سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیخلاف صدارتی ریفرنس مسترد کردیا

سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیخلاف صدارتی ریفرنس مسترد کردیا
سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیخلاف صدارتی ریفرنس مسترد کردیا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن) سپریم کورٹ آف پاکستان نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیخلاف صدارتی ریفرنس مسترد کر دیا ہے,جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی کارروائی روکنے کی  استدعا منظور کرلی گئی جبکہ جسٹس قاضی فائز کیخلاف شوکازنوٹس بھی واپس لے لیا گیا,جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کے خلاف ریفرنس کالعدم قرار دینا کا فیصلہ 10 ججز کاہے تاہم دیگر 3 جج صاحبان نے   جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی درخواست کوقابل سماعت قراردیاہے۔

عدالت نے مختصر حکم نامے میں ایف بی آر کو ہدایت کی ہے کہ وہ سات روز کے اندر فاضل جسٹس کی اہلیہ کو نوٹس جاری کریں، ایف بی آر کے نوٹس جج کی سرکاری رہائش گاہ پر ارسال کیے جائیں، عدالت انکم ٹیکس کمشنر فریقین کو موقع دے،  تاکہ وہ جواب دے سکیں اور فائنڈنگز جمع کرائی جائیں۔ عدالت نے حکم دیا کہ  ایف بی آر حکام فیصلہ کرکے رجسٹرار سپریم کورٹ کو آگاہ کریں،ہر پراپرٹی کا الگ سے نوٹس جاری کیا جائے،انکم ٹیکس 60 روز میں اس کا فیصلہ کرے،  عدالت اگر قانون کے مطابق کارروائی بنتی ہو تو جوڈیشل کونسل کارروائی کی مجاز ہوگی، چیئرمین ایف بی آر خود رپورٹ پر دستخط کرکے رجسٹرار کو جمع کرائیں گے۔ اطلاعات کے مطابق  مقبول باقر منصور علی شاہ آفریدی نے اضافی نوٹ لکھا  جبکہ یحیٰ آفریدی نے جسٹس قاضی کی درخواست ناقابل سماعت قرار دی۔ دس رکنی بینچ میں سے سات ججوں نے اکثریتی فیصلہ دیا۔

مقامی میڈیا کے مطابق  سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیخلاف صدارتی ریفرنس کی کارروائی رکوانے کیلئے آئینی درخواستوں پر سماعت کے دوران ایف بی آر نے قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ کا ٹیکس ریکارڈ سربمہر لفافے میں جمع کرایا۔ قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل نے بھی سربمہر لفافے میں دستاویزات پیش کیں۔جسٹس عمرعطا بندیال نے فروغ نسیم سے کہا کہ ابھی اس لفافے کا جائزہ نہیں لیں گے نہ ہی کوئی آرڈر پاس کریں گے، معزز جج کی اہلیہ تمام دستاویز ریکارڈ پر لاچکی ہیں، آپ اس کی تصدیق کرائیں۔

درخواست گزار کے وکیل منیر اے ملک نے جواب الجواب میں کہا کہ سمجھ نہیں آرہا کہ حکومت کا اصل کیس ہے کیا ؟ فروغ نسیم کے مطابق جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ آنے میں دیر کر دی، بد قسمتی سے فروغ نسیم غلط بس میں سوار ہوگئے، حکومت ایف بی آرجانے کے بجائے سپریم جوڈیشل کونسل آگئی، سپریم جوڈیشل کونسل کا کام صرف حقائق کا تعین کرنا ہے،ایف بی آر اپنا کام کرے، جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے اپنی اور عدلیہ کی عزت کی خاطر ریفرنس چیلنج کیا، چاہتے ہیں عدلیہ ریفرنس کالعدم قرار دے۔سپریم کورٹ بارایسوسی ایشن کے وکیل حامد خان نے سورۃ النسا کا حوالہ دیتے ہوئے دلائل دیئے کہ اسلام ہر مرد اور عورت کو جائیداد رکھنے کا حق دیتا ہے۔ سندھ بار کونسل کے وکیل رضا ربانی کا کہنا تھا کہ اثاثہ جات ریکوری یونٹ کو لامحدود اختیارات دیئے گئے، یونٹ کے قیام کے لیے کوئی قانون سازی نہیں کی گئی۔

خیبرپختونخوا بار کونسل کے وکیل افتخار گیلانی نے اپنے دلائل میں کہا کہ حکومتی ریفرنس بے بنیاد اور عدلیہ کی آزادی کے خلاف ہے، عدالت سے درخواست ہے کہ آئین کا تحفظ کریں۔ وکلا کے دلائل مکمل ہونے کے بعد جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ سوال یہ ہے کہ کیا ریفرنس مکمل خارج کر دیں، ہمارے لئے یہ بڑا اہم معاملہ ہے۔

منیر اے ملک نے اپنے جوابی دلائل میں کہا کہ افتخار چوہدری کیس میں سپریم جوڈیشل کونسل پربدنیتی کے الزامات تھے، فروغ نسیم نے کہا ان کا اصل کیس وہ نہیں جو ریفرنس میں ہے، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کبھی اہلیہ کی جائیدادیں خود سے منسوب نہیں کیں، الیکشن اور نیب قوانین میں شوہر اہلیہ کے اثاثوں پر جوابدہ ہوتا ہے، فروغ نسیم نے کہا جسٹس قاضی فائز عیسی نے سپریم کورٹ آنے میں دیر کردی، بد قسمتی سے فروغ نسیم غلط بس میں سوار ہوگئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ حکومت ایف بی آر جانے کے بجائے سپریم جوڈیشل کونسل آگئی، ایف بی آر اپنا کام کرے ہم نے کبھی رکاوٹ نہیں ڈالی، جسٹس قاضی فائز عیسی نے اپنی اور عدلیہ کی عزت کی خاطر ریفرنس چیلنج کیا، چاہتے ہیں کہ عدلیہ جسٹس قاضی فائز عیسی کے خلاف ریفرنس کالعدم قرار دے۔منیر اے ملک کا کہنا تھا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کے احکامات اور شوکاز نوٹس میں فرق ہے، سپریم جوڈیشل کونسل صدر کے کنڈکٹ اور بدنیتی کا جائزہ نہیں لے سکتی، کونسل کا کام صرف حقائق کا تعین کرنا ہے۔

جسٹس قاضی کے وکیل نے مزید کہا کہ وزیر اعظم کوکوئی نیا ادارہ یا ایجنسی بنانے کا اختیار نہیں، اثاثہ جات ریکوری یونٹ کی تشکیل کیلئے رولز میں ترمیم ضروری تھی، اثاثہ جات ریکوری یونٹ کےٹی او آرز قانون کیخلاف ہیں، باضابطہ قانون سازی کے بغیر اثاثہ جات ریکوری یونٹ جیسا ادارہ نہیں بنایا جاسکتا۔

منیر اے ملک کا کہنا تھا کہ جو ریلیف جسٹس قاضی فائز عیسی کو چاہیے وہ جوڈیشل کونسل نہیں دے سکتی، لندن جائیدادوں کی تلاش کے لیے ویب سائٹ کو استعمال کیا گیا، اس ویب سائٹ پرسرچ کرنے کیلئے ادائیگی کرنا پڑتی ہے، ان لائن ادائیگی کی رسید ویب سائٹ متعلقہ بندے کو ای میل کرتی ہے، جن سیاسی شخصیات کی جائیداد سرچ کی گئیں اس کی رسیدیں بھی ساتھ لگائی ہیں، حکومت رسیدیں دے تو سامنے آجائیگا کہ جائیدادیں کس نے سرچ کیں۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت کہتی ہے کہ دھرنا فیصلے پر ایکشن لینا ہوتا تو دونوں ججز کے خلاف لیتے، حکومت صرف فیض آباد دھرنا کیس کا فیصلہ لکھنے والے جج کو ہٹانا چاہتی ہے۔جسٹس قاضی فائز کے وکیل کے جوابی دلائل مکمل ہونے پر عدالت نے کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا جس کے بعد بینچ نے مختصر فیصلہ اب سے کچھ دیر قبل سنایا۔