تینتالیسویں قسط۔۔۔ معلومات سفرنامہ
ملائیشیا سے رخصتی
ملائیشیا میں ہم دس دن رہے جن میں سے آخری چار دن لنکاوی میں ایسے گزرے کہ وقت کا پتا ہی نہیں چلا۔ اور آخر کار وہ وقت آیا کہ ہم کولالمپور کے انتہائی جدید اور شاندار ائیرپورٹ پر بیٹھے ہوئے تھے۔ یہ ہر اعتبار سے ایک ترقی یافتہ ملک کا ائیرپورٹ لگ رہا تھا۔ مجھے اس بات کی بہت خوشی تھی کہ ملائیشیا نے ایک مسلم ملک ہوتے ہوئے اتنی ترقی کرلی۔ حالانکہ یہ وہ خطہ ہے جہاں مقامی ملائی نسل کے مسلمانوں کے علاوہ جن کا آبادی میں تناسب 58 فیصد ہے، چینی اور انڈین بھی موجود ہیں جن کا تناسب بالترتیب 24 اور 8 فیصد ہے۔ باقی دس فیصد دیگر لوگ ہیں۔
معلومات سفرنامہ۔۔۔بتالیسویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
چینی نسل کے لوگ زیادہ دولتمند اور خوشحال ہیں اور ان میں اور مقامی مسلمانوں میں کچھ اختلافات بھی ہیں تاہم اس کے باوجود اس ملک نے غیرمعمولی ترقی کی ہے۔ اس کا اندازہ بلند و بالا تعمیرات سے بھی ہوتا ہے اور اس کولا لمپور کی مونو ٹرین میں بیٹھ کر بھی جو بلند ستونوں پر بنے فضائی ٹریک پر جب چلتی ہے تو محسوس ہوتا ہے کہ ہم ہوا میں اڑرہے ہیں۔ ان کی یہ ترقی عالمِ اسلام کے لیے ایک لائقِ تقلید چیز ہے۔ اس لیے کہ ان کی اس ترقی کے باوجود انھوں نے اپنے مذہب، تہذیب اور روایات سے رشتہ نہیں توڑا۔ جن بعض اخلاقی مفاسد کا پیچھے میں نے ذکر کیا ہے، میرا خیال ہے، اس کا ایک سبب یہاں غیر مسلموں اور چینی تہذیب کے لوگوں کا بہت بڑی تعداد میں ہونا ہے۔
میں ائیر پورٹ کے لاؤنج میں بیٹھا یہ سوچ رہا تھا کہ کبھی وہ وقت بھی آئے گا جب ہمارا ملک ترقی کے اس سفر کا آغاز کرسکے گا؟ میرے دل نے جواب دیا وہ وقت ضرور آئے گا۔ لیکن اس سے قبل ہمارے لوگوں کو اپنی قیادت کو بدلنا ہوگا۔ یا کم از کم اسے یہ بتانا ہوگا کہ اب کسی مفاد پرست شخص کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ جذباتی باتیں کرکے لوگوں کو بیوقوف بناسکے۔
عظیم امکان اور ہماری کوتاہی
ہمارے سفر کی اگلی منزل تھائی لینڈ کا شہر بینکاک تھا۔ تھائی لینڈ کا ملک فطری حسن سے مالامال ہے۔ تھائی لینڈ کی آمدنی کا ایک بڑا انحصار سیاحت کے ذریعے کمایا جانے والا پیسہ ہے۔ سیاحت یہاں کتنی زیادہ اہم ہے اس کااندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ تھائی لینڈ کی کل آبادی چھ کروڑ سے کچھ اوپر ہے جبکہ یہاں آنے والے سیاحوں کی تعداد 2007 میں آٹھ کروڑ سے اوپر تھی۔ جبکہ سیاحت کے شعبہ سے ہونے والی آمدنی سولہ ارب ڈالر ہے۔ جو کہ اس کی اہم ترین برآمدات یعنی کمپیوٹر، گارمنٹ وغیرہ کی مجموعی آمدنی سے بھی زیادہ ہے۔
معاملہ صرف تھائی لینڈ کا نہیں بلکہ سنگاپور اور ملائیشیا کا بھی یہی معاملہ ہے۔ سنگاپور کی آبادی 50 لاکھ سے بھی کم ہے، مگر 2007 میں آنے والے سیاحوں کی کل تعداد 97 لاکھ اور اس شعبے سے ہونے والی آمدنی 13.8 بلین ڈالر رہی۔ جبکہ ملائیشیا کی آبادی دو کروڑ چالیس لاکھ ہے اور سن 2007 میں آنے والے سیاحوں کی تعداد دو کروڑ دس لاکھ رہی اور ان سے ہونے والی آمدنی 15 بلین رہی۔
ان اعداد و شمار کو دیکھیے اور پاکستان کی ان خصوصیات کو ذرا ذہن میں رکھیے جن کاتذکرہ میں پیچھے کرچکا ہوں۔ پاکستان بلامبالغہ سالانہ کروڑوں سیاحوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، جس سے اربوں ڈالر کی سالانہ آمدنی ہوسکتی ہے۔ مگر ہم اپنی کوتاہیوں کی وجہ سے اس امکان سے فائدہ نہیں اٹھاپاتے۔
ریڈ لائٹ سٹی
بینکاک ایک کڑور کی آبادی کا شہر ہے۔ یہ سیاحوں کے لیے دنیا کے مقبول ترین شہروں میں سے ایک ہے۔ اس کا ایک سبب تھائی لینڈ کے قدرتی حسن کے علاوہ یہ ہے کہ بینکاک شاپنگ کا ایک بہت بڑا عالمی مرکز ہے۔ یہاں بڑے بڑے اور خوبصورت شاپنگ سینٹرز ہیں جن میں دنیا بھر کی چیزیں کثرت سے ملتی ہیں۔ مگر بدقسمتی سے اس ملک کی اصل وجہ شہرت کچھ اور ہے۔ تھائی لینڈ قحبہ گری کے لیے ایک بدنام ملک ہے اور بہت سے سیاح صرف اسی مقصد کے لیے اس ملک میں آتے ہیں۔
قحبہ گری دنیابھر میں عام ہے۔ عالم اسلام کے ممالک بشمول پاکستان کا بھی اس میں کوئی استثنا نہیں۔ ملائیشیا میں دوکال گرل کے سرِراہ نظر آنے کا قصہ میں پیچھے بیان کرچکا ہوں۔ سنگاپور میں ایک پورا علاقہ ریڈ لائٹ ایریا کے طور پر وقف ہے۔ مگر بدقسمتی سے بینکاک کا پورا شہر ریڈ لائٹ سٹی ہے اور یہ اعزاز دنیا کے کم ہی شہروں کو حاصل ہوگا۔ یہ بات اس پس منظر میں بڑی عجیب لگے گی کہ تھائی لینڈ میں سرکاری طور پر قحبہ گری پر پابندی ہے۔ تاہم عملاً اس پابندی کا کوئی وجود نہیں۔ حکام جان بوجھ کر اس دھندے سے آنکھیں بند کیے رکھتے ہیں۔ غالباً انہیں خود بھی احساس ہے کہ زر مبادلہ کمانے کا یہ سب سے آسان طریقہ ہے۔ اس پیشے کے فروغ کا سبب بھی تھائی لینڈ کی غربت ہے، غریب طبقے کی دیہاتی لڑکیوں کے لیے پیسہ کمانے کا یہ سب سے آسان طریقہ ہے۔
ہوٹل اور مختلف جگہوں پر ملنے والے بروشرز سے اندازہ ہوا کہ انفرادی طور پر اور اداروں کی شکل میں یہ بیماری ہر ممکنہ طریقے سے یہاں پھیلی ہوئی ہے۔ نائٹ کلب، شراب خانے اور خاص کر مساج سینٹر میں دراصل یہی کام ہورہا ہوتا ہے۔ شاید انسانی فطرت میں بدکاری کے خلاف جو ایک فطری رکاوٹ ہے، اسے توڑنے کے لیے یہ ذرائع اختیار کیے گئے ہیں۔ مذہب سدِ ذریعہ کے اصول پر ہر اس چیزسے روکتا ہے جو برائی کے قریب لے جانے کا سبب بنے اور یہاں ہر وہ ممکن ذریعہ اختیار کیا جاتا ہے جس کے ذریعے سے لوگ اس برائی کے قریب آسکیں۔ ملائیشیا کے ذکر میں لکھ چکا ہوں کہ سیاحوں کے پیروں میں پیدل چل کر درد ہوجاتا ہے۔ اس لیے وہاں قدموں کے مساج کرنے والے ہر جگہ نظر آئے۔ لیکن پیروں کا یہ مساج جسم کا مساج کروانے کی خواہش تک پہنچتا ہے اور یہاں سے بدکاری کی منزل فاصلوں کی مسافت پر نہیں بلکہ خواہش کے چند کمزور لمحوں کی مسافت پر رہ جاتی ہے۔ وہ کمزور لمحے جو انسان کو ابدی ذلت اور رسوائی میں مبتلا کرسکتے ہیں۔
مجھے سب سے زیادہ دکھ ان لڑکیوں کو دیکھ کر ہوا جو اپنا گریبان چاک کیے دوسرے کا دامن چاک کرنے کے ارادے سے سرراہ کھڑی ہوئی نظر آئیں۔ میں نے ان کے چہرے کو غور سے دیکھا۔ اس پر کسی خوشی، سکون اور اطمینانیت کا نشان تک نہیں تھا۔ بارہا ایسی لڑکیاں غیرملکی سیاحوں کے ساتھ جاتی ہوئی نظر آئیں اور یہ حسن ظن رکھنے کی کوئی وجہ نہیں کہ وہ ان کی بیویاں تھیں۔ کئی جگہ راستے میں ایجنٹ تصاویر کے البم لیے سیاحوں کو روکتے ہوئے نظر آئے۔ ان ساری چیزوں کی وجہ سے بینکاک میں میرا دل بجھا بجھا سا رہا۔ جوان لڑکیوں کو سربازار یوں بکنے کے لیے کھڑا دیکھ کر مجھ پر تاسف کی غیرمعمولی کیفیت طاری ہوئی۔ مجھے محسوس ہوا کہ میری اولاد کو بازار میں لاکر اس طرح کھڑا کردیا گیا ہے۔ میں سوائے اللہ تعالیٰ سے دعا کے اور کچھ بھی نہیں کرسکا۔
زنا اور ایمان
کہا جاتا ہے کہ زنا اور بدکاری دنیا میں اتنے ہی قدیم ہیں جتنا انسان، مگر دورِ جدید میں بدکاری اور عریانی کا چلن اتنا عام ہوگیا ہے کہ تاریخ میں جس کی مثال نہیں ملتی۔ میرے نزدیک یہ ایمان کی بنیاد پر قائم تہذیب کی شکست کا براہ راست نتیجہ ہے۔ دراصل سیدنا ابرھیم کے زمانے یعنی پچھلے چار ہزار برسوں سے دنیا پر وہ اقدار حکمران تھیں جو اہل کتاب نے قائم کی تھیں۔ ان اقدار میں زنا کو کسی اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا تھا۔ مگر ایمان اور مذہب کے خاتمے کے بعد اب زنا کو بری نظر سے نہیں دیکھا جاتا۔
آج عریانی کو ایک تہذیبی قدر اور زنا کو آزادی کا فطری نتیجہ سمجھا جاتا ہے۔ آزادی کے متوالے انسان سب سے پہلے جنسی آزادی چاہتے ہیں۔ سود پر مبنی جدید معیشت جس میں ہر چیز فروختنی ہے، عورتوں کی سب سے بڑی خریدار ہے۔ دوسری طرف اقدار کی موت کے بعد عورتیں بھی جان چکی ہیں کہ ان کا سب سے بڑا اثاثہ ان کا جسم ہے اور جس کی نقد قیمت جب چاہیں جہاں چاہیں وہ وصول کرسکتی ہیں۔ چناچہ بدکاری کی راہ ہموار ہوجاتی ہے۔ مگر چونکہ یہ فطرت کے قانون کی خلاف ورزی ہے اس لیے انسانیت اس کی سزا کبھی Sexually Transmitted Dieseases اور ایڈز کی شکل میں بھگتتی ہے اور کبھی خاندانی نظام کے ٹوٹنے، ناجائز بچوں اور سنگل پیرنٹ فیملی جیسے مسائل کی شکل میں پاتی ہے۔ رہے تھائی لینڈ جیسے غریب ملک تو اس کنزیومر ایج میں جب خواہش پوری کرنا انسانی زندگی کا سب سے بڑا نصب العین ہے، ان کا مقدر یہی ہے کہ ان کی خواتین سربازار بکیں اور دنیابھر سے گاہک آ آکر ان کی بولی لگائیں۔
میرے نزدیک آج کرنے کا اصل کام لوگوں کو زنا چھوڑنے کی دعوت دینا نہیں، دعوتِ ایمان دینا ہے۔ مجھے بینکاک میں گھومتے ہوئے بدھ مت کے ان ماننے والوں کے درمیان بار بار یہ خیال آیا کہ ان لوگوں نے خدا کو کھونے کے بعد گوتم بدھ اور بکھشوؤں کو اپنا معبود بنالیا۔ مذہب کے نام پر ظاہری دھوم دھڑکے کا سہارا لیا۔ روحانی سکون کے لیے بت پرستی کو اختیار کرلیا۔ مگر ان کے ہر مرض کی اصل دوا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہے۔ حضور کو دوبارہ آنا نہیں ہے۔ کام تو سارا امتیوں کو کرنا ہے۔ مگر امتی کیا کرہے ہیں وہ سب جانتے ہیں۔ یہی کچھ یہودیوں نے کیااور اپنی ذمہ داریاں پوری نہ کیں تو اس کی سزا رومی حکومت کے ہاتھوں بھگت لی۔ یہی کچھ مسلمان سوچ رہے ہیں اور اپنے حصے کی سزا بھگت رہے ہیں اور اندیشہ یہ ہے کہ آئندہ آنے والے دنوں میں زیادہ بھگتیں گے۔