گستاخانہ مواد اورسوشل میڈیا
انہیں بھی شوق ہے نئی دیواریں چُننے کا اور ہمیں بھی عادت ہے سر پھوڑنے کی ۔آؤاور فیض کوآواز دو ۔:
رخت دل باندھ لو،دل فگارو چلو
ہمی قتل ہو آئیں،یارو چلو
انٹر نیٹ پر گستاخانہ مواد،سوشل میڈیا کا مقدمہ،چودھری نثار کا فرمان شاہی ایسا موقف،توہین رسالت(عصمتِ انبیاء)مسٹر جسٹس شوکت عزیز صدیقی کا فیصلہ اور ہاں امریکی کانگرس میں تازہ ٹیڈپوکا پیش کیا گیا بل ، اس کے اسراروعواقب اوراثرات و مضمرات۔۔۔۔کسی ایک پر فصیح کلام کرنا قیامت ہے،کسی ایک پر بھی بلیغ قلم اٹھانا موت ہے۔ موت اور قیامت بھی وہ جو سر پر کھڑی ہو۔چلئے خدائے سخن کے خوبصورت شعر سے تھوڑی توانائی یا تقویت پکڑ کے دیکھا کئے۔:
سب پہ جس بار نے گرانی کی
اسے یہ ناتواں اٹھا لیا
سوشل میڈیاپر توہین آمیز مواد کی روک تھام کے لئے مسٹر جسٹس شوکت صدیقی کے فیصلے کو نیک نیتی پر ہی محمول گردانا چاہئے۔لیکن سو سوالوں کا ایک سوال کہ حسن نیت سے کئے گئے فیصلہ جات اورصدق دلی سے اٹھائے گئے اقدامات ہمیں کہاں کہاں نہیں لے گئے؟چشم فلک کی نیلی بوڑھی آنکھوں کے علاوہ سماجیات ،سیاسیات اوردینیات کے طالب علموں نے بھی بارہا دیکھا۔فتنہ کو رفع اوردفع کرنے کی خاطر اٹھایا جانے والا قدم ہمیں مزید فتنوں کی جانب ہی لے گیا۔آج بھی اس فریب کے بھنور اور سراب کے گرداب سے نکلنے کی ہماری سب سے بڑی آرزو ہے۔
تحمل مزاج اور عادل اموی فرمانروا عمر بن عبدالعزیزکی قبر پر اللہ کے نور کی برکھا برسے ۔انہوں نے تراشیدہ روایات کا راستہ روکنے کے لئے سچے دل سے سبیل کی ۔حسن نیت سے انہیں ترکیب سوجھی کہ عین سرکاری سرپرستی میں وہ روایات کاایک مستند مجموعہ مرتب کروادیں کہ پھر قصہ گو راویوں کے لئے کسی تراشیدہ روایت کا موقع ہی نہ رہے۔پھر کیا ہوا؟ان کی بے وقت رحلت یا اچانک انتقال سے یہ منصوبہ پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکا۔آگے چل کر البتہ قصہ گو راویوں اور شعلہ بیاں شارحوں کے ہاتھوں میں خلیفہ عادل کی سند ضرور آگئی۔صدیا ں بیت گئیںآج اس فیصلے کے اسرار و عواقب پر تاریخ کا بے لاگ فیصلہ ہمارے سامنے ہے۔تشریحی التباسات اور نظری انحرافات کی دھند چھٹنے کی بجائے مزید دبیز ہوتی گئی عباسی عہد میں پہلے مامون بااللہ نے ریاستی طاقت کے توسط سے مسلمانوں کو عقائد کے ایک چارٹر پرمتفق کرنے کی کوشش کی ۔پھر متوکل بااللہ کے دورمیں راسخ العقیدگی کی تشریح ریاست کاایجنڈا قرار پائی۔پھر کیا ہوا؟مامون کے عہد میں ہزاروں قیمتی جانیں چلی گئیں مگر مسلمانوں کے انتشارو افتراق کا ازالہ ہو نہ سکا۔ متوکل کے قضیہ کے جلو میں ریاستی اختیارات کے ساتھ ہی ساتھ مذہبی اختیارات کا بھی متوازی نظام قائم ہو گیا۔
کہا جاتا ہے نظام الملک طوسی نے حسن نیت سے ہی شیعی اسلام کے مقابل سنی اسلام کی ترقی و ترویج کے بارے میں سوچا تھا ۔یہی تصور و تخیل انہیں دینی مداراس کے قیام کی جانب لے چلا۔فاطمی خلافت نے جامع ازہر کی طرز پراور عباسی خلافت نے مدرسہ نظامیہ کی طرح پرپھر مدارس کے جال کے جال بچھا ڈالے ۔پھر کیا ہوا؟یہی ناں کہ علم کی شرعی اور غیر شرعی تقسیم عمل میں آتی چلی گئی۔مسلمانوں کی روز روز کی فقہی لڑائیوں او مناظرانہ معرکہ آرائیوں سے تنگ آکرمملوک حکمران کماندار بے برس نے مصرمیں بیک وقت چار مسالک کے الگ الگ قاضی تعینات کر ڈالے۔تاکہ لوگ اپنی پسند کے مسلکی قاضی سے فیصلہ لے سکیں۔پھر ہوا کیا؟آگے چل کر ائمہ اربعہ کا یہی تصور اتنا مستحکم و مضبوط ہوا کہ اسے من جانب اللہ سمجھا جانے لگا۔جنرل ایوب خان سے جنرل مشرف تک سب آمروں نے بزعم خویش صدق دلی سے ہی ملکی مفاد میں اقدامات کئے تھے۔اس کا نتیجہ اور وجہ محتاج بیاں نہیں۔آخری تجزیے میں نیک نیتی سے اٹھائے گئے غلط اقدامات بھی غلط نتائج ہی کی جانب لے جایا کئے۔
مسٹر جسٹس صدیقی صاحب کی ایک دینی جماعت سے وابستگی جو بعضوں کو کھٹکتی اور ناقدوں کوکھولتی ہے،اسے الگ رکھئے۔البتہ عدالتی فیصلہ سنائے جانے کے بعد عوامی ہو جاتا ہے اور اس پر نقدو نظر کا حق تسلیم شدہ ٹھہرا۔انہوں نے شدت جذبات میںیہ ریمارکس دیئے کہ ہم سوشل میڈیا کے بغیر پہلے بھی زندہ تھے ۔جی ہاں زندہ تھے۔اک زمانے میں تو ابن آدم غاروں میں رہتا ،پتھررگڑ کر آگ جلاتا ،ننگ دھڑنگ پھرتا اور کچاگوشت کھاتا تھا۔تاریخ کے پہیے کوآپ کیا اب الٹا گھمانا چاہتے ہیں؟نہیں قاضی صاحب نہیں!وہ زمانے کب کے لد گئے جب چاند پر ایک بڑھیا چرخہ کاتتی تھی۔
کسی قابل احترام جج کا یہ منصب نہیں کہ وہ کسی سماج سدھار کی ذمہ داری اپنے کمزور کندھوں پر اٹھائے یا اس کی سعی بے جا کرے۔ یہ ریاست کے والیوں اور راعیوں کا کام ہے اور انہیں ہی زیبا ٹھہرا۔اس کابنیادی و اساسی فریضہ قانون کے تحت اپنے مقدمات کا فیصلہ کرنا ہے اور بس۔ کراچی کا صحافی جس نے مشرف کی آمریت میں مذہبی وزارت کے چھوٹے وزیر کا مزہ پایا۔۔۔وہ لبرل ،سیکولر افراد کو ملک دشمن اور واجب القتل قرار دینے میں یکتا رہا ہے۔پیمرا ،ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ اس کے پروگرام پر پابندی لگا چکی اور یہ بات ریکارڈ پر ہے۔کس کو خبر کہ وہ کیسے مذکورہ قاضی صاحب کی عدالت میں پہنچا اور اپنا پروگرام بحال کرالیا۔مولوی عبدالعزیز کی حالیہ درخواست ۔۔۔جس پر یہ فیصلہ صادر کیا گیا ،کون جانے انہی کی عدالت میں ان کے روبرو پہنچی تو کیونکر؟کالعدم جماعت الاحرارکی جانب سے فاضل قاضی کے فیصلے کی تحسین بھی بڑی ذو معنی رہی ہے۔گئے وقتوں میں طالبان نے جن دو صحافیوں کو اپنا وکیل یا ترجمان مقرر کیا تھا۔۔۔ان میں سے ایک کا اس فیصلے پر مبارکباد دینا اور دوسرے کا چکری کے چودھری کو تھپکی دینا ۔۔۔اللہ اللہ!کچھ تو ہے جو ان کہی کہانی کہے دیتی ہے۔تسلیم و تائید کہ الزام ودشنام میں لتھڑی ہوئی اور نفرت و عداوت میں گندھی ہوئی جھوٹی اور جعلی تحریریں سوشل میڈیا پر گردش کیا کئے ۔ لیکن یہ کیا کہ ایک طرف تو انتہائی اورآخری اقدام اور دوسری جانب ۔۔۔خاموشی ہے سب کے جواب میں۔ (جاری)