میرا لاہور کا پروفیشنل دور   (حصہ سوئم)

  میرا لاہور کا پروفیشنل دور   (حصہ سوئم)
  میرا لاہور کا پروفیشنل دور   (حصہ سوئم)

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پھر ایک دن پریس کلب میں ایک ایسا منظر کھلا کہ ہمارے مہامہمان منہاج برنا ششدر رہ گئے۔ پنجاب یونین آف جرنلسٹس (پی یو جے) کی مجلس عاملہ کا اجلاس ہوا جس کی صدارت منو بھائی کر رہے تھے جنہوں نے پروٹوکول کے تحت شہر میں موجود وفاقی صدر منہاج برنا کو بھی بلا کر ساتھ بٹھا لیا۔ بس اس طرح ان کی شامت آ گئی۔ منو بھائی سے میرے بہت گہرے ذاتی تعلقات تھے جن کے ساتھ ہم پاکستان رائٹرز کلب پہلے ہی بنا چکے تھے۔ ہم دو کے علاوہ امجد اسلام امجد اور مظفر محمد علی بھی چارپائیوں میں شامل تھے۔ ان دنوں ایک چھوٹے اخبار ”جاوداں“ میں کارکنوں کی چھانٹی کے باعث احتجاجی سلسلہ جاری تھا۔ ساتھ والے کمرے میں کارکن جمع تھے۔ مجھ سے ان کارکنوں کو بجا طور پر ہر امید تھی کہ میں وفاقی صدر کی موجودگی میں ان سے زیادتیوں کا مسئلہ پی یو جے کے اجلاس میں اٹھاؤں گا۔

جیسے ہی مجھے موقع ملا میں نے اپنی پرجوش تقریر میں منہاج برنا کا نام لے کر صدر سمیت تمام وفاقی قیادت پر منافقت اور مصلحت پرستی کا الزام لگاتے ہوئے چھوٹے اخباروں کے کارکنوں کے مسائل کو نظر انداز کرنے پر ان کی جی بھر کر ”کلاس“ لی۔ میرے ایک ایک فقرے پر دوسرے کمرے سے کارکنوں کی تالیاں بجتیں۔ منہاج برنا میری سوچ سے اچھی طرح سے واقف تھا لیکن اسے ذرا بھی اندازہ نہیں تھا کہ رات اتنی خوش اخلاقی سے ان کی میزبانی کرنے والا یہ نوجوان پی یو جے کے اجلاس میں اتنی ”بدلحاظی“ سے پیش آئے گا۔ منو بھائی  کمال درجے کے شریف آدمی تھے۔ انہوں نے مجھے ذرا نہیں ٹوکا۔ صرف عجیب سی نظروں سے دیکھتے رہے، جیسے کہہ رہے ہوں کہ سیاست اپنی جگہ سہی لیکن کچھ میرا ہی لحاظ کرلو، لیکن یہ موقع ذاتی تعلق دیکھنے کا نہیں اصولی موقف کو برملا لگی لپٹی رکھے بغیر بیان کرنے کا تھا۔

سیدعباس اطہر بھٹو فیملی کے ذاتی اخبار ”مساوات“ میں سینئر پوزیشن پر کام کررہے تھے۔ ایک وقت ایسا آیا کہ وہ اس کے بااختیار ایڈیٹر بن گئے۔ انہوں نے جو پہلے انتظامی فیصلے کئے ان میں اپنے مخالف برنا گروپ سے تعلق رکھنے والے تین سینئر رپورٹروں کا نیوزم روم میں تبادلہ شامل تھا۔ برنا گروپ نے اس پر ملک گیر ہڑتال کا اعلان کر دیا۔ مجھے عباس اطہر نے بالواسطہ پیغام دیا کہ میں برنا گروپ کے فیصلے کے خلاف احتجاج کے طور پر پی یو جے کے جائنٹ سیکرٹری کے عہدے سے مستعفی ہو جاؤں اور میں نے اس احتجاج سے زیادہ عباس اطہر کی محبت میں استعفیٰ دے دیا۔ اس طرح اپنے رشتے نبھانے کی خاطر اپنی ٹریڈ یونین سیاست کا اپنے ہی ہاتھوں سے خاتمہ کر لیا۔

میں دل برداشتہ ہو کر صحافت ترک کرکے اوکاڑہ واپس جانے کا سوچ رہا تھا کہ عباس اطہر نے مجھے آفر کی کہ میں روزنامہ ”مساوات“ کا فیصل آباد کا ایڈیٹر بن کر وہاں  چلا جاؤں۔ تب یہ اخبار لاہور کے ہیڈکوارٹر کے علاوہ کراچی اور فیصل آباد میں چھپتا تھا۔ میں نے فیصل آباد میں سال ڈیڑھ سال کا ہنگامہ پرور عرصہ گزارا جس دوران میرے اس وقت کے اس ریجن کے سیاست دانوں سے ذاتی تعلقات قائم ہوئے جن میں سابق وفاقی وزیر حفیظ اللہ چیمہ، صوبائی وزیر سردار صغیر اور بھلوال شہر کے میئر نذیر رانجھا (نون لیگ کے لیڈر محسن شاہنواز رانجھا کے تایا) شامل تھے۔ مساوات کے ہیڈکوارٹر میں تبدیلی آئی۔عباس اطہر کی جگہ نئی انتظامیہ آ گئی اور میں فارغ ہو کر لاہور آنے کی بجائے اوکاڑہ چلا گیا۔

مجھے صحافت سے اپنی جبری فراغت پسند نہیں تھی لیکن اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ ایک دن مجھے لاہور سے اپنے جرنلزم ڈیپارٹمنٹ کے سابق کلاس فیلو جاوید اقبال پراچہ کا فون آیا جو اس وقت پاکستان ٹیلی ویژن لاہور سنٹر کا نیوز ایڈیٹر بن چکا تھا۔ اس نے مجھے ہنستے ہوئے کہا کہ ایک بہت اچھا جاب ہے اگر کرنا ہے تو بتاؤ۔ پھر کہنے لگا کہ اس میں داحد مسئلہ یہ ہے کہ آپ کو میرے ماتحت کام کرنا ہو گا۔ کنٹریکٹ پر نیوز پروڈیوسر کی آسامی  ہے جو کچھ عرصہ بعدکنفرم ہو جائے گی۔ میں نے اسی طرح ہنستے ہوئے جواب دیا کہ میں لاہور واپس آنا چاہتا ہوں جس کے لئے مجھے تمہاری ماتحتی بھی برداشت کرنا پڑے گی۔ اس طرح میں ایک مرتبہ پھر لاہور کی بارونق زندگی کا حصہ بن گیا۔ پریس کلب میں آنا جانا شروع ہوا جہاں عباس اطہر سمیت پرانے ساتھیوں کی مجلسوں میں شرکت معمول بن گیا۔

اس دوران ایئر مارشل اصغر خان نے ”آزاد“ نامی اخبار خرید کر شروع کرنے کا فیصلہ کیا تو عباس اطہر کو یہ پراجیکٹ دے دیا۔ میں ذاتی طور پر اس ساری جدوجہد میں ان کے ساتھ شریک تھا۔ اخبار شروع ہو گیا تو میں نے اجازت چاہی کہ میں پاکستان ٹیلی ویژن میں تین بجے سے رات دس بجے تک کام کررہا تھا۔ انہوں نے اصرار کرکے مجھے مارننگ شفٹ کا انچارج بنا دیا جو پانچ بجے تک چلتی تھی۔ انہوں نے کہا کہ تین بجے سے پہلے یہ کام کسی دوسرے ایڈیٹر کے حوالے کرکے ٹی وی سٹیشن چلے جایا کرنا۔ اس طرح عباس اطہر سے دوستی کے اس تعلق کی بناء پر میں دو کام کرتا رہا۔ ڈبل محنت، ڈبل تنخواہ، پریس کلب کی انٹرٹینمنٹ، عیاشی ہی عیاشی۔

اب باری آئی ذاتی زندگی میں ایک اہم تبدیلی اور لاہور میں میرے پروفیشنل دور میں ایک خوشگوار موڑ کی۔ پریس کلب میں ایک چھوٹے موٹے اخبار میں کام کرنے والے ایک بزرگ مرزا صاحب (پورا نام یاد نہیں)کھانا کھانے آتے تھے۔ انہوں نے پتہ نہیں کیا سوچا مجھے کرشن نگر میں اپنے گھر بلایا۔ ان کے گھر ان کی بیگم کو ملا تو انہوں نے بتایا کہ قریب ہی فیملی ویلفیئر کا خواتین کا ایک ادارہ ہے جس کی منیجر مسز شیخ ہیں جن کے پاس وہ کام کرتی ہیں جنہیں اپنی بیٹی کے لئے رشتے کی تلاش ہے۔ یہ مجھے آج تک سمجھ نہیں آتی کہ مرزا صاحب مجھے ہی کیوں اس مقصد کے لئے بلا کر لائے۔ شاید کہیں طے ہوا تھا کہ ایسا ہونا ہے۔ مسز شیخ نے مجھے پسند کیا اور مختصر مدت میں شادی کی تاریخ بھی طے ہو گئی اور شادی بھی ہو گئی، لیکن شادی سے پہلے کیا ہوا؟ مجھے ایک روز فون آیا۔ امریکن سنٹر لاہور سے جس کے پریس لاؤنج میں ہم اکثر جاتے رہتے تھے۔ پریس سیکشن کے انچارج یعنی انفارمیشن ایڈوائزر حسینی صاحب مجھے ڈپٹی انفارمیشن ایڈوائزر کے عہدے کی پیشکش کررہے تھے جسے میں نے کچھ مہلت لینے کے بعد قبول کرلیا۔ اپنی شادی کے رشتے کا حال اس لئے بیان کیا کہ مجھے امریکی سنٹر میں جاب شروع کرنے میں تاخیر کرنا پڑی کہ اس سے پہلے مجھے اپنی شادی کرنی تھی۔

حسینی صاحب نے مجھے ہی یہ آفر کیوں کی؟ یہ مجھے بعد میں نصراللہ غلزئی نے بتایا۔ ان سے حسینی صاحب نے مشورہ کیا کہ انہیں اپنے ڈپٹی کے عہدے کو پُر کرنا ہے جو چند سال بعد ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد ان کی جگہ سنبھال سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ انہیں ایک ایسے پروفیشنل کی ضرورت ہے جو بیک وقت اردو اور انگریزی زبان کارائٹر ہو اور جس کے اخباری برادری میں اچھے اور وسیع تعلقات ہوں۔ غلزئی نے مجھے بتایا کہ میں نے حسینی صاحب کو کہا کہ مجھے حیرانی ہے کہ آپ کو اظہر زمان کا خیال کیوں نہیں آیا۔ اس نے انگلش جرنلزم میں ایم اے کیا ہے۔ انگریزی رسالوں کے ساتھ اردو اخباروں اورٹی وی نیوز روم میں کام کا تجربہ ہے۔ ٹریڈ یونین میں سرگرمی کے باعث اس کے تعلقات کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ حسینی صاحب نے غلزئی کے ساتھ اتفاق کیا اور اس طرح مجھے آفر کرنے کے لئے فون کیا۔ میں نے انگلش جرنلزم میں ایم اے کیا تو اس میں پبلک ریلیشنز کا ایک سبجیکٹ بھی پڑھا تھا۔ صحافت میں تعلیم کے بعد اس کا مناسب سا تجربہ بھی حاصل کیا، لیکن یہ پتہ نہیں تھا کہ مجھے ایک روز انٹرنیشنل پبلک ریلیشنز کی پُراسرار اور نازک  وادی میں قدم رکھنے کا نادر موقع ملے گا۔ اس ذمہ داری کو کتنا پورا کیا، کتنا اجوائے کیا اور اس میں کیسے کیسے چیلنجوں کا سامنا کیا، یہ میں اب آپ کو مختصر طور پر بتاؤں گا۔

(جاری ہے)

مزید :

رائے -کالم -