برطانیہ کا پاکستان کیساتھ تحویل مجرمان کا معاہدہ
بریگزٹ کے بعد سے برطانیہ کی امیگریشن ادھر ادھر ہچکولے کھارہی ہے۔ فرانس کے راستے کشتیوں کے ذریعے برطانیہ میں داخل ہونیوالے غیر قانونی تارکین وطن کو روکنے کے تمام حربے ناکام ہوچکے ہیں ۔ ہوم سیکرٹری نئے آنے والے پناہ گزینوں اور اقتصادی مائی گرینٹ کو روانڈا بھیجنا چاہتی ہیں تاکہ سستے میں جان چھٹے۔ بھاری تعداد میں سیکیورٹی اہلکار تعینات کرنے کے باوجود یورپ سے چینل کراس کرکے برطانیہ داخل ہونے غیر قانونی تارکین وطن کی تعداد بڑھی ہے۔ برطانوی وزیر داخلہ نے پاکستان کیساتھ 17 اگست 2022 کو تحویل مجرمان کا دو طرفہ معاہدہ کرلیا ہے جسکے تحت سزا یافتہ مجرمان یا انڈر ٹرائل ملزمان اور امیگریشن قانون توڑنے والے غیر قانونی طور پر مقیم افراد کو ایک دوسرے کے ملک اسلام آباد اور لندن واپس بھیجا جاسکے گا۔
اس معاہدے کا اعلان 17 اگست 2022 کو ہوا، پاکستان کی طرف سے سیکرٹری داخلہ یوسف نسیم کھوکھر نے دستخط کئے۔ یہ پچھلے 15ماہ میں پانچواں معاہدہ ہے جو برطانیہ نے جرائم پیشہ افراد اور امیگریشن جرائم میں قید یا مطلوب افراد کو ملک بدر کرنے کیلئے کیا ہے۔ بھارتی نژاد برطانوی ہوم سیکرٹری پریتی پٹیل نے اس معاہدے پر برطانیہ کی جانب سے دستخط کئے ہیں۔ اس سے پہلے ایسا معاہدہ بھارت نائیجیریا اور البانیا سے ہو چکا ہے
تارکین وطن کے ایسے شارٹ ٹرم معاہدے وزیر داخلہ رحمن ملک کے دور میں زیر بحث اور تنقید کی زد میں رہے جبکہ اس عمل کو وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کے دور میں یک دم روک دیا گیا تھا۔
انسانی حقوق کیلیےکام کرنے والے وکلاء نے ایسے معاہدوں پر تشویش کا اظہار کیا ہے جس سے گیہوں کیساتھ گھن کے پس جانے کا بھی خطرہ ہے۔ پاکستان کا انسانی حقوق فیر ٹرائل ، انتظامی اور عدالتی عمل ، تفتیش میں ایذاء رسانی اور سزائے موت جیسی سزاؤں کے اطلاق کی وجہ سے ریکارڈ اچھا نہیں ہے۔ پچھلے10 برسوں میں اگر نیب سے ضمانت پر فیصلوں کی نظیریں پڑھیں تو سیاسی مخالفین کو دیوار سے لگانے اور انکی آزادیٔ اظہار پر پابندی لگانے کیلئے ہر وہ حربہ استعمال کیا جاتا ہے جو بادی النظر میں ناقابل عمل اور انسانی حقوق کے منافی ہو۔ ایسے میں سیاسی مخالفین کو سیاسی طور پر بنائے گئے مقدمات پر پاکستان کے حوالے کرنا خدشات اور خطرے سے خالی نہیں۔
انسانی حقوق کا 1950 کا کنونشن شہریوں کے جان و مال اور شخصی آزادیوں کی ضمانت دیتا ہے۔ شکایت اور گرفتاری پر فیئر ٹرائل اور تشدد سے پاک تفتیش کاحق دیتا ہے۔ جنیوا کنونشن 1951 سیاسی پناہ گزین کو بنیادی حقوق کی ضمانت کیساتھ ساتھ انکے حق اظہار ،سیاسی وابستگی اور کریمنل جسٹس سسٹم کے تحت ٹرائل اور تفتیش میں گارنٹی فراہم کرتا ہے۔ ایسے میں برطانیہ الطاف حسین ، بگٹی قبیلے کے لوگ، نواز شریف اور اسحاق ڈار کو برطانیہ سے کس طرح بے دخل کرکے پاکستان کے حوالے کرتا ہے یہ ایک سوالیہ نشان ہے۔گرچہ یہ بات مفروضے پر مبنی ہے کیونکہ پاکستان میں اب نواز شریف کی جماعت برسر اقتدار ہے، لیکن حزب اختلاف بھی وہ تمام حقوق مانگے گی جسکی استدعا تمام دوسرے لوگ کرتے رہے۔ان میں سے کسی کو بھی اگر غلط سزا ہوتی ہے تو برطانیہ اس کی ذمہ داری سے کیسے ہاتھ دھو سکتا ہے۔ سزا یافتہ مجرمان کے کنونشن پر عمل بھی اس لئے رک گیا تھا کہ یہاں سے بھیجے گئے مجرمان جیل میں کچھ دے دلا کر لوکل جیل میں چکی کاٹنے اور باقی ماندہ سزا کاٹنے کی بجائے کراچی جیسے اربن شہروں میں دندناتے پائے گئے تھے۔
برطانیہ میں امیگریشن سیاسی شعبدہ بازی کا حصہ بن چکا ہے، یہ مین سٹریم میڈیا ہی نہیں بلکہ سوشل میڈیا اور چوک اور چوراہے میں زیر بحث مضمون ہے۔برطانوی حکام کی تمام تر کوششوں کے باوجود رواں سال اب تک چھوٹی کشتیو ں کے ذریعے چینل عبور کرنیوالے غیر قانونی تارکین وطن کی تعداد 6600ے تجاوز کر چکی ہے جبکہ ا س کے مقابلے 2020میں پورے سال میں8420 کی تعدادریکارڈ کی گئی تھی ۔ غیر قانونی تارکین وطن کی آمد کا تسلسل جاری ہے دوران سال بھی ایک چھوٹے بچے سمیت 30سے 40 کے درمیان غیر قانونی تارکین وطن3 کشتیوں میں سوار ہو کر کینٹ پہنچے اور ایسے افراد کی آمدورفت موسم گرما میں بڑھی ہے۔
برطانیہ میں ابھی بھی لاکھوں افراد پرانے نظام میں اٹکے ہوئے ہیں ، نہ وہ جارہے ہیں نہ حکومت ان کو نکال پا رہی ہے۔غیر قانونی تارکین وطن کیلئے عام معافی کی سن گن بھی چل رہی ہے۔ انکو قانونی سٹیٹس دینے کے لیے آن لائن پیٹیشن پر1 لاکھ سے زائد تارکین وطن نے دستخط کئے جس کے بعد اس معاملے پر پارلیمنٹ میں بحث کا آغاز کر دیا گیاتھا۔اعدادو شمار کے مطابق 2021 میں اب تک 5900ے زائد افراد کشتیوں میں سوار ہو کر برطانیہ پہنچے جنہیں تحویل میں لے لیا گیا جبکہ 2020 میں پورے سال میں مجموعی طو ر پر 8417افراد غیر قانونی طریقے سے برطانیہ میں داخل ہوئے تھے ،یہ ایسے اعداد و شمار ہیں جو 2019 سے 4 گنا تھے، رواں سال صرف ماہ جون کے دوران انگلش چینل عبور کرنے والے غیر قانونی مہاجرین کی تعداد 2200سے تجاوز کر چکی ہے۔
خیراتی اداروں نے اعدادوشمار پر حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے الزام عائد کیا ہے کہ اس نے فورٹریس برطانیہ بنانے کی جستجو نے لوگوں میں سمگلر کا خواب پیدا کیا ہے۔ ہوم آفس کا کہنا ہے کہ غیر قانونی طورپر انگلش چینل عبور کرنا مکمل طور پر ناقابل قبول ہے ۔یہ امر قابل ذکر ہے کہ پریتی پٹیل نے متنازع قانون سازی بھی کی ہے تاکہ حکومت کو اس قابل بنایا جائے کہ وہ سیاسی پناہ کے متلاشیوں کو پروسیسنگ کیلئے بیرون ملک بھیج سکے۔ روانڈا اور افریقی ممالک میں انکا بھیجا جانا تنقید کی زد میں ہے۔
۔
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطۂ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
۔
اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیلئے بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’zubair@dailypakistan.com.pk‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں۔