خواجہ صفدر کے فرزند ارجمند کا انٹرویو
ہمارے بعض اینکر حضرات جب کسی ٹیلی ویژن پر اہم شخصیات کے ایک گھنٹہ یا اس سے بھی زیادہ دورانیہ کے انٹرویو لیتے ہیں تو ان اہم شخصیات کے بارے میں مکمل کوائف جمع نہیں کرتے۔ گزشتہ رات ایک نجی ٹیلی ویژن پر بجلی کے وزیر خواجہ آصف آئی ایس آئی کے سابق جنرل پاشا پر کافی برس رہے تھے اور بار بار خود کو جمہوری سسٹم کا متوالا اور پرانا مسلم لیگی کہہ رہے تھے تو مجھے کافی حیرانی بھی ہو رہی تھی اور پریشانی بھی۔ یہ ابھی کل کی بات لگتی ہے ، جب مارشل لاءکے زمانے میں جنرل ضیاءالحق نے مجلس شوریٰ بنائی اور اس کے لئے تمام سیاسی پارٹیوں سے اپنی اپنی پارٹیوں کی نمائندگی نہیں ،بلکہ صریحاً مارشل لاءحکومت کی نمائندگی کے لئے لوگوں کو چن چن کر لانے کا ٹاسک آئی ایس آئی اور سیالکوٹ کے مرحوم خواجہ صفدر کو دیا تو اُنہوں نے سرگودھا، ملتان، لاہور، گوجرانوالہ ڈویژنوں سے پی پی پی کے بھی بہت سے لوگوں کو نامزد کیا اور بہت سے کنوینشن لیگیوں کو بھی چنا گیا۔ ان میں نواب آف کالا باغ کے بیٹے اللہ یار خان، غلام حیدر وائیں، شاہد مہدی نسیم اور اس قبیل کے بہت سے ایسے رہنما نامزد کئے گئے جو جمہوریت جمہوریت کہتے کبھی تھکتے نہیں تھے، بلکہ غلام حیدر وائیں تو ایک مرتبہ وزیر اعظم کی میٹنگ میں اس بات پر ناراض بھی ہو گئے تھے کہ انہیں مجلس شوریٰ کا رکن نامزد ہونے کی وجہ سے غلام اسحاق خان کا ایجنٹ کیوں کہا جا رہا ہے۔ جنرل ضیاءالحق نے مجلس شوریٰ کے ارکان کو چاروں صوبوں سے چن چن کر لانے کا ٹاسک سیالکوٹ کے خواجہ صفدر مرحوم اور آئی ایس آئی چیف کے سپرد کیا تھا۔
ہمارے نوجوان ٹی وی اینکرز کو اس مجلس شوریٰ کی کارروائی سینٹ آف پاکستان کی لائبریری سے منگوا کر پڑھنی چاہئے تاکہ اُنہیں اندازہ ہو سکے کہ ان جغادری سیاسی ارکان نے مجلس شوریٰ کے اجلاسوں میں کیا کیا تقریریں کیں اور کس کس طرح جنرل ضیاءالحق کی آمرانہ حکومت کو سپورٹ کیا۔ میرا یہ ایمان ہے کہ جمہوری سسٹم میں یقین رکھنے والا کوئی بھی سیاسی رہنما جرنیل کی طرف سے خاص طور پر مارشل لاءکے دور میں مارشل لاءکی عدالتوں کے ہوتے ہوئے کبھی کسی قسم کی نامزدگی قبول نہیں کرے گا۔ آپ محترمہ بے نظیر کی آپ بیتی پڑھیں تو معلوم ہوگا کہ کب کب اُنہیں آرمی کی طرف سے وزیراعظم نامزد کرنے کی پیش کش ہوتی رہی۔ وزیر بجلی خواجہ آصف اپنے انٹرویو میں تحریک انصاف کے عمران خان پر آئی ایس آئی کی مدد سے 2013ءکا الیکشن لڑنے کا الزام لگا رہے تھے اور بتا رہے تھے کہ 2012ءسے ہی اُن کی جنرل پاشا کے ساتھ ڈیل ہو گئی تھی، لیکن اب تو اس الیکشن کو بھی سوا سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے اور تمام حکومتیں ،یعنی مرکزی اور صوبائی حکومتیں اپنے اپنے اطمینان کے مطابق مرکز اور صوبوں میں کام کر رہی ہیں ،لہٰذا وزیر محترم کو بھی اب آگے کی سوچنے پر تمام دھیان دینا چاہئے۔
ماضی کی طرف دیکھیں گے تو پھر ضیاءالحق کے صاحبزادے بھی اپنے ٹی وی انٹرویو میں بہت سے مسلم لیگیوں اور بہت سے پی پی کے جیالوں کی داستانیں سناتے دکھائی دیں گے۔ ماضی کو بھلا کر اور ان قصوں کو فراموش کر کے اگر ہمارے صوبائی اور مرکزی وزراءاپنے اپنے محکموں کو عوام کی خدمت کے لئے وقف کر دینے کی طرف توجہ دیں تو زیادہ بہتر اور مناسب رہے گا۔ شاید پارٹی کے لئے بھی یہی ضروری ہوگا کہ آپس کی بیان بازی کی بجائے ووٹروں کی طرف بھی دیکھا جائے اور اس رمضان میں اُنہیں جو جو پاپڑ بیل کر مہنگی اشیاءخریدنی پڑ رہی ہیں اور بھاری بھرکم بجلی کے بل دینے پڑ رہے ہیں، اس سے اُنہیں ریلیف دلوانا ہوگا۔ بجلی کے وزیر محض بجلی لا دیں تو وہ کافی نہیں، اصل بات سستی بجلی کی پیداوار ہے۔ تھرکول سے بجلی لائیں گے تو وہ چار روپے یونٹ کے حساب سے پڑے گی ،جبکہ چین یا بلجیم سے خریدیں گے تو وہ اتنی زیادہ مہنگی ہو گی کہ آپ 200 اور 300 یونٹ خرچ کرنے والوں کو بھی 16 روپے یا 19-18 روپے فی یونٹ نہیں دے سکیں گے۔
پاکستان میں بجلی کا مسئلہ 80 فیصد غریب لوگوں کے لئے ہے جو مہنگی بجلی خریدنے کی قطعاً سکت نہیں رکھتے، بلکہ اگر بجلی 16 روپے یونٹ رہی تو یہ 80 فیصد لوگ اپنے ہاں سے میٹر بھی کٹوا لیں گے اور 100 برس پرانے زمانے میں مٹی کے تیل کے لیمپ اور چھت سے ڈور کھینچ کر کپڑے کے پنکھوں پر واپس آ جائیں گے۔ ابھی ایک ٹیلی ویژن کے مزاحیہ پروگرام میں دکھایا جا رہا ہے کہ ایک غیر ملکی صنعت کار یہاں ہاتھ سے کھینچے جانے والے چھت کے پنکھوں کی صنعت لگانا چاہتا ہے ،جس سے ملک کے 80 فیصد گھرانے مستفید ہوں گے۔ وہ جو سارا سارا دن گھروں میں بے کار ہیں، وہ ہاتھ کی ڈور سے کمروں میں لگے ان چھت کے پنکھوں کو کھینچ کر ان سے گھر والوں کو ہوا دیں گے۔ نہ بجلی ہو گی نہ ہی بل آئے گا۔ ضرورت ایجاد کی ماں ہے۔ اگر واقعی ایسی کوئی ایجاد ہو گی تو یہ وزارت بجلی کے لئے تاریخ کا ایک بہت بڑا مذاق اور المیہ ہوگا۔ اس وقت بجلی کے وزیر کو پارٹی نہیں الگ کرے گی، بلکہ وہ خود ہی اس سسٹم سے الگ سمجھنے پر مجبور کر دیئے جائیں گے۔
خواجہ آصف کے بارے میں ویسے بھی لاہور میں جو بریفننگ چودھری نثار نے دے دی ہے اگر وہ سیانے ہیں تو پھر اُن کے لئے وہی کافی ہے۔ اشارہ تو انہوں نے سمجھ ہی لیا ہے۔ خواجہ آصف مسلم لیگی، مسلم لیگی کا الاپ نہ کریں تو زیادہ بہتر ہوگا۔ کل کلاں کچھ پتہ نہیں حالات کیا ہوں۔ خدا نہ کرے اگر کل کوئی اور ضیاءالحق آ گیا اور اس نے مارشل لا لگا کر خواجہ صاحب کو پیار سے آواز دے ڈالی تو اُنہیں بھاگتے ہوئے اس نئے جرنیل کی مدد کرنے کے لئے کہیں آگے نہ آنا پڑے۔ تب لوگ اُنہیں آج کے اس ٹی وی انٹرویو کی باتیں یاد کرائیں گے تو پھر انہیں خواہ مخواہ شرمانا پڑ جائے گا۔ ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ وہ بھی دوسرے سیاسی رہنماﺅں کی طرح شرم کو گھول کر پی جائیں کہ بالآخر اُنہیں نہیں تو اُن کی آنے والی اولاد کو تو کبھی نہ کبھی سیالکوٹ کے ووٹروں کے پاس ووٹ لینے بھی جانا پڑے گا۔
ابھی عید کے بعد بلدیاتی والے ووٹ تو نزدیک ہیں۔ آخر کب تک حکومت ان الیکشنوں کو روکے گی۔ 2008ءکے بعد اب چھ برس ہونے کو ہیں کہ لوکل گورنمنٹ اداروں کے یہ انتخابات منعقد ہی نہیں کرائے گئے ہیں۔خواجہ آصف اور عابد شیر علی نے پریس کانفرنس میں سحری افطاری کے اوقات میں بھی لوڈشیڈنگ پر عوام اور ووٹروں سے تو معافی مانگ لی ہے، ہو سکے تو اپنی کابینہ، پارلیمینٹ اور خود وزیر اعظم سے بھی معافی مانگیں تو زیادہ بہتر ہوگا ،کیونکہ جو صلواتیں اُنہیں لوڈشیڈنگ خصوصاً سحری، افطاری کے اوقات میں سننے کو ملتی ہیں، اُن میں تو ابھی تک کمی نہیں آ سکی، بلکہ آئے روزاضافہ ہی ہو رہا ہے۔ بس یوں سمجھیں کہ ان صلواتوں کے تواتر سے ہی ووٹ بینک میں مسلسل کمی آ رہی ہے اور مقبولیت میں یہ کمی کسی قسم کے اشتہاروں یا اعلانوں سے پوری نہیں کی جا سکے گی۔ خصوصاً اگر بجلی، گیس، پٹرول کے نرخ بھی بڑھتے گئے تو پھر خدا ہی حافظ! ٭