جہالت اور جنونیت کا اصل ذمہ دار کون؟
پچھلے دنوں افغانستان سے ایک آرکیٹکٹ دوست نے ایک مختصر البم بھیجی جس میں چند ایک یادگار تصاویر تھیں، جن میں کابل یونیورسٹی کا وہ شاندار دور تھا جب مرد اور عورت ایک ہی بینچ پر بیٹھ کر تحصیلِ علم میں منہمک تھے۔ کابل کے شاندار ایئر پورٹ پر نیلے اور سفید رنگ کے طیارے، جن کے ساتھ تازہ دم ایئر ہوسٹس اپنے چمکیلے روایتی لباس کے ساتھ کھڑی دکھائی دے رہی تھیں۔ شدید حیرت ہوئی کہ یہ واقعی افغانستان ہے یا کسی یورپی ملک کا ایئرپورٹ۔۔۔ خیر وہ دور تو چلا گیا، ہمیں اب اسی دور کا ذکر کرنا ہے جس میں ہم رہ رہے ہیں۔
وقت اپنی چال اور ڈھال کبھی نہیں بدلتا، انسان ہی اپنے اطوار اور اقدار بدل لیتا ہے۔ یو ایس ایس آر کو لادینیت مار گئی اور امریکہ جان چکا تھا کہ رشین سوشل سسٹم کو توڑنا بہت آسان ہے، اگر وہ پاکستان اور افغانستان کے حاملین کی ذہنیت کو مذہبی اشتعال میں مبتلا کر دے تو گویا ایسے میں ہم یو ایس ایس آر کو ناکوں چنے چبوا سکتے ہیں، پس وہی ہوا جو امریکہ نے سوچا ،یعنی خود کو اہلِ کتاب کے روپ میں پیش کرکے اہلِ اسلام کو اپنا معاون بنا لیا اور پاکستان و افغانستان کے جذباتی مسلمانوں کو ملحدینِ رشیا کے خلاف برسرِ پیکار کر دیا۔نتیجے میں یو ایس ایس آر ٹوٹ گیا۔ امریکہ کے لئے سپر پاور بننے کی راہ ہموار ہو گئی۔ مجاہدین کو بدلے میں افغانستان کا اقتدار مل گیا اور پاکستان کو امریکہ کی سیاسی اور اقتصادی ہمدردی، لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ معاملہ یہاں پر ختم نہیں ہوا، شیخ اسامہ جو یو ایس ایس آر کے خلاف امریکہ کا ہمنوا جنگجو تھا، مبینہ طور پر امریکہ کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر طیارے ٹکرا کر حملہ کرواتا ہے ،جس کے نتیجے میں امریکہ اسامہ کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے افغانستان جا پہنچتا ہے۔ امریکہ افغانستان کے مقتدر طبقے، یعنی طالبان سے کہتا ہے کہ مجھے اسامہ زندہ سلامت چاہئے، جواب میں جب طالبان کا امیر امریکہ کو انکار کرتا ہے تو امریکہ اپنے سابقہ حامی مجاہدین کو دہشت گرد قرار دے کر افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دیتا ہے۔
اب امریکہ وہی صورت اختیار کر لیتا ہے جو صورت اس سے پہلے یو ایس ایس آر اختیار کر چکا تھا۔اب پاکستان کو غدار اور دغا باز قرار دے کر اس کے خلاف افغانستان کی خفیہ مدد کرتی ہے، مگر اس خفیہ مدد کے باوجود بھی امریکہ افغانستان سے جانے کا نام نہیں لیتا، حتیٰ کہ وہ اپنے مقاصد کی تکمیل کے بعد افغانستان سے خاموشی سے کھسک جاتا ہے۔ مذکورہ بالا نقصان بھی کسی حد تک قابلِ برداشت ہے، مگر سب سے زیادہ نقصان افغانستان، بالخصوص پاکستان کو ہوا، وہ یہ کہ یہاں کی ثقافت اور آزاد روایت عسکریت پسندی کے سامنے دم توڑ گئی۔ امریکہ اچھی طرح جانتا تھا کہ وہ افغانستان کے طالبان کو استعمال کر کے انہیں کچھ عرصے کے لئے افغانستان کا اقتدار سونپ کر خود کو مستقل بنیاد پر سپر پاور بنا لے گا، اس لئے امریکہ کے نزدیک یہ گھاٹے کا سودا نہیں تھا، مگر سب سے زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ امریکہ نے پاکستان اور افغانستان کی ثقافت میں عسکریت اور جنونیت کی جس تباہ کن روش کو پروان چڑھایا، اس کے منفی اثرات سے یہ خود بھی نہ بچ سکا۔ بہرکیف امریکہ پھر بھی سپر پاور ہونے کی حیثیت سے مسائل پر قابو پا چکا ہے، مگر ہم ترقی پذیر ممالک عسکری روش اور مذہبی جنونیت کی بھینٹ چڑھ گئے۔ ہمارے وہ قبائلی جو کسی وقت انتہائی پرامن اور محبت بانٹنے والے لوگ تھے، اسلحہ بردار بن کر پاکستان اور افغانستان کی جمہوری حکومتوں کے خلاف خروج کرنے لگے ۔اس میں قطعاً کوئی شبہ نہیں کہ ہمارے بچوں کے ہاتھوں میں امریکہ ہی نے کلاشنکوف تھمائی۔ ہمیں جاہل اور خونخوار بھیڑیا بنانے والا صرف امریکہ ہے۔ہم پرامن اور اُخوت پرستی کے خوگر تھے، ہمیں امریکہ نے اپنے مفادات کے لئے یو ایس ایس آر جیسے غریب پرور اور مزدور کے حقوق کے تحفظ پر مبنی سوشل سسٹم کے خلاف استعمال کیا۔
ہمارے اندر غیر ضروری مذہبی جنونیت امریکہ ہی نے انجیکٹ کی۔ ہمیں اسلحہ سے روشناس کرانے والا صرف امریکہ ہے۔ ہم جاہل اور جذباتی تھے، ہمارے عقائد اور ہمارے جذبات کا بدترین استحصال کیا گیا۔ اس میں ہمارے مولوی اور سابق ملٹری سربراہ بھی برابر کے شریک ہیں، جنہوں نے امریکہ کے ایما پر اپنے بچوں کو علم اور تعلیم کی بجائے اسلحہ اور بارود سے روشناس کرایا۔ ہمیں پانچ سو سال پیچھے دھکیلنے والا صرف امریکہ ہے۔ ہمارا مقتدر طبقہ اور جہادی مْلّا خود امریکہ کی گود میں جا بیٹھے۔ مولوی اپنے بچوں کو جہاد کی عملی تربیت سے دور رکھتے، جبکہ دوسروں کے بچوں کی باقاعدہ محاذ پر تشکیل کرتے۔ ہم نے اپنے ملک کو خود اپنے ہی ہاتھوں سے جہالت اور جنونیت کی طرف دھکیلا۔ہم آج انہیں اپنا دوست سمجھتے ہیں، جنہوں نے ہمارا گھر اجاڑا۔ ہماری ملٹری سروسز نے پینتیس سال پہلے قبائلیوں کی عسکری تربیت کرکے انہیں یو ایس ایس آر کے خلاف استعمال کیا، آج وہی پاکستانی فورسز اور عوام کے دشمن بن چکے ہیں۔ انہیں اپنے سوا زمین پر کوئی بھی مسلمان نظر نہیں آتا، اسلحہ اور بارود کے رسیا ہمارے بغل بچے آج ہمیں ہی ناکوں چنے چبوا رہے ہیں۔ ان پینتیس سالوں میں ہم نے جس عسکری روش کو پروان چڑھایا، اسی کا پھل آج ہم کھا رہے ہیں۔ یہ جہالت اور جنونیت کا دور نہ معلوم کتنی دور جائے گا، مگر اس کے حقیقی ذمہ دار امریکہ کو ہم اور ہماری آنے والی نسلیں کبھی معاف نہیں کریں گی۔ ہمارا گھر اجاڑنے والا ہمارے بچوں کو عسکریت پسند بنانے والا، امریکہ آج اپنے مقاصد میں کامیاب ضرور ہو چکا ہے؟ مگر ایک دن اسے اپنے تباہ کن انجام سے دوچار ہونا پڑے گا،بلکہ ان تمام لوگوں کو بدترین انجام سے دوچار ہونا پڑے گا، جنہوں نے ان مکروہ عزائم میں امریکہ کا ساتھ دیا ۔