پٹرول کی بڑھتی قیمتوں کا مہنگائی پر اثر
روس اور یوکرین کے درمیان سن 2014 میں شروع ہونے والا تنازعہ ان دنوں شدت اختیار کرتا جارہا ہے جس کی وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان جنگ ہونے کے امکانات بڑھتے جارہے ہیں حالانکہ دونوں ممالک کے درمیان سن 2015 میں جرمنی اور فرانس کی مصالحت پر جنگ بندی کا فیصلہ بھی ہواتھا جو بدقسمتی سے زیادہ دیر قائم نہ رہ سکا۔یوں دونوں جانب سے جھڑپوں کا سلسلہ جاری رہا اورایک دوسرے پر جنگ بندی کی خلاف ورزی کے الزامات عائد کئے جاتے رہے۔عالمی دفاعی تجزیہ کاروں کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ عالمی طاقتوں نے مصالحت کرانے کے لئے سنجیدگی سے کوشش نہیں جس کی وجہ سے آج حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ ایٹمی جنگ کے امکانات کو مسترد بھی نہیں کیا جاسکتا۔
چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان وانگ وین بین نے حالیہ میڈیا بریفنگ میں انکشاف کیا ہے کہ روس اور یوکرین کے تنازعہ کے حوالے سے گزشتہ چند دنوں میں امریکہ نے جنگ کے خطرے کو بڑھاوا دیا ہے اور تناؤ پیدا کیا ہے، جس سے یوکرین کے اقتصادی اور سماجی استحکام اور لوگوں کی زندگیوں پر شدید اثرات مرتب ہوئے ہیں،ان کا کہنا تھا کہ امریکی اقدام متعلقہ فریقوں کے درمیان مذاکرات کے فروغ میں رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ترجمان نے روس اور یوکرین کے معاملے پر مغربی رویے کو ”اطلاعاتی دہشت گردی“قرار دیا ہے۔دوسری جانب روس کے صدر پیوٹن اپنے حالیہ بیان میں اس بات کا اظہار کرچکے ہیں کہ وہ یورپ میں جنگ نہیں چاہتے لیکن ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ روس کے سیکیورٹی خدشات کو بھی مدنظر رکھا جائے۔ موجودہ صورت حال میں ایک بات تو بالکل واضح ہے کہ اگردونوں ممالک کے درمیان خدانخواستہ جنگ ہوئی تو اس کے اثرات پورے خطہ پرہی نہیں بلکہ پوری دنیا پر پڑیں گے کیونکہ اس جنگ کے باعث دنیا میں تیسری عالمی جنگ شروع ہونے کے قوی امکانات ہیں۔ایک عالمی رپورٹ میں اس بات کا بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ روس،یوکرین کے درمیان خونریز جنگ کے نتیجہ میں دنیا میں روٹی کا شدید بحران پیدا ہوجائے گا۔
روس اور یوکرین کے درمیان جنگ کی اس غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے دنیا میں اس وقت افراتفری سی مچی ہوئی ہے،دنیا بھر میں کورونا کی وجہ سے پہلے ہی اقتصادی اورمعاشی بحران پیدا ہوچکاہے جو اب جنگ کی ان دھمکیوں کی وجہ سے مزید بڑھنے لگا ہے۔جنگ کی دھمکیوں کے نتیجہ میں عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں ریکارڈ اضافہ ہونا شروع گیا ہے،عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمتیں 92 الر فی بیرل تک پہنچ چکی ہیں۔عالمی منڈی میں جب تیل کی قیمتیں بلند ترین سطح پر پہنچیں تو اس کا براہ راست اثر پاکستان کی پٹرولنگ مصنوعات کی قیمتوں پر بھی ہوا۔ دنیا میں تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے پیش نظر پاکستان میں بھی پٹرولنگ مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کا امکان موجود تھا جس کے متعلق کئی مرتبہ معروف معیشت دان بتا چکے تھے اور عوام بھی کسی حد تک اس اضافہ سے متعلق جانتے تھے لیکن پٹرول کی قیمتوں میں اس قدر اضافہ کی توقع کسی کو بھی نہیں تھی خصوصا جب وزیر اعظم عمران خان نے پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کی سمری کو مسترد کردیا تھا اس وقت عوام کو امید تھی کہ حکومت سبسڈی دے گی اور پٹرول کی قیمتوں میں معمولی اضافہ کیا جائے گا۔
حکومت کوچونکہ اس سے قبل سبسڈی دینے کی وجہ سے اربوں روپے کا خسارہ برداشت کرنا پڑا تھا اسی لئے مزید سبسڈی دینا مشکل ہوگیا تھا۔ادھرپٹرول کی قیمتیں بڑھتے ہی ٹرانسپورٹرز نے کرایوں میں اضافہ کا مطالبہ کرنا شروع کردیا ہے۔تیل کی قیمتوں میں جب بھی اضافہ ہوتا ہے اس کا اثر بالواسطہ یا بلا واسطہ مہنگائی کی شرح پر ضرور ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ پٹرول کی قیمتیں بڑھنے کی وجہ سے سب سے زیادہ پریشان وہ عام آدمی ہے جس کے متعلق وزیر اعظم عمران خان اپنے خطابات میں کئی مرتبہ ذکر کرچکے ہیں کہ پاکستان میں سب سے زیادہ تعداد دیہاڑی دار افراد کی ہے اور40 فیصد سے زائد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کررہے ہیں۔ عوام پہلے ہی مہنگائی کے ہاتھوں بے حدپریشان ہیں ایسے میں پٹرول کی نئی قیمتوں سے مہنگائی میں خطرناک حد تک اضافہ کا امکان ہے۔ مہنگائی کے جن کو بوتل میں قید کرنے اور پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ پر قابو پانے کے لئے حکومت کو ایسے ٹھوس اقدامات کرنا ہونگے کہ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے والے افراد کو دووقت کی روٹی آسانی سے ملتی رہے۔