شیروں کا شکاری ، امریکہ میں مقیم شکاری اور شاعر قمر نقوی کی شکار بیتیاں قسط نمبر 35
اس دفعہ چونکہ نوشاہ نے شکار کے کسی پروگرام کا تذکرہ کیا نہیں تھااور یہ میرے شکار پر جانے کا زمانہ بھی نہیں تھا،اس لیے میں اس قسم کے کسی انتظام کے ساتھ نہیں آیا تھا۔رائفل چونکہ ہر موقعے پر میرے ساتھ رہتی ہے،اس لیے اس کا بکس ساتھ آیا،مگر میں نے ابھی تک اس کو بکس میں نکالا بھی نہیں تھا۔جب شکار ،اور وہ بھی ایک چالاک شیر کے شکار کا مرحلہ پیش آیا تو میں نے بکس کھول کر رائفل نکالی اور کارتوس دیکھے۔کل دس کارتوس تھے۔۔۔۔
”آپ اپنی رائفل کیوں نہیں لائے۔۔۔۔؟“میں نے نوشاہ سے پوچھا۔
”میں نے تو رائفل فروخت کردی۔۔۔۔۔“
”کیوں۔۔۔۔؟“
انھوں نے سر جھکالیااور چپ ہوگئے۔
”کیوں نہیں لائے صاحب ۔۔۔۔۔؟“
”میں نے شکار ترک کردیا ہے۔۔۔۔۔۔“
”ارے ۔۔۔۔!“ میں نے متعجب ہوکر کہا ”کیوں چھوڑ دیا؟“
”یہ کسی دوسرے وقت بتاﺅگا۔۔۔۔۔“
اور دوسرے وقت انھوں نے جو مضحکہ خیز وجہ بتائی اس کا بیان کرنا لطف سے خالی نہ ہوگا۔کہنے لگے کہ کچھ ماہ ہوئے ،ڈوب کے اسی جنگل میں مَیں ایک چیتل کی تلاش میں گھوم رہا تھا۔چیتلوں کے ایک بڑے مندے کا تعاقب کرتے کرتے گھاس کے ایک میدان میں پہنچا تو وہاں ایک غیر معمولی خوب صورت سینگوں والا چیتل نظر آیا۔اس کا اگلا حصہ جھاڑی کے اندر آڑ میں تھا۔صرف سر اور گردن نظر آتی تھی ۔میں نے رائفل اٹھائی اور اس کے سر کا نشانہ لیا ۔اتنے میں چیتل جھاڑی سے باہر نکل کر بالکل سامنے آگیااور میں نے اس کی نظر سے نظر ملائی تو کیا دیکھتا ہو ں کہ ایک سفید ریش بزرگ اگلے ہاتھوں پر جھکے کھڑے ہیں۔ان کے چہرے پر نور کی بارش ہو رہی تھی اور آنکھوں میں ایسا غضب تھا کہ میں گھبرا گیا اور فائر نہیں کیا ۔۔۔۔لیکن جلدی ہی اپنی گھبراہٹ پر قابو پاکر دوبارہ نشانہ لیا تو یہ چیتل دو ایک قدم چل کر ایک جانب ہٹ گیا تھا ۔۔۔میں نے فائر کیا۔گولی خالی گئی اور چیتل نے گھوم کر میری طرف دیکھا۔۔۔مجھے پھر وہی سفید ریش بزرگ نظر آئے۔۔۔۔۔“
نوشاہ کا بیان ہے کہ انھوں نے چھ سات مرتبہ ان بزرگ کو ڈیڑھ دو سو گز کے فاصلے سے دیکھا اور اسی وقت شکار سے تائب ہوکر اپنی قیمتی رائفل بھی فروخت کردی۔بندوق ذاتی حفاظت کے لیے رکھ چھوڑی تھی۔
میں نے ان کو بہت کچھ سمجھا یا بجھایا۔مذاق بھی اڑایا ۔لیکن وہ اپنے عقیدے پر قائم رہے اور اب تک اپنا عہد بڑی مستقل مزاجی کے ساتھ نباہ رہے ہیں۔
شیروں کا شکاری ، امریکہ میں مقیم شکاری اور شاعر قمر نقوی کی شکار بیتیاں ..۔ قسط 34
بہرحال میں اپنی بے سروسانی کے باوجود دوسری صبح کھنڈر کی طرف چلا۔میرے ساتھ نوشاہ بھی تھے اور گاﺅں کے چار پانچ مضبوط جوان بھی ایک کھلگا اور مچان باندھنے کا سامان لیے ہو ئے تھے۔ہم لوگ نالے کے پار اتر کر سیدھے کھنڈرکی طرف بڑھتے گئے۔جھاڑیوں کے نیچے اور گھنے درختوں کے سائے میں جہاں زیادہ دھوپ نہیں پہنچتی تھی۔بارش کی وجہ سے کیچڑ تھی اور زمین کا وہ حصہ جہاں دھوپ پڑتی تھی ،خشک ہوکر سخت ہوگیا تھا۔اس حالت میں ماگھ کی جستجو بے کار تھی۔۔۔۔
بیل گاڑیوں کا راستہ تو نہیں تھالیکن ناہموار زمین ،گول پتھروں اور جھاڑیوں میں گاڑیاں اچھلتی کودتی بہرحال چلتی رہیں اور ہم لوگ دس بجے کے بعد کھنڈر سے دو تین سو گز پر پہنچ کر رک گئے۔
میں یہاں پر کئی بار آیا تھا،لیکن کھنڈر کے اندر جانے کا کبھی خیال بھی نہیں کیا تھا۔نہ ضرورت ہی پیش آئی تھی۔
”کہاں۔۔۔۔؟“نوشاہ نے پوچھا۔
”کھنڈر میں۔۔۔۔ذرادیکھوں،وہاںہے کیا۔۔۔“
”کھنڈر میں۔۔۔۔؟“ وہ متحیر ہو کر بولے۔
”ہاں ۔۔۔۔!کیوں۔۔۔۔؟“
”مگر وہیں تو شیر رہتا ہے۔۔۔۔“
”اگر شیر مل جائے تو مسئلہ ابھی حل ہوا جاتا ہے۔اس کی تلاش ہی تو یہاں تک لائی ہے۔۔۔۔“
”میری رائے تو نہیں کہ آپ کھنڈر میں جائیں۔۔۔۔“
میں مسکرادیا اور رائفل ہاتھ میں لے کر دو قدم ادھر بڑھا۔”وقت سے پہلے کوئی نہیں مرتا ۔۔۔۔پھر میں شیر کو مارنے آیا ہوں یا موت سے ڈرنے ۔۔۔۔“
نوشاہ گاڑی میں ہی ٹھہرے رہے اور میں کھنڈر کی طرف چلا ۔۔۔۔میں نے رائفل لوڈ کرلی تھی اور گھوڑے بھی چڑھا دیے تھے۔اگر ان لوگوں کا یہ خیال کہ شیر کھنڈر میں رہتا ہے،درست تھا تو مجھے مقابلے کے لیے تیار ہونا چاہیے تھا۔
جس حویلی کے یہ کھنڈر ات وہ دور سے دیکھنے میں تو مختصر معلوم ہوتی تھی،لیکن فی الواقع اس کا سلسلہ کافی رقبے میں پھیلا ہوا تھا۔دیواریں اور چھتیں گر گئی تھیں۔لیکن کچھ کمرے ،بر آمدے اور کوٹھڑیاں اب بھی شکستہ حالت میں کھڑی تھیں۔اور ان میں ٹھڑیوں میں چمگاڈریں اور ابابیلیں سکونت پذیر تھیں۔۔۔اس کے علاوہ ہر جگہ ہڈیوں اور دوسروں کے انبار تھے۔غالباًشیرجنگل سے جانور پکڑ کر یہیں کھینچ لاتا تھا اور آرام سے کھا تا تھا ۔(جاری ہے)