گینانی۔۔۔۔ہنزہ کا جشن ِ بہار

 گینانی۔۔۔۔ہنزہ کا جشن ِ بہار
 گینانی۔۔۔۔ہنزہ کا جشن ِ بہار

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف : عمران الحق چوہان 
قسط:163
آج بھی ایک روشن اور کھلا دن تھا اور میں زمانۂ حال سے بہت دور آٹھ نو سو سال پرانے دور میں تھا۔ڈھول اور شہنائیوں کی نامانوس آواز ان برفانی بلندیوں سے آتی محسوس ہوتی تھی جو صدیوں سے ہنزہ کی شہر پناہ ہیں۔ یہ ایک طلسماتی دھن تھی جس کی لے پر وقت کی بے انت موجوں پر سفر کیا جا سکتا تھا، زمان و مکان کی حدوںکے پار جا یا جا سکتا تھا۔ وقت کا یہ سفر طے کرنے کےلئے مجھے ایچ۔ جی۔ ویلز کی ٹائم مشین کی ضرورت نہیں پڑی تھی۔ بس چند پتھریلی سیڑھیاں، ایک تنگ راہ داری اور پھر ایک چوبی زینہ چڑھ کر میں زمانۂ حال کی سرحد کے پار پہنچ گیاتھا۔ ہم سب حیر ت آ میز خوشی اور سر شاری کی کیفیت میں تھے۔۔۔
 آٹھ، نو سو سال پہلے قلعہ بلتیت ایک اونچی پہاڑی پر بنا یا گیا تھاجس کی دو وجہیں تھیں،ایک تو دشمن پر نظر رکھنا، دوسرے دشمن کی رسائی زیادہ سے زیادہ مشکل بنانالیکن اب نہ دشمن رہے تھے اور نہ نظر رکھنے کی ضرورت۔ اس لیے دشمنوں والا سلوک مسافروں سے کیا جاتا ہے جن کا یہ چڑھائی چڑھتے ہوئے بار بار سانس پھولتا تھا۔
 اپنے عشاق سے ایسے بھی کو ئی کرتا ہے!
 جاپان چوک سے قلعے کے راستے پر ہم ہانپتے ہوئے چڑھائی چڑھ رہے تھے۔ راستے میں بائیں جانب دیدار گاہ آئی تو وہاں شامیانے لگے ہو ئے تھے اور گینانی کے سلسلے میں ایک بینر آویزاں تھا۔ میں سمجھا کہ یہ”گینان“ خوانی کا کو ئی مقابلہ یا تقریب ہے۔ چنانچہ ہم یہ بینر پڑھ کر اگلا موڑمڑ گئے۔ راستے کے عین اوپر ایک چوبارہ جس کے چوبی جھروکے راستے پر کھلتے اور اس راہ گزر کو خوبصورت بناتے تھے۔ یہ ایک کمرہ سا تھا جسے کسی نے بے ترتیبی کے ساتھ گلی کے اوپر یوںترچھا رکھ دیا تھا کہ قلعے کوجاتی گلی پر چھت ڈل گئی تھی ۔ لکڑی اور مٹی سے بنا ایک چھوٹا سا کمرہ جو کسی مکان کا حصہ نہیں لگتا تھا ۔ بس ایک کمرہ ، چپ چپ اور تنہا تنہا،لیکن اس نے کریم آباد کے ماحول کو ایک عجیب قدیم اور رومانی رنگ سے رنگاہوا تھا۔یہ اپنی جگہ ہنزہ کی تہذیب و ثقافت کا ایک مونیومنٹ(Monument ) تھااور تیزی سے بدلتے جدید تجارتی ہنزہ اور پرانے سادہ اور محبتی ہنزہ کے درمیان ایک سرحد بھی۔ دکانوں کی بھِیڑسے ہٹ کر پرانے بھاری چوبی دروازوں والے گھروںاور ٹھنڈی ٹھنڈی ، پُر پیچ اور خاموش گلیوںوالے ہنزہ کا صدر دروازہ۔ اس کے نیچے سے پتھروں کے فرش والی گلی سے گزرنا ایک رومانی اور مسرت بخش عمل تھا۔
 قلعے کے منظر کو بجلی کے کھمبوں اور تاروں نے بدنما کر دیا تھا۔ عجیب بات ہے کہ تمام تر حسن ِ انتظام کے باوجود ہنزہ والوں کو اس بد صورتی کا احساس نہیں ہے۔ میں لاکھ چاہنے پر بھی ایسی تصویر نہیں بنا سکا جس میں ان برقی تاروں نے قلعے کے وجود کو ایناکونڈا سانپوں کی طرح نہ جکڑ رکھا ہو۔ 
 اوپر پہنچے تو قلعے کے بیرونی صحن میں بہت بھیڑ تھی ، ایک میلے کا سماں تھا۔ رونق، چہل پہل اور گہما گہمی۔ لگتا تھا کہ خلاف ِ معمول سارے کریم آباد کے مرد قلعہ دیکھنے آئے ہوئے ہیں۔ اعظم، سمیع اور معاویہ پہلے سے ایک طرف منڈیر پر بیٹھے سیر دیکھ رہے تھے۔ میں نے اعظم سے وہاں بیٹھنے کا سبب پوچھا تو اس نے بتایا کہ قلعے میں کوئی خاص آ دمی آ رہا ہے اس لیے سیاحوں کے لیے قلعہ 1 بجے کے بعد کھو لا جائے گا۔ ہمارے ہاں بڑے آدمیوں کی یہ بڑی مصیبت ہے کہ جب تک وہ ”چھوٹے آ دمیوں“ کو ذلیل نہ کر لیں انھیں با اختیار ہونے کا مزہ نہیں آتا ۔ ہو نا تو یہ چاہیے کہ ان ”برہمنوں“ کو ایسے دن کسی جگہ کا دورہ کروایا جائے جو عام لوگوں کا نہ ہو، تا کہ وہ لوگوں کو ذلیل کیے بغیر اپنی” شان“ بر قرار رکھ سکیں لیکن پھر خیال آتا ہے کہ اگر وہ لوگوں کو ذلیل نہ کرسکیں تو پھر ”بڑا“ ہونے کا فائدہ؟
 میں نے اپنے طور پر حور شاہ صا حب کا پتا کروایا لیکن علم ہوا کہ وہ اب قلعے میں نہیں ہوتے،میں بھی دوستوں کے ساتھ بیٹھ گیا۔بہت سے مقامی لوگ قلعے میں آجا رہے تھے ۔ جب ہمیں بیٹھے کا فی دیر ہو گئی تو میں نے اٹھ کر اس کم بخت بڑے آ دمی کے بارے میں ایک دو ہنزائیوں سے استفسار کیا۔ جوا باً بتایا گیا کہ کو ئی بڑا آ دمی نہیں آ رہا بل کہ قلعے کی چھت پر ہنزہ کے جشن ِ بہار ”گینانی“ کے سلسلہ میں تقریب منعقد ہو نے والی ہے جس کے بعد ہی قلعے کو سیاحوں کےلئے کھولا جائے گا۔میں نے ایک دو ذرا سنجیدہ اور ذمے دار نظر آ نے والے آدمیوں سے گینانی میں شرکت کی خواہش ظاہر کی تو انہوں نے بتایا کہ اس تقریب میں صرف ہنزائی اور وہ بھی پختہ عمر معززین ہی شریک ہو سکتے ہیں۔ اب پختہ عمر والی شرط تو ہم پو ری کر تے تھے لیکن باقی 2 شر طیں سخت تھیں یعنی ہنزائی اور معزز ہونا۔ میں نے کچھ رعایت کی درخواست کی تو میری درخواست حکام ِ بالاتک، جو واقعی ”بالا“ یعنی قلعے کی چھت پر تھے، پہنچا دی گئی اور ہمیں انتظار کرنے کو کہا گیا۔ قلعے کے باہر وردیوں میںملبوس بہت سے بوائے سکاؤ ٹس گلے میں بٹے ہوئے نیک کر چیف (neckerchief) کے ساتھ اپنے ماٹو کے مطابق مستعدی سے مہما نوں کو اندر لے جا نے اور نظم و نسق میں مصروف تھے۔اتنے میں ایک نو جوان سکاؤٹ نے قلعے کی سیڑھیوں پر آکر مجھے پکارا اور اندر آنے کا اشارہ کیا۔ہم مقامی ہجوم کی معیت میںقلعے کی سنگی سیڑھیاں چڑھ کر تنگ دروازے اور تاریک راہ داری سے گزر کر صحن میں آئے جہاں ایک چو بی زینہ چھت تک جاتا تھا۔ 
ہنزہ کے بزرگ عمائدین و اکابرین قلعے کی چھو ٹی سی چھت پربچھے قالینوں اور اونی دریوں پر رکھی گدیوں پر تر تیب سے صف در صف بیٹھے تھے۔شرکا ءکی اکثریت معمول کے شلوار قمیض ، گرم واسکٹ اور گرم ٹو پی میں ملبوس تھی۔ چند لو گوں نے کپڑوں کے اوپر روایتی چوغے پہن رکھے تھے اور واسکٹ کی جیب یا ٹوپی میں گلاب اور کوزموس وغیرہ کے پھول اڑس رکھے تھے۔ ہمیں اگلی صف میں جگہ دی گئی۔ وہ سب ہمیں اپنے درمیان دیکھ کر حیران تھے ۔ التر کی چوٹی پر پڑی برفوں کو چھو کر آتی ہوا کے باوجود قلعہ بلتیت کی چھت پر گرمی کا احساس ہو رہا تھا۔ دوپہر کا سورج اپنی پو ری آب و تاب کے ساتھ چمک رہا تھا جس سے کھلے بازو اور چہرہ جھلستے تھے۔ تیز دھوپ سے بچنے کےلئے میں نے جرسی اتار کر سر پر رکھ لی۔(جاری ہے )
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم “ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں )ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں ۔