معلوماتی سفرنامہ،’کھول آنکھ زمیں دیکھ‘۔۔ ۔ سولہویں قسط
نیو یارک کا حسین ترین نظارہ
نیو یارک شہر کا ایک مکمل اور بھر پور نظارہ فراہم کرنے کے متعدد ذرائع دستیاب ہیں۔ ایک شہر کی کسی بلند عمارت سے ۔ دوسرا نظارہ ہیلی کاپٹر سروس کے ذریعے کیا جاسکتا ہے۔ اس سروس کے ذریعے سے شہر کے بعض حصوں یا پورے شہر کا فضائی منظر دیکھا جاسکتاہے۔اس کے علاوہ پانی پر تعمیر شدہ پلوں سے بھی یہ نظارہ ممکن ہے۔ ہیلی کاپٹر میں تو میں بیٹھا نہیں البتہ دیگر دو طریقوں سے میں نیویارک کو دیکھ چکا تھا۔ مگر ایک روز اتفاقیہ طور پر نیو یارک کو ایک ایسی جگہ سے دیکھا جس سے اس کی خوبصورتی کا غیر معمولی نظارہ سا منے آیا۔
معلوماتی سفرنامہ،’کھول آنکھ زمیں دیکھ‘۔۔ ۔ پندرہویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
اتوار کا دن تھا اور فہیم بھائی کی چھٹی تھی۔ہم شام کے وقت گھر سے نکلے۔ کوئی خاص جگہ ذہن میں نہیں تھی۔ فہیم بھائی کئی دنوں سے یہ کہہ رہے تھے کہ ساؤتھ فیری (Ferry) کی طرف بھی جاؤ۔ یہ دراصل بحری جہازوں کی و ہ سروس ہے جو مین ہٹن سے اسٹیٹن آ ئی لینڈ تک مسافروں کو لاتی لیجاتی ہے۔ ابھی تک مجھے وہاں جانے کا موقع نہیں ملا تھا۔ میں روز گھر سے نکلتا مگر کبھی کسی قابل دید جگہ چلا جاتا اور کبھی شہر میں مٹر گشت کرتا رہتا۔ اس روز جب فہیم بھائی کے ساتھ گھر سے نکلا تو فیری کی طرف جانے کا فیصلہ ہوا۔ ہم ٹرین سے مین ہٹن کے سب سے آخری جنوبی اسٹیشن پر پہنچے۔ یہ سمندر سے بالکل متصل سب وے ہے جہاں وہ پورٹ واقع ہے جس سے فیری چلتی ہے۔
میں اس سے قبل کشتیوں پر تو بیٹھا تھا لیکن بحری جہاز پر سواری کا یہ میرا پہلا موقع تھا۔ یہ ایک دومنزلہ جہاز تھا۔ اس کے گراؤنڈ فلور پر مین ہٹن سے آنے والی گاڑیاں چڑھ رہی تھیں جبکہ اوپر نیچے کی تمام منزلوں پر لوگ سوار تھے۔ ہم جہاز میں بیٹھنے والے آخری افراد میں سے تھے جس کے بعد جہاز چل پڑا۔ ہم اوپر کی منزل پر گئے اور جہاز کے عقبی عرشے پر جاکر کھڑے ہوگئے۔ جہاز میں کئی سو افرادتھے۔ مگر یہ زیادہ تر روز کے آنے جانے والے لوگ تھے اس لیے اندر بیٹھے تھے۔ عرشے پر ہمارے جیسے سیاح ہی کھڑے ہونے کی ہمت کرسکے۔ کیونکہ انتہائی ٹھنڈی اور تیز سمندری ہوا میں کھڑا ہونا آسان نہ تھا۔
اس وقت سورج غروب ہوئے تقریباًآدھے گھنٹے سے زیادہ ہوگیا تھا۔ چاند اپنے پورے دنوں میں تھا اور پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا۔ سمندر کے پرسکون پانی میں اس کا دلکش عکس بہت خوبصورت لگ رہا تھا۔ نیو یارک ایک بڑا بین الاقوامی شہر ہے جس کے متعدد اےئر پورٹس ہیں۔ ساتھ میں ریاست نیوجرسی کے شہر نیو آرک کا اےئر پورٹ بھی قریب ہے۔ لہٰذا پورے سفر میں درجنوں ہوائی جہاز جگنوؤں کی طرح آسمان میں ہر سمت اڑتے نظر آئے۔ کیونکہ یہاں ہرمنٹ میں ایک اےئر پورٹ پر نجانے کتنے جہاز اترتے اور اڑتے ہیں۔
یہ سارے مناظر ہی اپنی جگہ بہت پرکیف تھے۔ مگر ان سب سے بڑھ کر جس منظر نے ہمیں اور دیگر سیاحوں کو اپنے اند ر جذب کرلیا وہ مین ہٹن کی فلک بوس عمارتوں کی روشنیاں اور جگمگاہٹ تھی۔ فیری مین ہٹن سے ہی روانہ ہوئی تھی۔ قریب سے بھی ان عمارتوں کی رو شنیاں بڑی دیدہ زیب لگ رہی تھیں۔ مگر جیسے جیسے جہاز ساحل سے دور ہوتا گیا اور یہ بلند عمارتیں آنکھ کے تل میں سماتی گئیں یوں محسوس ہونے لگا کہ گویا ہم جنتِ ارضی کا نظارہ کررہے ہیں۔ عروس البلاد اور روشنیوں کا شہر جیسے الفاظ جو ابھی تک نجانے کتنے شہروں کے بارے میں سنے اور پڑھے تھے ، پہلی دفعہ ان کی کوئی حقیقی تعبیر دیکھی۔
اس پورے منظر کی اصل خوبصورتی یہ تھی کہ جہاز چونکہ بڑا تھا اس لیے کشتی کی طرح ہچکولے کھائے بغیر آہستگی سے ساحل سے دور ہٹتا چلا گیا۔جس کے ساتھ یہ عمارتیں اور یہ پورا منظر بہت خاموشی اور آہستگی سے ہماری نگاہوں میں سماتا چلا گیا۔ فہیم بھائی نے کہا کہ نیو یارک کا یہ رخ انہوں نے بھی پہلے کبھی نہیں دیکھاتھا۔ حسنِ فطرت اور انسانی ہنرکے امتزاج نے عرشہ پر موجود ہر شخص کو متاثر کیا اور لوگ دھڑادھڑ اس منظر کے فوٹو لینے لگے۔ جبکہ بعض لوگوں نے مووی بھی بنائی۔ بعد میں جب میں اپنے بھائی عرفان اور عزیز بھائی کے ساتھ آیا تو اس وقت عرفان بھائی نے بھی اس منظر کی مووی بنائی تھی۔
تقریباََ پندرہ بیس منٹ بعد ہماری فیری اسٹیٹن آئی لینڈ کے کنارے جاکر رکی۔ جس کے ساتھ ہی لوگ دھڑادھڑ جہاز سے اترنے لگے۔ نیچے سے گاڑیاں بھی نکل کر جارہی تھیں۔ ہم اوپر سے کھڑے یہ منظر دیکھتے رہے۔ جب جہاز خالی ہوگیا تو یہ عمل برعکس انداز میں شروع ہوگیا یعنی لوگ اور گاڑیاں جہاز میں داخل ہونا شروع ہوگئے۔ ہمارے جیسے لوگ چند ہی تھے جو جہاز میں پہلے سے موجود تھے۔ چند منٹ بعد فیری وسل دے کر واپس روانہ ہوگئی۔ یہ منظر دیکھنے کے لیے ہم جہاز کے اگلے حصے میں آئے تھے جو واپسی کے سفر میں اب پچھلا حصہ بن چکا تھا۔ ہم دوبارہ وہیں آگئے تاکہ مین ہٹن کی روشنیاں دوبارہ دیکھ سکیں جو اس وقت کافی دور تھیں۔
ہمارا جہاز اسٹیچو آف لبرٹی کے پاس سے بھی گزرا جو کہ امریکی عوام کے لیے فرانس کا تحفہ تھا۔ اس پر بھی سبز رنگ کی روشنیاں تھیں جن میں مشعل بردار مجسمۂ آزادی دور سے نمایاں نظر آرہا تھا۔ مگر مین ہٹن کی روشنیوں کے سامنے اس کی حیثیت ماند پڑگئی تھی۔ ویسے اس کی اپنی خصوصی فیری ساحل پر واقع بیٹری پارک کے پاس سے چلتی تھی۔ فہیم بھائی پہلے دن مجھے سیدھے یہیں لائے تھے۔ یہ فیری مسافروں کو اس جزیرے پر لاکر اتارتی تھی جس پر یہ مجسمہ نصب ہے اور وہ اوپر تک چڑھ سکتے تھے۔ مگر اس وقت یہ فیری بند تھی۔ دوسری سمت ویریزانو برج تھا۔ جو اسٹیٹن آئی لینڈ کو بروکلن کے ذریعے بقیہ شہر سے ملاتا ہے۔ اس پرجلتی روشنیاں بھی بڑی اچھی لگ رہی تھیں۔
بہرحال آج کی رات مین ہٹن کی روشنیاں ہر چیز پر بازی لے گئیں۔ گویا وہ کوئی طلسم کدہ تھا یاپرستان کا نظارہ جس کی آسمان تک بلند محلوں جیسی عمارات دور سے جگمگ جگمگ کررہی تھیں۔ اس وقت تک انتہائی ٹھنڈی ہوا میں دیر تک کھڑے رہنے سے میرا منہ سن ہوگیا تھا۔ مگر اندر جاکر بیٹھنے کا دل نہیں چارہا تھا۔ میں اس کے بعد بھی کئی دفعہ یہاں آیا۔ رات میں بھی اور دن میں بھی۔ مگر جیسا اچھا منظر اس روز دیکھا تھا دوبارہ نہیں دیکھا۔ کبھی چاند نہیں تھا اور کبھی روشنیاں کم تھیں۔ پھر پہلی دفعہ توپہلی دفعہ ہی ہوتی ہے۔ اور جیسا کہ اوپر کہیں لکھا ہے اس عیب سے پاک توصرف خدا کی جنت ہوگی جہاں ہر دفعہ پہلی دفعہ ہی ہوگی۔
ٹائمز اسکوائر اور فورٹی سیکنڈ اسٹریٹ
نیو یارک کا تذکرہ ٹائمز اسکوائر کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔امریکا دنیا کا مرکز ہے، نیویارک امریکا کا، مین ہٹن نیویارک کا اور ٹائمز اسکوائر مین ہٹن کا مرکزی مقام ہے۔ میں یہاں بار بار آیا۔ کچھ اس لیے بھی کہ یہ مرکزِ شہر میں واقع ہے۔ راستے میں کہیں آتے جاتے یہاں آنا آسان ہے۔یہ حقیقی معنوں میں نیویارک کے بین الاقوامی شہر کا دل ہے۔ یہاں ہر ملک، رنگ اور نسل کے لوگ دیکھنے کو مل جاتے ہیں۔ ٹائمز اسکوائر کا اصل حسن رات میں ظاہر ہوتا ہے جب ہر طرف رنگ و روشنی کا سیلاب آجاتا ہے۔ یہاں بہت بڑے بڑے اشتہاری اسکرین لگے ہوئے ہیں جن پر چلتی ہوئی اشتہاری فلمیں دور سے نظر آجاتی ہیں۔ بعض اسکرین ایسے بھی دیکھے جن پر تازہ ترین خبریں مسلسل نشر ہوتی رہتی ہیں۔اس کے علاوہ بڑے بڑے سائن بورڈز بھی روشن رہتے ہیں۔دن کے وقت ان کو دیکھنے سے کوئی خاص تاثر نہیں ابھرتا ۔ البتہ رات کوجب دیکھا تو بہت خوبصورت لگا۔ حال یہ ہے کہ فٹ پاتھ پر بھی انہوں نے سیمنٹ کے مسالے میں چمکدار ذرے (Glitter) ملاکر بچھارکھے ہیں۔ رات کو جب ہر طرف روشنی پڑتی ہے تو یہ فٹ پاتھ بھی جگمگااٹھتی ہے۔ غرض رات میں پورا علاقہ بقعۂ نور بن جاتا ہے۔
یہیں نئے سال کی تقریب ہوتی ہے۔ جس میں شرکت کے لیے دنیا بھر سے لوگ آتے ہیں۔ اس کے علاوہ جب گرمیوں کی چھٹیاں شروع ہوتی ہیں اور دنیا بھر سے لاکھوں سیاح نیو یارک آتے ہیں تو اس علاقے کی رونق دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ میں بعد میں جب نیویارک آیا تو ٹائمز اسکوائر بھی آیا۔ اس وقت یہاں کی رونق واقعی دیکھنے کے لائق تھی۔ سناتھا کہ یہ علاقہ منشیات فروشی ، عریاں نگاری اور بدکاری کا بڑا اڈہ تھا۔ مگر نیویارک کے موجودہ مےئر کی کوششوں سے یہ علاقہ ان لعنتوں سے پاک ہوچکا ہے۔ تاہم ابھی بھی یہ دھندا کسی نہ کسی طرح چل رہا ہے ۔ایک روز میں وہاں سے گزر رہا تھا کہ ایک سیاہ فام نوجوان نے مجھ سے مخاطب ہوکر کہا:"Hey man do you want girls ?" اس کے بعد وہ لڑکیوں کی تفصیلات بتاتا رہا مگر میں خاموشی سے آگے بڑھ گیا۔ایسے موقعوں پر پیچھے مڑ کے دیکھنے سے آدمی اکثر پتھر کا ہوجاتا ہے۔
اسی جگہ فورٹی سیکنڈ اسٹریٹ ہے جہاں تھیٹرز اور سینما ایک قطار میں واقع ہیں۔امریکا میں سینماکا نظام بھی عجیب ہے۔ عزیز بھائی نے مجھے بتایا کہ یہاں سینمامیں ایک وقت میں بہت ساری فلمیں چلتی ہیں۔ جن کے لیے الگ الگ ہال ہوتے ہیں۔ بعض اوقات تو ایک ہال میں پانچ دس افراد ہی بیٹھ کر ایک فلم دیکھ رہے ہوتے ہیں۔اسی اسٹریٹ پر سینماکی قطار کے بیچ میں مادام تساؤ کا مومی عجائب گھر ہے۔ میں پہلی دفعہ گیا تو یہ زیرِ تعمیر تھا۔ بعد میںآیاتو اس کا افتتاح ہوچکا تھا۔ میں نے اس میں جانے کا ارادہ کیا کیونکہ بچپن سے اس کا بڑا تذکرہ سنا تھا ۔ مگر اس روز وہاں کوئی پرائیویٹ پارٹی ہورہی تھی جس کی بنا پر یہ بند تھا۔
عرفان بھائی کی آمد اور میری روانگی
فہیم بھائی ، عزیز بھائی اور نگہت باجی سب لوگوں کا اصرار تھا کہ میں امریکا کی دیگر جگہیں بھی دیکھنے جاؤں۔ خاص طور پر فلوریڈا کے خوبصورت ساحل ، ڈزنی لینڈیاڈزنی لینڈ کی طرز پر ہی بنے ہوئے نیویارک سے قریب واقع سکس فلیگ (Six Flags) جانے کے لیے انکا بہت اصرار تھا۔ اسکے علاوہ اور دیگر کئی ریاستوں میں میرے قریبی دوست اور احباب موجود تھے جن کا اصرار تھا کہ میں ان کے پاس بھی آؤں۔ مگر میں پاکستان سے نکلنے کے بعد ایک طرح سے مسلسل حالتِ سفر میں تھا اور اب ذرا کچھ ٹھہراؤ چاہتا تھا۔ اس لیے کینیڈا واپس جانے کا ارادہ کرلیا۔
خواب تھاجوکچھ کہ دیکھا ۔۔۔
ٹرین میں بیٹھنے سے قبل میرا ٹکٹ اور پاسپورٹ چیک ہوئے جبکہ کینیڈا سے آتے وقت ایسا کچھ نہ ہوا تھا۔ اسی طرح کینیڈین بارڈر پر بھی ٹرین بہت دیر تک رکی اور بہت سختی کے ساتھ چیکنگ ہوئی۔ نجانے اس کی وجہ کیا تھی۔ ٹرین کی روانگی کا وقت سات بجے تھا۔ میں اندر جاکر بیٹھا تو بے اختیار لمحے بھر میں میرے سامنے اپنے قیام کا پورا عرصہ گزر گیا۔ جب میں آیا تھا تو ہر چیز کتنی اجنبی اور غیر مانوس لگ رہی تھی۔ لیکن میں اس مختصر عرصے میں یہاں اتنا گھوما کہ ہر چیز مجھے اپنی اپنی لگنے لگی ۔ یہاں کا پورا نظام میں نے بہت جلدی سمجھ لیا اور اس سے مانوس ہوگیا ۔جب مانوس ہوا تو واپسی کا وقت آگیا۔
یہی کہانی اس دنیا میں آنے والے ہر انسان کی کہانی ہے۔ہم اس دنیا میں آتے ہیں۔ لوگ ہمارے منتظر ہوتے ہیں۔ہمارے آنے پر خوش ہوتے ہیں۔ جیسے میری بہن ، بہنوئی اور بھانجیاں میرے آنے پر خوش تھے۔ پھر یہ اجنبی دنیا ہمارے لیے مانوس ہوتی چلی جاتی ہے۔ جیسے یہ شہر میرے لیے ہوگیا تھا۔ پھر ایک روز ہم واپس ہوجاتے ہیں۔ جیسے میں واپس ہورہا ہوں۔ چاہنے والے روتے ہوئے پیچھے رہ جاتے ہیں۔ جیسے میری بہن میری روانگی کے وقت رورہی تھیں اور عزیز بھائی اور فہیم بھائی اسٹیشن تک چھوڑنے آئے تھے۔ اور اب جب میں ٹرین میں تنہا بیٹھا ہوں تو سب خواب لگ رہاہے۔
وائے ناکامی کہ وقتِ مرگ یہ ثابت ہوا
خواب تھاجو کچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا
ٹرین آہستگی سے روانہ ہوئی۔آتے وقت تو سارا وقت مباحثے میں گزر گیا تھا۔ مگر واپسی میں اس بہارکا نظارہ دیکھتا گیا جو اپنے جوبن پر آچکی تھی اور قدم قدم پر سبحان اللہ کہنے کا مقام تھا۔ ٹرین نیویارک سے کینیڈا کی طرف شمال کی سمت میں روانہ ہوئی۔ تقریباً دو سو میل تک دریائے ہڈسن ساتھ ساتھ چلتا رہا۔ اس کے پار سبزے سے لدے درخت اور درختوں سے ڈھکے پہاڑتھے۔ عجیب دل آویز نظارہ تھا۔ نیلا آسمان، سفید و سیاہ بادل، سرسبز و شاداب پہاڑ اور مٹیالے دریا کا بہتا پانی۔ لگتا تھا کہ کائنات کے سارے رنگ انہی چند رنگوں میں سماگئے ہیں۔
نیویارک اسٹیٹ کے دارالخلافہ البنی(Albany) سے ٹرین مغرب کی سمت مڑ گئی۔ یہاں سے دریا کا ساتھ تو ختم ہوا لیکن سبزے اور پہاڑوں کا عالم وہی رہا۔ البتہ کہیں کہیں جھیلیں آجاتیں جن کا رنگ ہڈسن کے مٹیالے پانی کے برعکس گہرا سبز تھا۔ جہاں یہ جھیلیں نہ ہوتیں وہاں سر سبز میدان آجاتے۔ آٹھ نو گھنٹے بعد ٹرین نیاگرا فال کے بارڈر پر پہنچی جہاں دو گھنٹے کھڑے ہونے کے بعد ہم کینیڈا کی حدود میں داخل ہوئے۔ اس کے مزید دو گھنٹے بعد ٹرین ٹورنٹو کے یونین اسٹیشن پہنچی تو شام ہورہی تھی۔ میرا دل اداس تھا۔ مگر زندگی خوشی اور غم سے بے نیاز اپنے حساب سے سفر کرتی ہے۔ آج اس سفر کا ایک اہم باب اپنے اختتام کو پہنچ رہا تھا۔ فالحمدللہ رب العالمین۔
(جاری ہے۔ اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں)
( ابویحییٰ کی تصنیف ’’جب زندگی شروع ہوگی‘‘ دور جدید میں اردو زبان کی سب زیادہ پڑھی جانے والی کتاب بن چکی ہے۔انہوں نے درجن سے اوپر مختصر تصانیف اور اصلاحی کتابچے بھی لکھے اور سفر نامے بھی جو اپنی افادیت کے باعث مقبولیت حاصل کرچکے ہیں ۔ ان سے براہ راست رابطے کے لیے ان کے ای میل abuyahya267@gmail.com پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔)