فرخ سہیل گوئندی اور لوگ در لوگ
فرخ سہیل گوئندی ایک پولٹیکل اور سوشل ایکٹویسٹ ، ادیب، دانش و ر اور تجزیہ کار ہیں۔ پیپلزپارٹی کے ابتدائی دور میں اس کی زلف ِ گرہ گیر کے اسیر ہوئے اور زندگی کا پرائم پیریڈ ( دو ر ِ شباب) اس جماعت کی نذر کر دیا۔ وہ عمر جس میں نوجوان عمومی طور پر کھلنڈرے ہوتے، جوانی کی ترنگ انہیں ہمہ وقت کسی نہ کسی ایڈونچر پر اکسائے رکھتی ہے۔ سنجیدگی پر جذبات غالب ہوتے ہیں ، نفع و نقصان یا سود و ذیاں کا احساس نہیں ہوتا۔ اس دور میں نوجوان فرخ سہیل گوئندی نے عملی سیاست میں قدم رکھا۔ان کا آئیڈیل ذوالفقار علی بھٹو اور چی گویرہ ایسے لیڈر تھے اور وہ ان کے زبردست فالو ور تھے۔
ان کی زندگی میں اہم ترین موڑ اس وقت آیا جب ذوالفقار علی بھٹو، جو ایک عوامی لیڈر کے طورپر مقبولیت کی بلندیوں کو چھو ر ہے تھے ، بیرونی سازش کا شکار ہو گئے ۔انہیں فوجی بغاوت کے ذریعے محروم اقتدار کر کے پابند ِ سلاسل کردیا گیا۔ ان کے حامیوں اور وفاداروں کو چن چن کر نشانہ ٗ عبرت بنایا جانے لگا۔ اس دور میں بڑے بڑے ’ وفادار ان ِ بھٹو ‘ اپنی جان بچانے کے لیے زیر ِ زمین چلے گئے یابیرون ملک فرار ہوگئے اور دوسرے ممالک میں سیاسی پناہ حاصل کرلی۔ التبہ جو ’’ سر پھر ے “ تھے وہ اسی دھرتی پر موجود رہے اور ظلم ، جبر اور فسطائیت کے خلاف سینہ سپر رہے۔
فرخ سہیل گوئندی نے بھی یہی راستہ اختیار کیا اور اپنے قائد ذوالفقار علی بھٹو کی گر فتاری اور پیپلزپارٹی پر پابندی کے خلاف سراپہ احتجاج بن گئے۔ وہ دوسرے ساتھیوں کے ساتھ مذاحمتی تحر یک میں شریک ہوئے اور اپنے سینئر رہنماوں شیخ رشید، ملک معراج خالد، محمد حنیف رامے ، راو رشید وغیرہ کی سرپرستی اور رہنمائی میں ملک کے مختلف شہروں میں احتجاجی تحریک منظم کرتے رہے اور آگے بڑھتے رہے۔ فرخ سہیل گوئندی کو اوائل عمری ہی میں ایسے ”بزرگ دوست“ میسر آ گئے جنہوں نے نہ صر ف ان کی ذہنی آبیاری کی بل کہ ان کی سوچوں اورفکر کو بھی مہمیز دی اور وہ نوجوان دانش ور بن کر سامنے آئے۔اپنی سیاسی جدوجہد کے دوران ان کی زندگی میں بہت سے نشیب وفراز بھی آئے ، انہوں نے بیرون ممالک کے اسفار بھی کئے اور جستجو اور تلاش کے اس سفر میں انہوں نے وہ کچھ پا لیا جو لوگ عمر یں گزار کر بھی حاصل نہیں کرپاتے۔
”لوگ در لوگ “ فرخ سہیل گوئندی کے انہی ایام کی سرگزشت ہے ۔اس میں پاکستان کی سیاست بھی ہے اور ثقافت اور تمدن بھی ، شخصیات کے خاکے بھی ہیں اور حالات و واقعات بھی۔ اہم شخصیات کی خدمات اور سرگرمیوں کا احوال بھی۔ان کا ماضی بھی اس میں جلوہ گر ہے اور آبائی شہر سرگودھا کی حالت ِ زار کا بیان بھی۔ وہ محض ” داستان گو “ نہیں ہیں قاری کو ضروری معلومات بھی بہم پہنچاتے ہیں۔ان کا اندازِ بیاں ایسا دلچسپ، سادہ ، سلیس اور رواں دواں اور پر لطف ہے کہ قاری ان کی انگلی پکڑے ساتھ ساتھ چلتا چلا جاتا ہے۔
کتاب میں مختلف اور متنوع موضوعات پر طبع آزمائی کی گئی ہے لیکن ان سارے متفرق اور متنوع موضوعات میں بھی ایک طرح کی یک رنگی اور ایک اکائی اور ایک کامن چیز بھی بڑی نمایاں طورپر دکھائی پڑتی ہے۔وہ انسانی رویے ہیں جنہیں بڑی خوبصورتی کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔یوں کتاب کے آغاز میں جو قاری کے ذہن میں ایک تاثر پیدا ہوتا ہے وہ کتاب کے اختتام پر برقرار رہتا ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ جیسے کڑی سے کڑی ملتی جارہی ہے اور کہیں بھی ربط ٹوٹنے نہیں پاتا،یہی اس کتاب کا حسن ہے۔ فرخ سہیل گوئندی دراصل دھرتی کا سپوت (Son Of Soil ( ہے۔اس کا یہ کردار پوری کتاب میں صرف زندہ ہی نہیں رہتا بلکہ اپنے وجود کا احساس بھی دلاتا رہتا ہے۔
جن تاریخ ساز لوگوں کا ذکر اس کتاب میں کیا گیا ہے وہ اپنے اپنے شعبوں کی بلند پایہ شخصیات ہیں، ان قد آور شخصیات سے فرخ سہیل گوئندی کی ملاقاتیں اور دوستیاں ان کی خداداد صلاحیتوں کا بین ثبوت ہیں۔ اپنے سے کہیں زیادہ عمر کے ان لوگوں ( خواتین وحضرات ) کے ساتھ ان کا میل ملاپ اور دوستیاں ان کی شخصیت کے اس پہلو کو نمایاں کرتی ہیں جو ہر کسی کے مقد ر میں نہیں ۔یہ دراصل ان کی جہد ِ مسلسل ، مطالعہ و مشاہدہ، فہم و ذکاء، تلاش و جستجو کے ساتھ ساتھ ان کے کردار و عمل کی شفافیت کا حاصل ہے۔جس پر ان کی جس قدر بھی تحسین کی جائے کم ہے۔ سیاست، تاریخ، تہذیب و تمدن، عمرانیات و سماجیات سے دلچسپی رکھنے والے ہر عمر کے افراد کے لیے یہ کتاب یقینی طورپر بڑی مفید ثابت ہوسکتی ہے۔
(شہباز انور خان کا شہرِ لاہورکے بزرگ صحافیوں میں شمار ہوتا ہے ،علم و ادب سے گہرا شغف رکھنے والے شہباز انور خان تین دہائیوں سے بھی زائد عرصہ سے اہم قومی اخبارات میں رپورٹنگ کی ذمہ داریاں سرانجام دیتے آ رہے ہیں ،فیڈ بیک کے لئے اُن کے موبائل نمبر 03208421657 پر رابطہ کیا جا سکتا ہے)
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں