معلوماتی سفرنامہ،’کھول آنکھ زمیں دیکھ‘۔۔ ۔ 17 ویں قسط
کینیڈا : لوگ، حالات اور زمین
کینیڈا کی حکومت نے ایسے کئی ادارے قائم کر رکھے ہیں جو نئے آنے والوں کو یہاں سیٹ ہونے میں ہر ممکن مدد فراہم کرتے ہیں۔ اس طرح کے اداروں کے پتے اور فون نمبرز ان بروشرز میں دستیاب ہوتے ہیں جو اےئر پورٹ پر دیے جاتے ہیں۔ کلچرل لنک بھی ایک ایسا ہی ادارہ ہے جہاں نئے آنے والوں کو مختلف خدمات بلا معاوضہ پیش کی جاتی ہیں۔مثلاً لوگوں کو باہم متعارف کرانا، انگریزی کی تعلیم، ٹوفل کی تیاری، لیگل سروس، جاب ڈھونڈنے سے متعلق ہر طرح کی تیاری وغیرہ۔ اس کے علاوہ یہاں فون، کمپیوٹر، انٹرنیٹ اور اخبارات کی سہولتیں بھی مفت دستیاب ہیں۔
معلوماتی سفرنامہ،’کھول آنکھ زمیں دیکھ‘۔۔ ۔ سولہویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
میں نے اپنے قیام کے دوران یہاں کے متعدد پروگراموں میں داخلہ لیا۔ جس سے مجھے کافی فائدہ ہوا۔ مزید براں یہ کہ مختلف ملکوں کے لوگوں ، ان کے کلچر اور معاملات سے آگاہی حاصل ہوئی۔ ان میں چین، بنگلہ دیش ، ایران، مصر، شام، میکسیکو، برازیل اور دیگر کئی ملکو ں کے لوگ شامل تھے۔ یہاں میرا ایک بہت اچھا دوست بنا۔ اس کا نام عبدالطیف تھا اور اس کا تعلق شام سے تھا۔ تاہم وہ اور اس کا خاندان مستقلاً سعودی عرب میں مقیم تھے۔ دیگر کئی ملکوں سے تعلق رکھنے والے خواتین و حضرات سے بھی اچھی دعا سلام ہوگئی۔ متعدد مقامی کینیڈین لوگوں سے بھی یہیں کے حوالے سے دوستی ہوئی۔ جن میں سب سے نمایاں شخص ڈینس تھا۔ اس سنٹرکی ایک سروس (Host Program) کے نام سے تھی۔اس میں کوئی مقامی شخص رضاکارانہ طور پر نئے آنے والے کو مقامی کلچر، اقدار اور دیگر معاملات سے آگاہ کرتا تھا۔ڈینس سے اسی حوالے سے دوستی ہوئی۔ ہم وقفے وقفے سے ملتے رہے اور وہ مجھے مختلف معاملات میں رہنمائی دیتا رہا۔ میں نے کینیڈا کی زندگی اور لوگوں کے بارے میں کئی چیزیں اس کے ذریعے جانیں۔
ہمارے ویگن والے اور میری مسلمانی غیرت
ایک روز میں کلچرل لنک سے واپس آرہا تھا۔ ڈاؤن ٹاؤن پہنچ کرٹرین میں بیٹھنے کے لیے میں سب وے میں گیا۔یہ سب وے وہ انٹر سیکشن تھا جہاں دو لائنیںآپس میں ملتی ہیں۔دفاتر کی چھٹی کا وقت تھا اور اس وقت اگر کسی وجہ سے ایک ٹرین چند منٹ بھی لیٹ ہوجائے تو لوگوں کا جم غفیر جمع ہوجاتا ہے۔ اس وقت یہی صورتحال تھی اور کافی رش تھا۔ یہ لوگ ہر جگہ لائن بنالیتے ہیں مگر سب وے پر لائن بنانا عملاً ممکن نہیں ہوتا۔ کیونکہ اسٹیشن پر ٹرین صرف چند لمحوں کے لیے رکتی ہے۔ایسے میں اگر لائن بنائی جائے گی تو اکثر لوگ ٹرین میں سوار نہیں ہوسکیں گے۔اس کی جگہ لوگ تھوڑی تھوڑی دور پھیل کر کھڑے ہوتے ہیں۔ جب ٹرین آتی ہے تو پہلے اترنے والے اترتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی مختلف دروازوں کے سامنے کھڑے لوگ ٹرین میں سوار ہو جاتے ہیں۔
چنانچہ جب میں نے رش کی یہ صورتحال دیکھی تو سوچا کہ آج تو خوب مارا ماری ہوگی۔ کیونکہ چھٹی کے اوقات میں تو ٹرین پچھلے اسٹیشن سے ہی بھر کر آتی ہے۔ ایسے میں جو تھوڑی بہت جگہ ہوگی اس کے لیے سیکڑوں بلکہ شاید ہزاروں امیدواروں کی موجودگی میں ’’عقابی شان‘‘ سے جھپٹنا ہوگا۔ اور زمانۂ طالبعلمی کے اس معرکے کی یاد تازہ ہوجائے گی جو صدر کے مرکزی علاقے سے ، رش کے اوقات میں ، ویگن میں بیٹھتے وقت برپا ہوتا تھا۔ لوگ سکون سے کھڑے تھے۔ مگر میں مذکورہ بالا خیال کے تحت آہستہ آہستہ لوگوں کے بیچ سے کھسکتاہوا آگے پہنچ گیا۔ تھوڑی دیر میں ٹرین آئی۔ میں سمجھ رہا تھا کہ اب لوگ نعرہ تکبیر بلند کرکے ٹرین پر ٹوٹ پڑیں گے۔ مگر ایسا کچھ نہ ہوا۔پہلے اترنے والوں کو آرام سے اترنے دیاگیا۔لیکن ٹرین پہلے ہی اتنی بھری ہوئی تھی کہ بہت کم جگہ بن سکی۔ میرے آگے کھڑے لوگ بغیر کسی دھینگا مشتی کے ایک ایک کرکے ٹرین میں چڑھنا شروع ہوگئے۔ میرے ساتھ کھڑی ہوئی ایک لڑکی آگے بڑھی تو پیچھے کھڑی ایک خاتون تیزی سے آگے بڑھیں اور ٹرین میں چڑھ گئیں۔ اس کے بعد وہ لڑکی چڑھی اور اسکے پیچھے میں بھی سوار ہوگیا۔
میں ابھی تک اس خیال میں تھا کہ میرے پیچھے کچھ نہیں تو دس بیس افراد لازماً دھکا مارکر اندر گھس جائیں گے۔ اس معاملے میں میری تربیت کراچی کے ان ویگن والوں کے ہاتھوں ہوئی تھی جن کانصب العین اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے۔
"In my van there is always a place for another man"
لہٰذا ان کے حساب سے ابھی ٹرین میں کافی ’’گنجائش‘‘ تھی۔ مگر مقامی لوگوں کے اعتبار سے جگہ ختم ہوچکی تھی۔ چنانچہ وہ لڑکی اگلی خاتون سے اتنا کہہ کر اترگئی کہ تمہیں پتا ہے تم نے کیا کیا ہے ؟ تم مجھے کراس کرکے اوپر چڑھی ہو۔اس کے اترنے سے میرے لیے آرام سے کھڑے ہونے کی گنجائش ہوگئی۔ مگر میں دل میں شرمندگی محسوس کرنے لگا۔ کیونکہ اسٹیشن پر کھڑے لوگوں میں سے بمشکل دو فیصد لوگ ہی ٹرین میں سوار ہوسکے ہوں گے۔ میں ان سب کو کراس کرکے ٹرین میں چڑھا تھا۔
ٹرین چل پڑی اور میں خاموشی سے کھڑا اس جم غفیر کو دیکھنے لگا جو انتہائی سکون سے کھڑا اگلی ٹرین کا انتظار کررہا تھا۔ میرا احساسِ ندامت بڑھا تو میری مسلمانی غیرت کو جوش آیا۔ میں نے خود کو تسلی دی کہ یہ لوگ اخلاقی طور پر اس قابل نہیں کہ ٹرین میں گھس گھس کر کھڑے ہوں۔ کیونکہ اس طرح خواتین سے بدتمیزی کا اندیشہ ہوتا ہے۔ یہ ان کی خوبی تھوڑی ہے۔ یہ تو ان کی پست کرداری کی دلیل ہے۔ پھر میں اپنی ان عظیم روایات کے تصور میں کھوگیا جن کے تحت عید تہوار پر شاپنگ کے لیے نکلی خواتین کو رش کا فائدہ اٹھاکر تنگ کیا جاتاہے اور نہ کالج جانے والی طالبات کو راستے میں پریشان کیاجاتا ہے۔ اس طرح اس احساسِ جرم سے مجھے نجات مل گئی جو ٹرین کی چھک چھک کے ساتھ مجھے کچوکے لگارہا تھا۔اس وقت مجھے احساس ہوا کہ ہماری وہ لیڈرشپ ہمارے لیے کتنی بڑی نعمت ہے جو اپنی ہر غلطی اور خطا کا ذکر آنے پر ہمیشہ دوسروں کی برائیاں نمایاں کرنے لگتی ہے۔یہ انداز فکر نہ ہو تو ہمارا ضمیر ہمیں مارہی ڈالے۔
کینیڈا: رنگ او ر موسم
میں امریکا کے لیے روانہ ہوا تو درخت مکمل طور پر گنجے تھے۔ امریکا پہنچا تو وہاں آمدِ بہار کا سماں تھا۔ درختوں پر کونپلیں پھوٹنے لگی تھیں۔ میرے مہینے بھر کے قیام کے دوران یہ درخت دیکھتے ہی دیکھتے ہرے بھرے ہوگئے تھے۔ میں جب واپس لوٹا تو کینیڈا میں بھی بہار اپنا رنگ جماچکی تھی۔ ٹورنٹو میں درختوں کی کثرت ہے اس لیے بہار کی اثر آفرینی امریکا کے مقابلے میں کہیں زیادہ محسوس ہورہی تھی۔ اس کا تاثر کچھ اس لیے بھی زیادہ تھا کہ خشک درختوں کی جن وادیوں کو میں چھوڑ کر گیا تھاواپسی پر ان میں سبزے کی وہ بہار دیکھی کہ آنکھیں ٹھنڈی ہوگئیں۔ ان لوگوں کا ارادہ تو یہ ہے کہ آنے والے سالوں میں ٹورنٹو کو پارک سٹی بنادینگے۔ یعنی اتنے درخت لگائیں گے کہ لوگوں کو اس کے پار ک ہونے کا گمان ہوگا۔ میرے حساب سے تو یہ ابھی بھی پارک سٹی ہے۔
اس خطے میں سارے موسم بھرپور طریقے سے آتے ہیں۔ صرف گرمی کا دورانیہ اور شدت ذرا کم ہوتی ہے۔ مگر یہ کمی ہمارے حساب سے ہوتی ہے۔ورنہ آپ اندازہ کریں کہ جو لوگ زیادہ تر منفی درجۂ حرارت میں رہنے کے عادی ہوں ان کے لیے تیس سے اوپر گرمی کا مطلب کیا ہوتا ہوگا۔ چنانچہ میں نے دیکھا کہ جیسے ہی گرمی اس مقام پر پہنچی لوگ اے سی، بیچ اور پول میں بالترتیب بیٹھ، لیٹ اور کود گئے۔ تاہم جب گرمی کا مختصر دورانیہ ختم ہونے کو آتا ہے اور خزاں کے سائے ڈیرے ڈالنے لگتے ہیں تو حسنِ فطرت کچھ اس طرح جلوہ گر ہوتا ہے کہ قلم اس کے بیان سے عاجزہے۔ میں یہ منظر براہِ راست خود تو نہیں دیکھ سکا البتہ تصویروں سے اور لوگوں کی زبانی اس کا جو نقشہ سامنے آیا وہ بے حد حسین تھا۔ آمدِ خزاں پر تمام درختوں کے پتے ، گرنے سے قبل، اپنا رنگ بدل لیتے ہیں۔ اس وقت یہ درخت سبزرنگ کی چادر اتاکر سرخ ، پیلے، گلابی اور کتھئی رنگ کا لباس اس تنوع کے ساتھ زیب تن کرتے ہیں کہ انسان دیکھے اور بے اختیارسبحان اللہ کہہ اٹھے۔
تھوڑے عرصے میں درختوں کی شاخیں پتوں کا بوجھ اٹھانے سے انکار کردیتی ہیں۔یہ پتے جھڑ جاتے ہیں اور ایک طویل وقت کے لیے برف کا سفید رنگ ہر چیزکی طرح ان درختوں کو بھی ڈھانپ لیتا ہے۔ سردی کے اس طویل وقفے کے بعد ، جس میں درخت ننگے رہتے ہیں اور انسان لدے پھندے، بہار لوٹ کر آتی ہے۔لیکن بہار کی آمد سے قبل ہی یہ لوگ خود پر بہار طاری کرلیتے ہیں۔ یہ درختوں پر زبردستی پتے تو نہیں اگاسکتے لیکن ہر جگہ گھاس کا سبز قالین بچھادیتے ہیں اور اس طرح بچھاتے ہیں کہ میں کوشش کے باوجود ٹورنٹو میں کوئی ایسا قطعۂ زمین نہیں ڈھونڈسکا جو سبز نہ ہو۔ میری نگاہیں مٹی کا رنگ دیکھنے کے لیے ترس گئیں۔ فٹ پاتھ اورسڑک کے علاوہ ہر جگہ گھاس لگی ہوئی تھی۔ یہ چونکہ میرے آنے سے ذرا قبل لگی تھی اس لیے میں عرصے تک اسے اگی ہوئی گھاس سمجھتا رہا۔ مگر بعد میں معلوم ہوا کہ یہ اگی ہوئی نہیں بلکہ لگی ہوئی گھاس ہے۔
اس کے بعد فطرت کے خاموش ہاتھ چپکے چپکے درختوں کو رنگوں سے سجانا شروع کردیتے ہیں۔ یہ رنگ سبز کے علاوہ سرخ ، سفید، گلابی وغیرہ بھی ہوتے ہیں۔ میں نے پھولوں کے رنگ تو دیکھے تھے مگر پتوں کے اتنے رنگ یہیں آکر دیکھے۔مجھے یہ بہار اس لیے بھی بہت پسند آئی کہ ساری زندگی میں نے کراچی اور جدہ کے گرم ساحلی علاقوں میں گزاری۔ جہاں تین ہی موسم آتے ہیں۔ بہت گرمی، کم گرمی اورچند دنوں کی سردی۔ جدہ میں تو یہ چند روزہ سردی بھی نہیں آتی۔ میں نے کبھی بہار کا روپ دیکھا نہ خزاں کی ویرانی۔
یہ بہار اپنی جگہ مگر مئی کے آخر میں جب دنیا بھر میں لوگ سردی کو الوداع کہہ چکے ہیں یہاں ابھی تک جیکٹس جان کا روگ بنی ہوئی ہیں۔ یہ جیکٹس سردی میں استعمال کی جانے والی اپنی بہنوں سے ہلکی ہوتی ہیں اور اصطلاحاً اسپرنگ جیکٹس کہلاتی ہیں۔ ویسے یہاں اسپرنگ میں جتنی سردی پڑتی ہے میں نے تو اپنی طرف سخت جاڑے میں بھی ایسا حال نہیں دیکھا۔ گو درجۂ حرارت پندرہ ڈگری تک آجاتا ہے مگر ٹھنڈی ہوا اس کی تاثیر کو لوگوں تک پہنچنے نہیں دیتی۔ یہاں جولائی اگست گرمی کے مہینے ہوتے ہیں جس کے بعد خزاں کے ساتھ ہی اسی بہار جیسی سردی اپنا ڈیرا ڈال دیتی ہے یہاں تک کہ شدید سردی کی لہر اسکی جگہ لے لیتی ہے۔
(جاری ہے۔ اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں)
( ابویحییٰ کی تصنیف ’’جب زندگی شروع ہوگی‘‘ دور جدید میں اردو زبان کی سب زیادہ پڑھی جانے والی کتاب بن چکی ہے۔انہوں نے درجن سے اوپر مختصر تصانیف اور اصلاحی کتابچے بھی لکھے اور سفر نامے بھی جو اپنی افادیت کے باعث مقبولیت حاصل کرچکے ہیں ۔ ان سے براہ راست رابطے کے لیے ان کے ای میل abuyahya267@gmail.com پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔)