دنیا میں تہلکہ مچانے والا مقبول ترین ناول، قسط نمبر 32
میں نے دل میں سوچا کہ ایک ایک کرکے خدا کے ایسے ہی دیگر صالح بندے آئیں گے جنھیں دنیا میں لوگ ایسے ناموں اور صفات سے پکارتے تھے جو صرف خدا کو زیب دیتی ہیں، مگر آج ان میں سے ہر شخص انکار کردے گا کہ ہم نے لوگوں سے اس نوعیت کی کوئی بات کہی تھی۔ ہر ایک کا حال یہ ہوگا کہ مسیح کی طرح کسی میں بھی خدا کے سامنے کھڑے ہونے کی طاقت نہیں ہوگی۔ کاش ان کے نام پر دھوکہ کھانے والے لوگ خدا کی یہ عظمت پہلے ہی دریافت کرلیتے۔ کاش لوگ انسانوں کو خد اکے مقابلے میں نہ لے کر آتے۔ اس دوران میں حضرت عیسیٰ پر سے خشیت الٰہی کا غلبہ کچھ کم ہوا تو وہ کرسی سے کھڑے ہوئے اور عرض کرنے لگے:
دنیا میں تہلکہ مچانے والا مقبول ترین ناول، قسط نمبر 31 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
’’آقا تو پاک ہے! میرے لیے کیسے روا تھا کہ میں وہ بات کہوں جس کا مجھے کوئی حق نہیں۔ اگر میں نے یہ بات کہی ہوتی تو تو اسے جانتا ہوتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے تو ان سے وہی بات کہی جس کا تو نے مجھے حکم دیا کہ اللہ کی بندگی کرو جو میرا بھی رب ہے اور تمھارا رب بھی۔ اور میں ان پر گواہ رہا جب تک ان میں موجود رہا۔ پھر جب تو نے مجھے اٹھالیا تو تو ہی ان پر نگران رہا۔ اور تو ہر چیز پر گواہ ہے۔ اگر تو ان کو سزا دے تو یہ تیرے بندے ہیں اور اگر تو انہیں بخش دے تو تو غالب اور حکمت والا ہے۔‘‘
یہ سن کر اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
’’آج صرف سچائی اپنے اختیار کرنے والے سچے لوگوں کو فائدہ دے سکے گی۔‘‘
پھر حضرت عیسیٰ کو رخصت کردیا گیا اور فرشتوں کو حکم ہوا:
’’عیسیٰ کی امت میں سے جس کسی کا علم اور عمل عیسیٰ کے پیغام کے مطابق ہے، اسے ہمارے حضور پیش کیا جائے۔‘‘
۔۔۔
حضرت عیسیٰ کی گواہی کا منظر دیکھنے کے بعد ہم دونوں نے حوض کی طرف بڑھنا شروع کردیا۔ میں نے راستے میں صالح سے پوچھا:
’’حضرت عیسیٰ نے جو سفارشی کلمات کہے تھے یعنی اگر تو انہیں بخش دے تو تو غالب اور حکمت والا ہے، کیا ان الفاظ کا کوئی اثر نہیں ہوا؟‘‘
’’تم نے جواب میں اللہ تعالیٰ کی بات نہیں سنی تھی کہ آج سچوں کو ان کی سچائی ہی نفع پہنچائے گی۔‘‘
’’ہاں سنی، مگر اس سے تو بظاہر یہ لگتا ہے کہ ان کی سفارش قبول نہیں ہوئی۔‘‘
’’نہیں ایسا نہیں ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنا قانون واضح کردیا ہے۔ قانون یہ ہے کہ پیغمبر کی لائی ہوئی تعلیم کو سچ تسلیم کرنا اور اپنے عمل سے اس کی تصدیق کرنا کامیابی اور نجات کی بنیادی شرط ہے۔ اللہ تعالیٰ کی بات کا مطلب یہ تھا کہ جس کسی نے یہ بنیادی شرط پوری کردی، اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ اب درگزر کا معاملہ کریں گے۔ یعنی جو غلطیاں ایسے لوگوں سے ہوتی رہیں اور انھوں نے ان پر توبہ اور اصلاح نہیں کی، ان پر اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے گرفت نہیں کررہے۔
ہر نبی اپنی امت کی اسی طرح دبے لفظوں میں سفارش کررہا ہے اور کرے گا۔ مگر اس کے نتیجے میں سردست صرف اتنی ہی رعایت مل رہی ہے۔ اس وقت کوتاہیاں معاف ہورہی ہیں، جرائم نہیں۔ اور یہ کوتاہیاں جنھیں معمولی سمجھ کر توبہ نہیں کی گئی تھی بہرحال اسی طرح کی خواری کا سبب بنی ہیں جو تمھاری بیٹی لیلیٰ کو اٹھانی پڑی تھی۔ باقی جن لوگوں نے ہمہ وقت ایمان و عمل صالح اور توبہ اور اصلاح کا مستقل رویہ اختیار کیے رکھا وہ تو اول وقت ہی سے عافیت میں ہیں اور جن لوگوں نے مستقل نافرمانی اور بڑے گناہوں کی راہ اختیار کی وہ اس وقت بدترین سختی کا شکار ہیں۔‘‘
یہ گفتگو کرتے ہوئے ہم ایک ایسی جگہ آگئے جہاں فرشتے لوگوں کو آگے بڑھنے سے روک رہے تھے۔ صالح میرا ہاتھ تھامے ان کے قریب چلا گیا۔ اسے دیکھتے ہی فرشتوں نے راستہ چھوڑدیا۔ ہم ذرا دور چلے تو ایک جھیل سی نظر آنے لگی۔ اسے دیکھتے ہی صالح بولا:
’’یہی حوض کوثر ہے۔‘‘
میں نے کہا:
’’مگر یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو نہیں۔‘‘
’’وہ آگے کی طرف ہیں۔ ہم دوسری سمت سے داخل ہوئے ہیں۔ میں تمھیں اس کا تفصیلی مشاہدہ کرانا چاہ رہا تھا اسی لیے یہاں سے لایا ہوں۔‘‘
صالح کی بات پر میں نے غور کیا تو معلوم ہوا کہ یہ عام معنوں میں کوئی حوض نہیں ہے۔ میں نے قدرے تعجب کے ساتھ صالح سے کہا:
’’یار یہ تو جھیل بلکہ شاید سمندر جتنا بڑا ہے جس کا دوسرا کنارہ مجھے نظر ہی نہیں آتا۔‘‘
’’ہاں یہ ایسا ہی ہے۔ تم دیکھ نہیں رہے کتنے سارے لوگ اس کے کنارے کھڑے پانی پی رہے ہیں۔ اگر کوئی چھوٹا موٹا حوض ہو تو فوراً ہی خالی ہوجائے گا۔‘‘
اس نے ٹھیک کہا تھا۔ یہاں ہر جگہ بہت سارے لوگ موجود تھے۔(جاری ہے)
دنیا میں تہلکہ مچانے والا مقبول ترین ناول، قسط نمبر 33 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
(ابویحییٰ کی تصنیف ’’جب زندگی شروع ہوگی‘‘ دور جدید میں اردو زبان کی سب زیادہ پڑھی جانے والی کتاب بن چکی ہے۔ کئی ملکی اور غیر ملکی زبانوں میں اس کتاب کے تراجم ہوچکے ہیں۔ابو یحییٰ نے علوم اسلامیہ اور کمپیوٹر سائنس میں فرسٹ کلاس فرسٹ پوزیشن کے ساتھ آنرز اور ماسٹرز کی ڈگریاں حاصل کی ہیں جبکہ ان کا ایم فل سوشل سائنسز میں ہے۔ ابویحییٰ نے درجن سے اوپر مختصر تصانیف اور اصلاحی کتابچے بھی لکھے اور سفر نامے بھی جو اپنی افادیت کے باعث مقبولیت حاصل کرچکے ہیں ۔ پچھلے پندرہ برسوں سے وہ قرآن مجید پر ایک تحقیقی کام کررہے ہیں جس کا مقصد قرآن مجید کے آفاقی پیغام، استدلال، مطالبات کو منظم و مرتب انداز میں پیش کرنا ہے۔ ان سے براہ راست رابطے کے لیے ان کے ای میل abuyahya267@gmail.com پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔