معیاری لازمی تعلیم …… دوسروں سے سیکھیں
جناب عرفان علی ایک ریٹائرڈ ایرو ناٹک انجینئر ہیں۔ ریٹائرمنٹ کے بعد اب وہ امریکی ریاست ٹیکساس کے شہرDenton میں مقیم ہیں۔ ان کی بیگم منور صاحبہ بھی ایک بڑی افسر رہیں دونوں کو پنشن مل رہی ہے۔ اپنی توانائی اور وسائل ویلفیئر کے کاموں میں صرف کرتے ہیں۔ جناب عرفان علی کی یہ انتہائی خواہش ہے کہ پاکستانی عوام اور حکومت امریکہ سے اچھی حکومت کاری، نظام تعلیم، صنعت و تجارت اور زراعت و معیشت کے سلسلے میں زیادہ سے زیادہ سیکھیں۔
امریکی نظام تعلیم کے سلسلے میں انہوں نے بتایا کہ دوسرے شعبوں کی طرح امریکن ایجوکیشن سسٹم بھی بہترین سسٹم ہے۔ سکول تک کی ایجوکیشن ہر جگہ فری ہے۔ اس کا انتظام سٹیٹ یا کاؤنٹی کرتی ہے۔ ابتدائی کلاسوں کی تدریس کے لئے کسی بھی شخص کا اٹھارہ سال کی تعلیم مکمل کرنا ضروری ہے۔ سولہ سال میں گریجوایشن کے بعد دو سال تک ٹیچنگ کی خصوصی تعلیم حاصل کی جاتی ہے، ایک سال تک تھیوری اور ایک سال تک سینئر اساتذہ کی نگرانی میں تدریس کا عملی تجربہ حاصل کرنے کے بعد ایک شخص ابتدائی کلاسوں کو پڑھانے کے اہل قرار دیا جاتا ہے۔ ہر جگہ علاقے کا سکول پانچ سال کی عمر کو پہنچنے سے کچھ دن پہلے والدین کو نوٹس بھیج دیتا ہے کہ آپ کا بچہ فلاں تاریخ کو پانچ سال کی عمر کا ہوجائے گا، آپ اس تاریخ سے پہلے اسے بچوں کے فلاں فلاں حفاظتی ٹیکے لگوا کر سرٹفکیٹ حاصل کرلیجئے اور مقررہ تاریخ کو بچے کو لے کر سکول پہنچ جایئے۔
اگر والدین بچے کو سکول لے جانے میں کوتاہی کریں تو وہ جیل میں اور بچہ سکول میں پہنچ جائے گا۔ ہر سکول میں فزیکل ایجوکیشن کا ٹیچر، سائیکیا ٹرسٹ اور، نیوٹرسٹ بھی موجود ہوتا ہے۔ بچے کو سکول پہنچنے کے بعد ایک فون نمبر بھی دے دیا جاتا ہے کہ اگر گھر میں والدین یا کوئی دوسرا اس پر تشدد کرے یا ڈانٹے تو وہ اس نمبر پر ڈائل کرکے مدد حاصل کرسکتے ہیں۔ بچوں کو سکول کی طرف سے کتب اور کاپیاں ملتی ہیں جس کا بھاری بیگ اسے اپنے ساتھ گھر لے جانا لانا نہیں ہوتا اسے وہ سکول ہی میں چھوڑ کر جاتا ہے۔ سکول زیادہ فاصلے پر ہے تو سکول کی بس اسے گھر سے لانے اور لے جانے کی سہولت مہیا کرتی ہے۔ بچوں کو ناشتہ اور دوپہر کا کھانا (بعض جگہ صرف ناشتہ) سکول ہی میں ملتا ہے۔ ناشتے میں ہر بچے کو جوس، دودھ، بریڈ، مکھن، اور جیم دیا جاتا ہے۔
انہیں اچھے طریقے سے ٹیبل پر مل بیٹھ کر کھانے کی تربیت بھی دی جاتی ہے۔ عرفان علی صاحب بتاتے ہیں کہ بچوں کی صحت کے سلسلے میں سکول میں ان کا باقاعدہ چیک اپ ہوتا رہتا ہے۔ نفسیاتی طور پر بچوں کو ساؤنڈ اور صحت مند رکھنے کے لئے بہت خیال رکھا جاتا ہے۔ مار پٹائی کا تو تصور ہی نہیں ٹیچرز (اور گھر میں والدین) بچوں کو ڈانٹ ڈپٹ بھی نہیں کرسکتے۔ کسی گھر سے بچوں کو ڈانٹنے ان کے چیخنے کی آواز آئے تو ہمسائے اس کی اطلاع پولیس کو کردیتے ہیں۔ ایک موقع پر ایک سکول میں ٹرے میں اپنا ناشتہ وصول کرتے وقت ایک بچے نے ناشتہ دینے والی خاتون سے کہا: ”مجھے یہ انڈا پسند نہیں ہے میں یہ نہیں لوں گا“۔ خاتون نے اس سے انڈا پکڑا اور اسے کوڑے دان میں پھنکتے ہوئے اس کی ٹرے میں ایک دوسرا فرائی انڈا رکھتے ہوئے اس سے کہا: یہ لو دوسرا انڈا، امید ہے تمہیں یہ پسند ہوگا؟ اس نے اس سے پہلے انڈے کے متعلق کچھ بحث نہیں کی اور نہ ہی وہ انڈا اس کے بعد ناشتہ لینے والے بچے کی ٹرے میں رکھا، تاکہ اس طرح کسی دوسرے بچے میں بھی یہ احساس پیدا نہ ہو کہ اسے کسی دوسرے بچے کا رد کیا گیا انڈا دے دیا گیا ہے۔
اسی طرح عرفان صاحب کے ہمسایوں کی دس سالہ بچی نے ایک دن سکول سے گھر آکر اپنی امی سے کہا: امی میں اب اس سکول میں نہیں جاؤں گی۔ میری کلاس ٹیچر نے مجھے کلاس کے سب بچوں کے سامنے بیوقوف کہا ہے۔ بچی کی ماں نے فورا کہا : نہیں میری بیٹی تم تو دنیا کی سب سے زیادہ ذہین اور دانا بچی ہو۔ اس ٹیچر نے تمہیں یہ کہنے کی جرأت کیسے کی؟ میں ابھی تمہارے پرنسپل سے بات کرتی ہوں۔ اس کے بعد ماں نے پرنسپل کو فون کیا تو اس نے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ آپ اپنی بچی کو صبح آٹھ بجے لے کر میرے دفتر آجائیں، میں اس معاملے کو دیکھ لیتا ہوں۔ آئندہ صبح والدہ اپنی بیٹی کے ساتھ سکول پہنچی تو وہاں سکول کے سائیکیاٹرسٹ اور بچی کی کلاس ٹیچر پہلے سے موجود تھے۔ پرنسپل نے ماں اور بیٹی کے پہنچنے کے بعد کلاس ٹیچر سے کہا: آپ اب جائیں، پھر اس نے بچی سے کہا: آپ کی ٹیچر کی دوسری کلاس میں ٹرانسفر کردی گئی ہے، آج سے ایک دوسری ٹیچر آپ کی کلاس لے گی۔ پھر اس نے بچی سے پوچھا کہ اصل میں بات کیا ہوئی تھی۔
بچی نے کلاس میں اپنے ساتھ کئے گئے ٹیچر کے سلوک کی تفصیل بتائی۔ اس دوران سکول کا سائیکیا ٹرسٹ نوٹس لیتا رہا۔ بچی کی بات سننے کے بعد پرنسپل نے اسے تسلی دی کہ وہ جائے اور اطمینان سے اپنی کلاس میں بیٹھے، اب اسے پہلے والی ٹیچر نہیں پڑھائے گی، پھر سکول کے سائیکیاٹرسٹ نے ایک سائیکیاٹرسٹ کا ایڈریس لکھ کر بچی کی ماں کو دیا اور کہا کہ بچی کے ذہن پر ٹیچر کی بات کا منفی اثر ہوا ہے۔ آپ بچی کو دوماہ تک ہفتے میں ایک بار اس سائیکیاٹرسٹ کے پاس لے کر جائیں گی، اس کے ساتھ اس کے آٹھ سیشن ہوں گے وہ اس سے بات چیت کرے گا اور اس کے ذہن پر ہونے والے منفی اثرات کو ختم کرے گا۔ اس کے بعد ماں دوماہ تک بچی کو متعلقہ سائیکیاٹرسٹ کے پاس لے جاتی رہی اور اس کی طرف سے منفی اثرات ختم ہونے کا سرٹیفکیٹ مل جانے تک یہ سلسلہ جاری رہا۔
یہی نہیں امریکہ میں ہر شخص دوسرے کی حوصلہ افزائی کرنے اور اس کا خود پر اعتماد بڑھانے کی کوشش کرتا ہے۔ میں نے امریکہ میں رہتے ہوئے کوئی ایک سو امریکیوں سے مختلف مواقع پر پوچھا کہ انہیں کس چیز پر سب سے زیادہ فخر ہے- ہر کسی نے کہا: ”مجھے اپنے پیشے (کام) پر فخر ہے جس کی کہ میں نے ٹریننگ حاصل کی ہے۔ میں نے ایک نرسری سکول میں ایک روز دیکھا کہ صبح سویرے اپنے دس بارہ بچوں کے ہمراہ ایک ٹیچر انہیں لے کر سکول کی گراؤنڈ میں کھڑی ہے۔ پہلے کچھ دیر اس نے ان کی قطار سیدھی کرائی اور پھر اکیلے اکیلے بچے کے پاس جاکر پوچھنے لگی کہ اسے خود پر کس لئے فخر ہے؟ کسی بچے نے کہا اس نے خوبصورت شرٹ پہن رکھی ہے، اس لئے اسے خود پر فخر ہے۔ کسی نے کہا کہ اس نے آج خود اپنے قلم سے کاغذ پر تصویر بنائی ہے اسے اس لئے خود پر فخر ہے۔کسی نے کہا کہ اس نے اپنے بوٹوں کے تسمے آج خود باندھے ہیں اس لئے اسے خود پر فخر ہے ایک بچے نے کہا کہ اس کا نام ٹمی ہے اس لئے وہ خود پر فخر کرتا ہے۔ غالباً ان بچوں کو ٹیچر کی طرف سے کہا گیا تھا کہ آپ کو خود پر فخر کرنا چاہئے خواہ کسی وجہ سے بھی ہو، اور ہر بچہ صبح سکول میں آکر سب سے پہلے خود پر فخر کرنے کی کوئی نہ کوئی وجہ بتائے گا۔
امریکی معاشرے میں ہر سطح پر یہ احساس راسخ ہے کہ صرف خود اعتماد لوگ ہی مثبت سوچ کے مالک ہوتے ہیں، احساس کمتر ی کے شکار لوگ منفی سوچ اپنا کر جرائم پیشہ بن جاتے ہیں۔ اگر ہم پاکستان میں امیر غریب سب کے لئے معیاری تعلیم کا سوچیں تو امریکہ کی طرح کا معیار قائم کرنے میں تو بہت وقت صرف ہوگا، لیکن کم از کم ہم ابتدائی تعلیم کے دوران بچوں میں خود اعتمادی پیداکرنے اور انہیں گھر اور سکول کے تشدد سے بچانے کا اہتمام ضرور کرسکتے ہیں۔ میں اپنے دوستوں کی ایک تنظیم ”ہیلپ لائن“کو جانتا ہوں جو مختلف سرکاری سکولوں میں دوسری سہولتیں فراہم کرنے کے علاوہ وہاں کے غریب بچوں کو اپنی طرف سے یونیفارم، فیس اور کتب وغیرہ فراہم کرتی ہے، یہ لوگ غریب طلبہ کے والدین سے ملاقات کرکے انہیں گھرمیں بھی بچوں کو اچھا ماحول اور بہتر خوراک مہیا کرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔
اس مقصد کے لئے جس گھرانے کو اپنی آمدنی بڑھانے کے لئے مالی مدد کی ضرورت ہو مناسب حد تک وہ بھی مہیا کرتے ہیں، کسی کے گھر والے سلائی کڑھائی کے ذریعے کچھ آمدنی حاصل کر سکتے ہیں تو اسے سلائی مشین مہیا کردی جاتی ہے، کسی کے گھر میں مرغیاں یا بکری وغیرہ پالنے سے بچوں کی بہتر خوراک کا انتظام ہوسکتا ہے تو اس سلسلے میں اس کی مدد کی جاتی ہے، اگر سکول سطح تک کی لازمی تعلیم اچھے معیار کے ساتھ غریب اور امیر سب کے بچوں کے لئے کے لئے بہتر عمارت اور اچھے ماحول کے ساتھ تربیت یافتہ اساتذہ کی نگرانی میں مہیا کر دی جائے، تو اس صورت میں یہ مسئلہ باقی رہ جائے گا کہ امیر اپنے بچوں کو گالی گلوچ اور مارپیٹ والے ماحول سے آئے ہوئے احساس کمتری کے شکار غریب بچوں کے ساتھ بٹھا کر تعلیم دلانے سے کترائیں گے۔
اس سلسلے میں لازمی طور پر سکولوں کے لئے کمیونٹی سپورٹ کی ضرورت ہو گی۔ہر علاقے کے پڑھے لکھے اور باشعور لوگوں پر مشتمل ایسی ٹیمیں لازما تشکیل دی جانی چاہئیں جو ”ہیلپ لائن“ کی طرح غریب اور ان پڑھ والدین کے بچوں کو گھروں میں اچھا ماحول مہیا کرنے کے لئے کمیونٹی کی طرف سے تمام ضروری اقدامات کرنے کی ذمہ دار ہوں۔ اس کے علاوہ بھاری امریکی مالی معاونت کے ذریعے ملک بھر میں ابتدائی معیاری تعلیم کے لئے اساتذہ کی تربیت کا جو سلسلہ Pre-Step کے نام سے شروع ہوا اور اس سلسلے میں تشکیل کئے گئے نصاب کے مطابق اساتذہ کی ٹریننگ کی گئی اس سلسلے کو جاری رکھنا ہی ہمارے ہاں معیاری ابتدائی تعلیم کی ضمانت ہوسکتا ہے۔ اس سب کچھ کو نظر انداز کرکے بین الاقوامی ڈونرز سے مختلف طرح کے دوسرے تعلیمی پروگراموں کے لئے امداد حاصل کرنے کی کوشش میں لگ جانا قومی مقاصد کے لئے زیادہ مفید ثابت نہیں ہوسکتا۔