پیمانے پر دستیاب نہیں جیسا کہ ہونا چاہیے۔ مسجد سے نکلتے وقت ایک واقعہ پیش آیا جس سے میرے اس خیال کی تصدیق ہوئی۔
مسجد سے نکل کر میں باہر لگے ہوئے بک اسٹالوں کی طرف بڑھا۔ ان پر اردو، انگریزی اور عربی میں اسلامی کتب موجود تھیں۔ اتنے میں ایک اسٹال پر ایک جوان سفید فام خاتون کودیکھا۔ وہ اسلامی کتابیں دیکھ رہی تھیں۔ ایک عربی نوجوان ان سے گفتگو کررہا تھا۔ میں چونکہ ان کے ساتھ ہی کھڑا تھا اس لیے ان کی گفتگو سے مجھے پتا چلا کہ یہ لڑکی اسلام کی طرف راغب ہے اور جمعہ کے اجتماع میں شرکت کے لیے خصوصی طور پر اپنے آفس سے اٹھ کر آتی ہے۔ یہ عیسائی ہے مگر اپنے مذہب سے مطمئن نہیں۔ اس نوجوان سے اس کا تعارف بک اسٹال پر ہوا جہاں وہ اسلام سے متعلق کچھ کتابیں دیکھ رہی تھی۔نوجوان نے اس لڑکی کو قرآن پڑھنے کا مشورہ دیا۔
کچھ دیر بعد وہ لڑکی اپنی گاڑی میں بیٹھ کرروانہ ہوگئی۔ اس کے بعد میں نے بک اسٹال پر موجود کتابیں دیکھیں۔ وہاں زیادہ تر کتابیں مسلمانوں کے اعتبار سے تھیں اور اردو یا عربی میں تھیں۔ بلکہ بعض تو ایسی تھیں کہ غیر مسلم انہیں نہ ہی پڑھیں تو بہت اچھا ہے۔انگریزی میں اہل مغرب کے ذہنی پس منظر کے اعتبار سے لکھی گئی دعوتی نوعیت کی کوئی کتاب وہاں مجھے نظر نہیں آئی۔ حق ہر دور میں حق ہوتا ہے مگر اسے ہر دور کے معیاری اسلوب کے اعتبار سے پیش کیا جانا ضروری ہوتا ہے۔بہرحال میں نے اس لڑکی کے لیے خدا سے دعا کی کہ وہ اسے ہدایت دے اور راہ حق پر اس کی مدد کرے۔
(جاری ہے۔ اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں)
( ابویحییٰ کی تصنیف ’’جب زندگی شروع ہوگی‘‘ دور جدید میں اردو زبان کی سب زیادہ پڑھی جانے والی کتاب بن چکی ہے۔انہوں نے درجن سے اوپر مختصر تصانیف اور اصلاحی کتابچے بھی لکھے اور سفر نامے بھی جو اپنی افادیت کے باعث مقبولیت حاصل کرچکے ہیں ۔ ان سے براہ راست رابطے کے لیے ان کے ای میل abuyahya267@gmail.com پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔)