وہ پاکستانی خاندان جس کی پانچوں بیٹیاں سی ایس ایس افسر بن گئیں
اسلام آباد (ویب ڈیسک) فیڈرل پبلک سروس کمیشن نے سال 2019 میں منعقدہ مقابلے کے امتحانات (سی ایس ایس) کے نتائج کا اعلان کر دیا، صرف دو اعشاریہ اکیاون فیصد امیدوار کامیاب ہو سکے۔تحریری و زبانی امتحانات کے بعد کامیاب امیدواروں کی تعداد تین سو پینسٹھ رہی جن میں سے دو سو چودہ امیدواروں کو گریڈ سترہ میں تعینات کرنے کی سفارش کر دی گئی، ان کامیاب ہونیوالی امیدواروں میں ایک ایسی امیدوار بھی تھی جس کی چار بہنیں پہلے ہی پاکستان کی سول سروس میں فرائض انجام دے رہی ہیں۔ پانچ بہنوں میں سب سے چھوٹی ضحیٰ ملک شیر پاکستان میں سینٹرل سپیریئر سروس کے امتحان کو پاس کر کے پاکستانی سول سروس کا حصہ بننے والی اس خاندان کی پانچویں رکن ہیں۔
بی بی سی اردو کے مطابق ان پانچوں بہنوں کا تعلق صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع ہری پور سے ہے اور ملک رفیق اعوان اور خورشید بیگم کی ان پانچوں بیٹیوں نے راولپنڈی کے کانونٹ سکول سے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ یہ وہی سکول ہے جہاں پاکستان کی سابق وزیراعظم بےنظیر بھٹو نے بھی اپنی ابتدائی تعلیم حاصل کی تھی۔
سب سے بڑی بہن لیلیٰ ملک شیر نے 2008 میں سی ایس ایس کا امتحان پاس کیا تھا اور اس کامیابی نے ان کی چھوٹی بہنوں کو وہ راہ دکھائی کہ ہر دو سے تین سال بعد ایک بہن سی ایس ایس کے امتحان میں کامیابی حاصل کرتی چلی گئیں, لیلیٰ ملک شیر اس وقت کراچی میں انکم ٹیکس کے محکمے میں ڈپٹی کمشنر کے فرائض ادا کر رہی ہیں ۔اس کے بعد شیریں ملک شیر آج کل نیشنل ہائی وے اتھارٹی اسلام آباد میں ڈائریکٹر ہیں۔تیسری بہن سسی ملک شیر ڈپٹی ایگزیکٹو سی ای او چکلالہ کینٹ راولپنڈی ہیں اور پھر ماروی ملک شیر جو بطور ایڈیشنل اسسٹنٹ کمشنر ایبٹ آباد فرائض ادا کر رہی ہیں۔
ضحیٰ ملک سب سے چھوٹی بہن ہیں اور 17 جون کو جاری کیے جانے والے نتائج کے مطابق وہ آفیسرز مینجمنٹ گروپ میں شمولیت اختیار کریں گی, رپورٹ کے مطابق ضحیٰ زمانہ طالب علمی میں کالج نیٹ بال کی کپتان اور سٹوڈنٹس کونسل کی صدر بھی تھیں۔ انھوں نے نیشنل ڈیفینس یونیورسٹی اسلام آباد سے بین الاقوامی تعلقاتِ عامہ میں ماسٹرز بھی کیا ہے،ضحیٰ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’بچپن ہی سے ہمیں ہماری والدہ اور والد نے بتایا تھا کہ ہمیں خودمختار بننا ہے اور ہماری تعلیم و تربیت پر بہت محنت کی،جب میری بڑی بہن لیلی ملک شیر نے سی ایس ایس پاس کیا اور انھیں دیکھا تو اس سے مجھے بھی لگا کہ مجھے بھی ایسا بننا ہے۔اس سے قبل، ضحیٰ ریڈیو اسلام آباد کے ایک پروگرام ’رابطہ‘ میں اینکر کے فرائض انجام دیا کرتی تھیں جہاں پر خواتین اور مختلف لوگ انھیں ٹیلی فون کر کے اپنے مسائل بتایا کرتے تھے۔
انھوں نے بتایا کہ اس وقت ہی سوچ لیا تھا کہ اگر ایک ریڈیو پروگرام سے اس طرح لوگوں بالخصوص خواتین کے مسائل حل ہوسکتے ہیں تو یقیناً سول سروس میں شمولیت اختیار کر کے میں بہت کچھ کر سکتی ہوں،بچپن ہی سے ہمیں بتایا گیا تھا کہ ہم نے دنیا میں کچھ کرنا ہے۔ کچھ ایسا کرنا ہے جو یاد رہ جائے،اسی لیے میرے والدین شروع سے یہی کہا کرتے تھے کہ ہم بہنوں کو سی ایس ایس افسر بننا چاہیے کیونکہ اس میں کام کرنے کے بہت مواقع ہیں بلکہ صلاحیتوں کا صحیح طور پر اظہار بھی ہو سکتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق ان بچیوں کے والد ملک رفیق اعوان واپڈا سے ایس ڈی او ریٹائرڈ ہیں۔ ان کی آبائی رہائش تو ضلع ہری پور میں ہے مگر ایک عرصے سے وہ راولپنڈی میں مقیم ہیں،گذشتہ شام جب سی ایس ایس کے کامیاب امیدواروں کے نتائج کا اعلان ہوا تو ان سے رابطہ قائم کرنے کی کوشش کی تو ان کا ٹیلی فون تقریباً دو گھنٹے تک متواتر مصروف تھا۔جب ٹیلی فون ملا اور ان سے بات چیت شروع ہوئی تو انھوں نے خود ہی بتایا کہ آج بڑا عجیب اور خوشی کا بہت بڑا دن تھا،وہ بتانے لگے کہ ’جب میری پانچویں بیٹی کی پیدائش ہوئی تو اس وقت میرے رشتہ داروں نے ہم لوگوں کو مبارک باد دینے کی جگہ ہم دونوں سے افسوس کا اظہار کیا تھا کہ اس مرتبہ بھی بیٹا نہیں ہوا ہے،بیٹی پر ہمیں تو کوئی غم نہیں تھا مگر عزیزوں رشتہ داروں کے رویہ پر کچھ افسوس ضرور ہوا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ آج جب کئی سال بعد میری پانچویں بیٹی نے بھی سی ایس ایس کا امتحان پاس کر لیا ہے تو رشتہ دار مبارک باد دینے کے لیے ٹیلی فون پر ٹیلی فون کر رہے ہیں اور گھر میں مہمانوں کا تانتا بندھا ہوا ہے،اکثریت وہی لوگ ہیں جو پانچ بیٹیوں پر کھلے یا ڈھکے چھپے انداز میں ہم سے افسوس کا اظہار کیا کرتے تھے۔
بی بی سی پر مکمل آرٹیکل موجود ہے ، پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔