حضرت خواجہ شاہ محمد سلیمان تونسویؒ المعروف پیر پٹھان

حضرت خواجہ شاہ محمد سلیمان تونسویؒ المعروف پیر پٹھان
حضرت خواجہ شاہ محمد سلیمان تونسویؒ المعروف پیر پٹھان

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

غوثِ زماں حضرت خواجہ شاہ محمد سلیمان تونسوی المعروف پیر پٹھان آف تونسہ شریف مادر زاد ولی تھے۔ آپؒ نے لاکھوں لوگوں کو مشرف بہ اِسلام کیا اور اُن کے دلوں کو ایمان کے ’’نور‘‘ سے منور فرمایا ۔خواجہ شاہ سلیمان تونسویؒ اپنی ذات میں ایک ادارہ کی سی حیثیت رکھتے تھے آپؒ نے اُس دور میں تونسہ شریف میں دارالعلوم کی بنیاد رکھی ،جب مسلمانانِ برصغیر کی تعلیمی،مُعاشی،معاشرتی اور اخلاقی حالت ناگفتہ بہ تھی ۔بالخصوص تعلیمی میدان میں تو مسلمان،یہاں بسنے والی دوسری قوموں سے کوسوں دور تھے ، اس دارالعلوم میں تمام روحانی علوم کیساتھ علوم قدیم و جدید کا بھی اہتمام کیا گیاتھا ،پچاس کے قریب اساتذہ و علمائے کرام قرآن وحدیث اور شریعت وطریقت کا درس دینے مصروف رہتے ،ہزاروں کی تعداد میں تشنگانِ علم و سلوک یہاں آکر علم کی روشنی سے اپنے قلب واذہان کو منور کرتے اور توحید ورسالت کے نور سے سینوں کوسیراب کرتے ،خواجہ شاہ سلیمان تونسویؒ کی حیاتِ پاک کا ایک ایک ورق تعلیم و عمل اور جہدِ مسلسل اور عشقِ رسول ؐ سے عبارت ہے۔
آپؒ کی شخصیت کے بارے میں سر سید احمد خاں لکھتے ہیں کہ ’’آپؒ روحانی اور تعلیمی میدان غیرمعمولی شہرت کے حامل تھے کیوں کہ آپؒ صحیح معنوں میں دینِ متین کی خدمت فرمارہے تھے۔سر زمینِ تونسہ شریف پر ہی آپ ؒ نے دارالعلوم کے اساتذہ کرام ،طلباء اور عوام الناس کی صحت کے پیش نظر ایک ہسپتال کی بھی بنیاد رکھی اور دار العلوم اور ہسپتال کی تمام تر ذمہ داریوں کو اپنی پوری حیاتِ مبارکہ میں بطریقِ احسن نبھایا ۔‘‘ ایک مرتبہ سر سید احمد خاں ،شاہ اسماعیل کی وساطت سے تونسہ شریف خواجہ شاہ سلیمان ؒ تونسوی کے درِ دولت پر حاضر ہوئے اور جہاد بالسیف اور مسلمانوں کی عسکری اور تنظیمی بنیادوں پر اصلاح کی خاطر خواجہ شاہ سلیمان ؒ سے مدد کی درخواست کی ، تو آپ ؒ اُنہیں ہدایت اور نصیحت فرمائی کہ بے شک جہاد کرنا مسلمانوں پر فرض ہے مگر مسلمانوں کے اصل مرض کا پہلے علاج بے حد ضروری ہے مسلمانوں کو قرآن و حدیث اور دوسرے علوم کی تعلیم سے آراستہ ہونا چاہیے ،اتباعِ رسولؐ اور احیاء دین کا جذبہ بیدار ہونا چاہیے،مزید فرمایا کہ امتِ مسلمہ کو اتفاق و اتحاد کی جتنی ضرورت اس وقت ہے وہ شاید اس سے پہلے نہ تھی کیونکہ اس وقت امت کا شیرازہ بکھر رہا ہے اور انتشار بڑھتا چلا جارہا ہے،میں آپ کے لئے دعا گو ہوں اور ہر ممکن مدد کے لئے تیار ہوں مگر مجھے نظر آرہا ہے کہ یہ وقت جہاد کے لئے موزوں نہیں ،اتفاق و اتحاد اور اتباعِ سنت ؐ پر عمل کیا جانا میرے نزدیک ابھی زیادہ ضروری ہے ،یہ فرمانے کے بعد آپؒ اُٹھ کھڑے ہوگئے اور فرمایا کہ’’ یہ بوڑھا اس جہاد کے لئے حاضرہے۔‘‘
آپؒ لوگوں سے فرمایا کرتے تھے کہ مسلمانوں نے احسن اعمال ،حقوق العباد اور سنتِ رسولؐ کو چھوڑ دیا ہے۔اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ان پر کافروں کو مسلط کردیا ہے ۔ آپؒ نے اپنی تمام ترسعی جمیلہ کامرکزومحور ،درستی اعمال ،اصلاح احوال اور اتباع رسول ؐقراردیا،آپؒ فرماتے ہیں کہ جب حکومت و سلطنت چھین لی جاتی ہے تو قوموں کے اخلاق وعادات اور سیرت و کردار کے بگاڑکا آغازہوجاتاہے اورذہنی وفکری انتشار،جسمانی انتشار سے زیادہ مہلک ہوتا ہے۔
ربِ قدوس نے خواجہ شاہ سلیمان ؒ کواِس قدر وسیع ظرف عطا فرمایا تھا کہ معرفت کے دریاکے دریا نوش فرمالیے،مگر اِسرارمیں سے ذرہ بھر بھی فاش نہ کیا۔چونسٹھ برس سجادہء مشیخت پر جلوہ فرما رہے اور خلقِ خدا کو ارشادات فرماتے رہے مگر کبھی بھی اپنی زبان مبارک سے نہ فرمایا کہ مجھے یہ مقام حاصل ہوا ،یامجھ پر یہ تجلیات وارد ہوئی ہیں،کبھی اپنی کرامت کا اظہار نہ فرمایا ،اگر کبھی بے اختیار کوئی بات ظاہر ہوگئی ،تو افسوس فرمایا کہ مجھ سے یہ کام کیوں ہوا ،جب بھی کبھی اپنی کرامت ظاہر کی تو کسی دوسرے ہی کے نام سے ظاہر کی ۔چنانچہ اگر کبھی مخلوقِ خدا بارش کیلئے عرض کرتی تو ،مُلّامحمد عمر کی طرف اشارہ کرکے فرماتے کہ یہ’’مینہ برساؤ‘‘جب کہے گا تب بارش ہوگی ۔آپؒ ہمیشہ اپنے احوال چھپاتے اور فرماتے کہ ہم تو مُلّا ہیں ہم کیاجانتے ہیں۔آپؒ اکثر یہ بھی فرماتے تھے کہ ’’استقامت ۔۔۔کرامت سے بہتر ہے۔‘‘آپؒ کو ہمیشہ اپنی حیاتِ مبارکہ میں سب سے بڑا خیال اِس امر کا تھا کہ آپؒ کاقدم کبھی شریعتِ محمدیؐ سے ہٹنے نہ پائے ،ذکر،فکر،سفر،خضر،صحت ،علالت،ہر حال میں اَحکامِ شریعت کی پابندی آپؒ کا نصب العین تھی آپؒ فرماتے تھے کہ ’’ہمارا اصلی کام نبیؐ کی پیروی ہے اگر ایک شخص ہوا میں اُڑتا ہوا نیچے اتر آئے ،لیکن اُس کا کوئی فعل جادہء شریعت سے باہر ہو تو وہ گوز خرہے جس پر کچھ اعتبار نہیں۔‘‘حالتِ سلوک میں جب آپؒ پر وجد طاری ہوا،کئی گھنٹے بے خود پڑے رہے ،لوگوں کو آپؒ کی موت کا یقین ہوگیا،ایسے وقت میں جب ہوش آیا تو فرمایا کہ’’میری کوئی نماز تو قضا نہیں ہوئی ،میرے جسم کا کوئی حصہ ننگا تو نہیں ہوا۔‘‘
ایک جوگی نے آپؒ کی خدمت میں آکر پوچھا کہ فقراء اور شریعت میں کس کا رتبہ بڑا ہے ،فرمایا’’شریعت کا‘‘تم نے نہیں سُنا کہ اہلِ شریعت نے فقر کو سُولی پر لٹکایا،مگر کسی فقیر سے یہ نہ ہو سکا کہ عالم کو سُولی پر چڑھاتا۔‘‘
آپؒ کے تقسیمِ اوقات پر اگر نظر دوڑائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ کس خوبی سے ،عبادات ومعاملات ،اوردرس وتدریس کو الگ الگ وقت دیا گیا،مداومت اور اِستقامت کا یہ حال کہ آپؒ نے۸۴ برس کی طویل عمر پائی،لیکن اس میں ایک دن بھی فرق نہ آنے پایا،یہاں تک کہ آخری رات بھی فرائض و نوافل ادا کر کے اپنے رفیقِ اعلیٰ سے ملے۔۔۔آپؒ کے اِس عملی نمونہ کے اثرات یہ تھے کہ آپؒ کی خدمتِ اقدس میں رہنے والے تمام کے تمام یارانِ طریقت ،اتباعِ سنت اور شریعتِ رسول عربیؐ کے عملی رنگ میں رنگے ہوئے تھے اور سبھی کے قلب و اذہان عشقِ مصطفٰے ؐسے منور تھے۔
پاکستان میں بابا فریدالدین گنجِ شکرؒ اور قبلہء عالم خواجہ نور محمد مہارویؒ کے بعد خواجہ شاہ سلیمان تونسویؒ ہی کی ذاتِ گرامی ہے کہ جس کی نظرِ عنایت سے سلسلہ چشتیہ،نظامیہ کو بے حد فروغ ملا۔آپؒ کے آستانہء عالیہ سے فیض پانے والے حضرت خواجہ شمس الدین سیالویؒ ،خواجہ قمرالدین سیالویؒ ،سیال شریف۔۔۔سید پیر مہرعلی شاہؒ ،گولڑہ شریف۔۔۔پیر کرم شاہ الازہرؒ ی،بھیرہ شریف۔۔۔سید اسماعیل شاہؒ ،کرمانوالے ۔۔۔ابو مختارحضرت خواجہ صوفی جمال الدین چشتی تونسوی مغل پٹھانؒ ،(خانقاہ دارالجمال)دیپال پور۔۔۔خواجہ محمد اکبرؒ ،بصیر پور۔۔۔جلال پور شریف۔۔۔کوٹ مٹھن شریف۔۔۔گڑھی اختیارخان شریف۔۔۔میرا شریف۔۔۔حضرت خواجہ جان محمد کریمی تونسوی،انتالی شریف۔۔۔اورخواجہ حسن نظامیؒ کی خانقاہوں سے آج بھی روحانیت کے چشمے پھوٹ رہے ہیں۔اس وقت آپؒ کی مسندِ سجادگی پر حضرت خواجہ عطاء اللہ خاں تونسوی سابق وفاقی وزیر برائے مذہبی امور جلوہ افروز ہیں جبکہ دوسری گدی پرحضرت خواجہ نصرالمحمود نظامی تونسوی جلوہ گر ہیں ۔ آپؒ کا سالانہ عرسِ مقدس 5-6-7صفر کو انتہائی عقیدت و احترام اور شایانِ شان طریقے سے منایا جاتا ہے،جس میں نہ صرف پاکستان ،بلکہ افغانستان،ہندوستان اور ایران سے زائرین جوق در جوق حاضری دینے کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔

نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں،ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

بلاگ -