جنات کے چنگل میں پھنسے خاندان کی کہانی۔ ۔ ۔ قسط نمبر63
یہ آواز کیا تھی سیسہ تھا پگلا ہوا۔
’’بہت نراش دکھائی دے رہا ہے ۔۔۔بالک!‘‘
میں اس بری طرح اچھلاجیسے کسی بچھو نے ڈنک ماردیا ہو۔ ساتھ ہی کمرے میں مدہم روشنی پھیل گئی جسکا مخرج حسب معمول نظر نہ آرہا تھا۔ تیزی سے اٹھ کر بیٹھنے سے میرے زخموں سے ٹیسیں نکلنے لگیں۔ بے اختیار میرے منہ سے چیخ نکل گئی جسے میں نے بمشکل ہونٹوں میں دبایا۔
کالی داس مجھ سے کچھ فاصلے پر دیوار سے ٹیک لگائے بڑے اطمینان سے بیٹھاتھا۔ اس وقت اس کے نحیف جسم پرایک دھوتی تھی۔ جب وہ لوگوں کو لے کرمیرے بیڈ روم میں آیاتھا تو اس نے مقامی لوگوں کی طرح دھوتی کرتہ پہن رکھا تھا۔ لمبے سفیدبال اس کی پشت پر پھیلے ہوئے تھے۔ ایسا حلیہ ہمارے ہاں اکثر درویش قسم کے لوگ اپناتے ہیں لیکن وہ اس کا بہرروپ تھا۔ وہ توشیطان صفت آدمی تھا بلکہ اسے آدمی کہنا آدمیت کی توہین تھی۔
’’اور تم کیا ہو۔۔۔؟‘‘ ضمیر کی ملامت سے میرا سرجھک گیا۔
جنات کے چنگل میں پھنسے خاندان کی کہانی۔ ۔ ۔ قسط نمبر62 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
’’ابھی تیری پریمیکا آکر تجھے اس کشٹ سے بچاکرلے جائے گی‘‘ اسنے میرا مضحکہ اڑایا۔
میری رگوں میں خون کی بجائے لاوا دوڑنے لگا۔ زخمی جسم لے کر میں تیزی سے کھڑا ہوگیا۔ چاہتا تھا زمین کو اس کے گندے وجودسے پاک کر دوں۔ وہ بڑے اطمینان سے مجھے اپنی طرف بڑھتے دیکھتا رہا آج اس نے میرے جسم کو بے حس و حرکت نہ کیا تھا۔ میں تیزی سے اس پر جھپٹا۔ قریب تھا کہ اس بوڑھے ڈھانچے کا گلا دبا دیتا، کسی نے مجھے اٹھا کر زمین پر پٹخ دیا۔ زخموں سے چور جسم جیسے ہزاروں ٹکڑوں میں بٹ گیا۔ منہ سے بے ساختہ چیخ نکل گئی۔
’’ہا۔۔۔ہا۔۔۔ہا۔۔۔‘‘ کمرہ سادھو کے خوفناک قہقہے سے گونج اٹھا۔ میں چاروں شانے چت پڑا تھا۔
’’تو نے پچھلی بارکہا تھا یدی میں تمرے شریرکو اپنی شکتی سے نہ باندھتا تو مجھے نشٹ کر دیتا۔ اسی کارن اس بارمیں نے تیرے شریر کو نہ باندھا کہ تو اپنے من کی حسرت نکال لے آ۔۔۔آگے بڑھ اور میرا کریہ کرم کر دے کس بات کی دیر ہے؟‘‘ اس نے میری حالت دیکھتے ہوئے مضحکہ اڑایا۔
’’میں بھی تو دیکھوں تو کتنابلوان ہے؟‘‘ اس کی ہرزہ سرائی جاری رہی۔ میں ہمت کرکے دوبارہ اٹھا۔ اس بار میں محتاط انداز میں اس کی طرف بڑھا۔ وہ معنی خیز نظروں سے میری طرف دیکھ رہا تھا جیسے ہی میں اس کے قریب پہنچا اس کے ہونٹ دائرے کی صورت میں سکڑ گئے۔ میں بجلی کی سی تیزی سے ایک طرف ہٹ گیا۔ اس کے منہ سے نکلا ہوا تھوک مجھ سے دوانچ کے فاصلے سے گزر کرفرش پر جا پڑا۔ اسکے گندے تھوک کی اذیت میں ابھی بھولانہیں تھا۔ میرے اور اس کے درمیان چار پانچ قدموں کافاصلہ رہ گیا تھا۔ میں ہوا میں اچھلا اور اس پرچھلانگ لگا دی۔ لیکن کسی نادیدہ ہاتھ نے مجھے ہوا میں معلق کر دیا۔ چھت کے قریب جا کرمیں سرکر بل گرنے لگا۔ زمین تیزی سے میری طرف بڑھ رہی تھی اس عالم میں اگر میں زمین پر گرتا تومیرا سر پاش پاش ہو جاتا لیکن اب جینے کی خواہش کسے تھی؟جس قدر ذلت میں اٹھا چکاتھا اس کے بعدمیں خود بھی جینا نہیں چاہتا تھا۔ لیکن موت بڑی ظالم چیز ہے انسان زندگی سے جس قدر بھی تنگ ہومرنا نہیں چاہتا۔ قریب تھا کہ زمین سے ٹکراکرہمیشہ کی نیندسو جاتا مجھے محسوس جیسے میرا پاؤں کسی کی گرفت میں آگیا ہے۔ خوفناک جھٹکے نے میرے اوسان خطا کردیے۔ دردکی شدید لہرنے احساس دلایا جیسے ٹانگ کولہے کے جوڑسے نکل گیا ہو۔جیسے ہی میرے حواس بحال ہوئے میں نے دیکھا میں بالکل کالی داس کے اوپرمعلق تھا۔ میرے ہاتھ اس کے سر سے انچ دو انچ کے فاصلے پر ہوا میں لہرا رہے تھے۔ میں چاہتا تھا اسکا گلادبوچ لوں تاکہ اسکے گندے جسم سے بدروح پروازکرجائے۔ اس کے مکروہ ہونٹوں پرموجودہ طنزیہ مسکراہٹ نے مجھے مزید مشتعل کردیا۔
’’کاش میں بھی پراسرار قوتوں کاماہر ہوتا تو اس خبیث کوابھی مزا چکھادیتا۔‘‘
’’کیوں بالک! اب کیا وچارہیں یدی اب بھی تومیرا کہامان لے تومیں تجھے شماکر سکتا ہوں‘‘ اس بار اس کا لہجہ بدلہ ہوا تھا۔ پھر چھت کی طرف دیکھ کر اس نے اجنبی زبان میں کچھ کہا۔ میں آہستہ آہستہ نیچے آنے لگا۔میری دائیں ٹانگ کسی نادیدہ گرفت میں تھی۔ کسی نے مجھے آرام سے نیچے اتار کرپشت کے بل لٹادیا۔
’’اٹھ کر بیٹھ جا‘‘ کالی داس کی آواز آئی۔ میں اٹھ کر بیٹھ گیا۔
’’ابھی سمے گیانہیں۔۔۔مورکھ نہ بن میری آگیا کا پالن کرکے تو ایک بارپھر عجت (عزت) سے سنسار میں رہ سکتا ہے‘‘
میں اس کی بات سن کر چونک گیا۔ وہ گہری نظروں سے میری طرف دیکھ رہا تھا۔ اس وقت میری سب سے بڑی خواہش یہی تھی کہ میں ایک بار پھر معاشرے میں عزت کی زندگی جینا شروع کر دوں۔
’’میرے بارے اپنے وچار ٹھیک کر، میں اتنا برا نہیں۔۔۔متروں کا متر ہوں۔پرنتو بیریوں کے سنگ تو کوئی منش اچھا برتاؤ نہیں کرتا۔ تیری پریمیکا اور تو نے میرے سنگ کیا کیا تھا۔۔۔یاد ہے؟‘‘
’’کیا یہ اس خبیث کی کوئی نئی چال ہے؟‘‘ میں سوچ میں پڑ گیا۔
’’تیرے وچار غلط ہیں۔۔۔میں نے کہا نا، میں تیری سہائتاکر سکتا ہوں پرنتو تجھے میری آگیا کا پالن کرناہوگا‘‘ اسنے ایک بار پھر مجھے یقین دلایا۔
’’توکیا چاہتاہے؟‘‘ میں نے کچھ سوچ کر پوچھا۔ اس وقت اگر خبیث کی بات مان کرمیرا چھٹکارا ہو سکتا تھا تو دانشمندی اسی میں تھی کہ اسکی بات مان لی جائے۔
’’میں کالی ماتا کی آگیا کے انوسار رادھا کوحاصل کرنا چاہتا ہوں‘‘ اسنے اپنا مطالبہ دہرایا۔
’’رادھا کو حاصل کرناچاہتا ہے؟ یاد ہے اسنے کس طرح تجھے زمین چاٹنے پر مجبور کر دیاتھا؟‘‘ نہ چاہتے ہوئے بھی میرا لہجہ طنزیہ ہوگیا۔ یکبارگی اس کی آنکھیں سرخ ہوگئیں۔
’’ایسی باتیں نہ کر کہ ایک بار پھر تجھے کشٹ بھوگنا پڑے۔‘‘
’’لیکن اس سلسلے میں میں تمہاری کیا مددکرسکتا ہوں؟‘‘ مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوگیا تھا اس لئے میں نے جلدی سے پوچھا۔
’’جیسا میں کہوں کرتا جا پھر دیکھ۔۔۔سنسار کو میں تیرے واسطے سورگ(جنت) بنا دوں گا تیری ہرمنو کا منا (خواہش) پوری ہوگی۔ تو جس اچھا کاوچاراپنے من میں لائے گا اوش پوری ہوگی‘‘ وہ مجھے لالچ دے رہاتھا۔
’’میں ابھی تک تمہاری بات نہیں سمجھا‘‘ اسکی باتوں سے میں بری طرح الجھ گیاتھا۔
’’رادھا کا جاپ پورا ہونے میں ابھی کچھ سمے باقی ہے ۔یدی مجھے وچن دے کہ تو سمے آنے پر میری آگیا کاپالن کرے گا تو میں تیری سہائتاکرنے پرتیار ہوں‘‘ اس نے بڑے اطمینان سے کہا۔
’’کھل کر بات کرو تم کیا چاہتے ہو؟‘‘ میں نے کہا۔ کچھ دیر وہ مجھے دیکھتا رہا پھر آہستہ سے بولا۔
’’رادھا تجھ سے پریم کرتی ہے میں جانتاہوں تم دونوں کے بیچ کیسا سمبندھ ہے؟ تجھے کیول اتناکرنا ہوگا کہ جب وہ تجھ سے ملنے آئے تومجھے کھبر کردے۔‘‘
اس بار اس نے وضاحت کی۔ مجھے رادھا کی بات یاد آئی۔
’’سنسارکے سارے پنڈت پجاری مجھے پراپت کرنے کے کارن دھونی رمائے بیٹھے ہیں‘‘ میں اچھی طرح سمجھ رہاتھاکہ یہ منحوس کیا چاہتاہے؟ اس سے قبل اس کا چیلا امر کماربھی اس قسم کامطالبہ کرچکاتھا لیکن اسنے شرط رکھی تھی کہ میں اپنی بیوی کو طلاق دے دوں۔ میرے چہرے پرکشمکش دیکھ کروہ بولا۔
’’تو اپنی پتنی کوچھوڑے بنا بھی میری سہائتاکر سکتا ہے امرکمارمیرا چیلا تھا اس نے ابھی اتنی شکتی پراپت نہ کی تھی اسی کارن اس نے تجھ سے تیری پتنی کوچھوڑنے کو کہا تھا پرنتو۔۔۔میں ایسی کوئی بات نہ کہوں گا۔ میری اچِھا تو کیول یہ ہے تو من سے میری بات مان لے۔ پرنتو اس بات کا اوش دھیان رکھنا یدی تونے میرے سنگ چھل کپٹ کیا توتوجانتا ہے کالی داس کس شکتی کا نام ہے؟‘‘ کچھ دیر وہ میرے چہرے کے تاثرات کاجائزہ لیتا رہا پھر کہنے لگا‘‘ میں یہ بھی جانتاہوں رادھا کے آنے کے بعد تو ایک بارپھر میرے آڑے آنے کی اوشکتا کرے گا۔ پرنتو اس بار وہ مجھے کشٹ دینے میں سپھل نہ ہوپائے گی۔‘‘
’’لیکن اس دن تو ایسا ہی ہواتھا۔‘‘ میں نے کہا۔
’’میں تجھے بتا چکا ہوں اس دن کچھ اور شکتیاں بھی تیری سہائتا کر رہی تھیں اسی کارن وہ مکت(کامیاب) ہوگئی تھی۔ نہیں تو رادھا کالی داس کی شکتی کوجانتی ہے۔‘‘ اس نے گردن اکڑا کرکہا۔
’’اگر میں ایسا کرنے کا وعدہ کربھی لوں تو اب تم میرے لیے کیا کر سکتے ہو؟یہ معاملہ تو اتناالجھ چکا ہے کہ اب تم چاہو بھی تو نہیں سلجھا سکتے‘‘ میں مایوس ہو چکا تھا۔
’’تو نے ابھی کالی داس کی شکتی دیکھی ہی کہاں ہے بالک! مجھے وچن دے پھر دیکھ میں کرتا ہوں؟‘‘ اس کے لہجے سے اندازہ ہورہا تھا وہ سچ بول رہا ہے۔
’’لل ۔۔۔لیکن یہ کیسے ممکن ہے؟ سارے شہر میں میرے خلاف ہنگامے ہو رہے ہیں؟پرچہ کٹ چکا سبین نے اپنا بیان بھی دے دیا ہے اب تو۔۔۔‘‘
’’تو یہ باتیں چھوڑ کیول اس بات پردھیان دے جو میں کہہ رہا ہوں تجھے بچانا میرا کام ہے۔ پرنتو دھیان رہے یدی۔۔۔تو وچن دے کر پھر گیا تو تجھے میرے شراپ سے بچانے والا اس سنسارمیں کوئی نہ ہوگا۔ میں جانتا ہوں اس سمے من میں رادھا کے واسطے کرودھ ہے پرنتو اس کے آنے کے بعد ہو سکتا ہے تیرے من میں اس کا پریم پھر جاگ جائے اور تو اپنے وچن سے پھر جائے۔ یدی ایسا دھیان بھی تو اپنے من میں لایا تو اتنا یاد رکھنا کالی داس تجھے کبھی شما نہ کرے گا۔‘‘
یہ ایساموقع نہ تھا کہ اس کی باتوں کا برا مانا جاتا۔ میں اس کی دھمکی کو زہرکے گھونٹ کی طرح پی گیا۔ ضبط سے میرا چہرہ سرخ ہوگیا تھا۔ میری کیفیت دیکھ کر وہ نرمی سے بولا۔
’’کالی داس کا متربن کر دیکھ۔۔۔کالی داس تیرے چرنوں میں سندرکنیاؤں کا ڈھیر لگا دے گا۔ رادھا سے بھی سندر کنیائیں۔ یدی تجھے میری بات پروشواس نہ ہو تومیں تجھے ابھی چمتکاردکھا سکتاہوں‘‘ مجھے اپنی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھتے پاکر وہ معنی خیز انداز سے مسکرایا۔
’’میں جانتاہوں تو کیول میرے کہے پر وشواس نہ کرے گا اب دیکھ کالی داس کیاکرسکتاہے؟‘‘
وہ منہ ہی منہ میں کچھ پڑھنے لگا ۔اس کے ہونٹ ہلے لیکن آواز نہ نکلی۔ دوسرے ہی لمحے حوالات کے کمرے میں بسنتی ظاہر ہوگئی۔ وہی بسنتی جس کی بات مان کر میں اس حال کوپہنچا تھا۔ میں آپ کوپہلے بھی بتا چکاہوں کہ وہ اس قدر حسین تھی کہ اس پر سے نظر ہٹانا مشکل ہو جاتا۔ میری اس حالت کی ذمہ دار بسنتی ہی تھی پھر بھی اسے دیکھ کرایک لمحے کے لیے میں ڈول گیا۔ اس نے نہایت مختصر لباس پہن رکھا تھا جس سے اس کاکندن بدن دمک رہاتھا۔
’’پرنام مہاراج‘‘ اس نے کالی داس کوہاتھ باندھ کر سلام کیا۔ اس کے بعد وہ میری جانب مڑی اور ہاتھ جوڑ دیئے اس کے ہونٹوں پر بڑی ہی شوخ مسکراہٹ تھی۔
(جاری ہے، اگلی قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں )