میرے ذہن میں 3 اہرام چپکے ہوئے تھے، دیو قامت عمارتوں کو اندر جا کر دیکھا تو بے نام سا خوف ذہن میں آیا، ایک لمحے کیلیے کانپ سا گیا

 میرے ذہن میں 3 اہرام چپکے ہوئے تھے، دیو قامت عمارتوں کو اندر جا کر دیکھا تو ...
 میرے ذہن میں 3 اہرام چپکے ہوئے تھے، دیو قامت عمارتوں کو اندر جا کر دیکھا تو بے نام سا خوف ذہن میں آیا، ایک لمحے کیلیے کانپ سا گیا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:  محمد سعید جاوید
قسط:4
اسی طرح اہرام مصر کا تذکرہ بھی ایک تواتر سے ہوتا رہتا تھا اور ان کے ساتھ بیٹھے ہوئے ایک انسان نما شیر ابوالہول کا بھی۔ اس لئے میں جب تک مصر نہیں گیا میرے ذہن میں یہی 3 اہرام چپکے ہوئے تھے۔ یہ اتنے بڑے اور بلند تھے کہ ذہن ان کے پیچھے چھپے ہوئے اسرار و رموز کو تلاش ہی نہ کر پایا تھا۔ یہ بات بھی سمجھ میں نہیں آتی تھی کہ آخر جگہ جگہ اتنے دیوقامت اور بلند پتھروں کے ڈھیر لگا کر وہ فرعون آخر کیا ثابت کرنا چاہتے تھے۔
کتابوں اور تصویروں میں تو ان کو دیکھ کر چپ چاپ آگے بڑھ جاتے تھے اور کوئی تاثر قائم نہیں ہوتا تھا۔ مگر جب ان دیو قامت اور نہ سمجھ آنے والی عمارتوں کو قریب سے اور پھر اندر جا کر دیکھا تو بے نام سا خوف ذہن میں ضرور آیا تھا، اور میں ایک لمحے کے لئے کانپ سا گیا۔ اور پھر نہ چاہتے ہوئے بھی مجھے ان کی عظمتوں کا قائل ہونا ہی پڑا۔
اسی طرح دور جدیدکے مصر کے بارے میں بھی میرا علم بہت ہی محدود اور سطحی سا تھا۔ جغرافیہ میں میَں بچپن سے ہی بڑا کمزور واقع ہوا تھا اور اسکول میں اس کی کلاس کے دوران میرا اچھا خاصہ وقت بنچ پر کھڑے ہو کر ہی گزرتا تھا۔ میں انتہائی ایمانداری اور شرمندگی سے اس بات کا اعتراف کرتا ہوں کہ میں جوانی ڈھلنے سے تھوڑا پہلے تک مصر کو ایشیا یا یورپ کا ہی کوئی ملک سمجھتا رہا۔ یہ تو اللہ بھلا کرے نیشنل جیوگرافک والوں کا جنہوں نے انکشاف کیا کہ حضور آپ کن چکروں میں ہیں۔مصریوں کی صاف ستھری رنگت اور خوبصورت سیاہ آنکھوں پر مت جانا۔ یہ تو افریقہ کا ایک بہت بڑا، اہم اور اسلامی ملک ہے۔اور کوئی ضروری نہیں کہ افریقہ میں رہنے والا ہر انسان سیاہ رنگت ہی لئے ہوئے ہو۔ 
پھر جب نہر سوئز پر قبضہ کرنے اور بعدازاں چھڑوانے کی کارروائی ہوئی تو ان محدود سی جنگوں نے مصر کے بارے میں رہے سہے شکوک و شبہات بھی دور کر دیئے۔ تب یہ احساس ہوا کہ فرعون تو کب کے مر کھپ گئے، ان کے بعد آنے والے بھی رخصت ہوئے۔ یہ تو اب ایک اچھا بھلا اسلامی ملک ہے جس کی سیاسی اور عسکری قوت کو تمام مسلمان اور خصوصاً عرب ممالک بڑی عزت اور تکریم سے دیکھتے ہیں۔ 
پھر جب میں نے بہتر روزگار کی خاطر بے وطنی قبول کی اور اگلے کئی برسوں تک اپنا ٹھکانہ سعودی عرب کے ایک بڑے ہسپتال کو بنایا تو وہاں اسی مقصد کے لئے آئے ہوئے مصری بھی بڑی تعداد میں موجود تھے۔ ان سے ملاقاتیں ہوئیں، قربتیں بڑھیں اور خیالات و معلومات کا تبادلہ ہوا تو وہ ایک دم سے اپنے اپنے سے لگنے لگے۔ ویسے بھی وہ ہمارے ہم مذہب تو تھے ہی، ہمارے دکھ درد بھی سانجھے تھے۔
 ان دنوں دونوں ہی ملک آمرانہ نظام حکومت میں جکڑے ہوئے تھے۔ ایک طرف مصر میں حسنی مبار ک کو جمال ناصرکا تخلیق کیا ہواآمرانہ نظام،انوار السادات سے ہوتا ہوا ورثے میں ملا تھا تو دوسری طرف پاکستان میں ضیاء الحق جمہوری قوتوں کی بساط لپیٹ کر تخت پر براجمان تھے۔ سو، وہی بے روزگاری، وہی غربت، وہی ذلتیں اور دورِ مجبوری اُدھر بھی تھا اور ادھر بھی۔ (جاری ہے) 
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -