پاکستان میں سول اور کرمنل جسٹس کے نظام میں اصلاحات وقت کی اہم ضرورت
پاکستان میں اس وقت نچلی سطح پر انصاف کی فراہمی کا نظام بےحد تضادات کا شکار ہے،موجودہ صورتحال انصاف میں تاخیر ، کرپشن،جانبداری،غیر پیشہ روانہ رویوں اور انصاف کی راہ میں رکاوٹوں کی وجہ سے سول اور کرمنل دونوں شعبوں میں اصلاحات کی متقاضی ہے،ملزمان کی مجرمان میں عدالتی ٹرائیل کے ذریعے تبدیلی کی شرح انتہائی کم ہے جسکی وجہ غیر معیاری تفتیش اور پراسیکیوشن کا علیحدہ نہ ہونا ہے اور ججز کی کمی کے ساتھ ساتھ جج کے معیارات میں کمی اور جاری تربیت اور نچلی سطح پر عدالتی نظام کو زمانہ جدید کے خطوط پر آراستہ نہ کرنا ہے،سول نظام تو بیٹھتا محسوس ہوتا ہے کیونکہ مقدمات سول جج کی عدالت میں سالوں چلتے ہیں ،ہم نے انہیں کسی وقت کا پابند نہیں کیا ،اصلاحات کی دھائی ضرور دی لیکن پارلیمنٹ میں اس موضوع پرسیرحاصل گفتگو نہ ہوسکی اورہوئی بھی تو سیاسی مقاصد حائل آئے اور وہ نتیجہ خیز نہ ہوئی۔ قانون تو بحث کے بعد ہی بنتے ہیں اور تو اور لا اینڈ جسٹس کمیشن کے ذریعے عدالتی اکابرین نے بھی مشوروں سے اجتناب ہی برتا،عدالتی بڑے ستر سالوں میں مثالی برتاؤ اور زیادہ عرصہ غیر جانبدار رہنے سے قاصر رہے یا یوں کہئے کہ انہیں رہنے نہیں دیا گیا اور انکے ساتھ ’یا ہمارے ساتھ ‘ اور ’ یا ہمارے خلاف‘ والا معاملہ رہا،نظام پے در پے سمت کا متلاشی رہا اور آئین ہونے کے باوجود اسکا تحفظ قومی کاز نہ بن سکا، رہی سہی کسر نیب نے پوری کردی۔
برطانیہ نے بھی سول نظام میں خرابیوں کو 1995 میں وولف ریفارمز کے زریعے سیدھا کیا ،اُنہوں نے کیس مینجمنٹ کا نظام متعارف کروایا جس سے ایک کاؤنٹی یا قصبے /ضلعے میں ایک ہی عدالت کے ذریعے جدید زرائع کے ساتھ مقدمات کا اندراج اور اخراج شامل تھا۔ اس تمام کاروائی کو چھ ماہ میں مکمل کرنے کا خودکار نظام وضع کیا، کیس سے پہلے کچھ شرائط لازماً قرار دیں ٹرائیل سے پہلے سمجھوتے کے امکان اور اسکے لئے ایک نظام کو متعارف کیا اور چھوٹے اور درمیانے اور بڑے مقدمات کے لئے گزارشات مرتب کیں اور انصاف کے حصول کے متبادل ذرائع کو استعمال کرنے کے لئے (اے ڈی آر ) آلٹرنیٹ ڈسپیوٹ ریزولیشن کا پورا باب طےکیا جس میں دونوں پارٹیوں کے درمیان مفاہمت ، سمجھوتہ اور صلح صفائی اور باہم رضامندی سے عدالت جائے بغیر مقدمات کا حل موجود تھا۔ہم ابھی تک ایسی اصلاحات کے پاس سے بھی نہیں گزرے، گرچہ ہمارا دیہی نظام پنچائت اسی اصول پر کار فرما تھا لیکن ہم نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے،کچھ عرصہ سے ہندوستان میں لوک عدالتوں کے زریعے چھوٹے مقدمات ایک دو پیشیوں میں حل کرنے کا نظام رائج ہے اور رواج پکڑ رہا ہے،برصغیر کے ممالک میں کیسوں کو لمبے عرصے تک لٹکاکرانصاف کی تاخیر انصاف کی نفی یا عدم دستیابی کے مترادف ہے۔
2018 میں پاکستان میں ایک تحقیق میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستانی عدالتوں میں 18 لاکھ سے زائد مقدمات فیصلوں کے منتظرہیں۔ قانونی ماہرین کے اندازے کے مطابق ایک مقدمے کا فیصلہ آنے میں اوسطاً مہینے نہیں سالوں درکار ہیں اور 10 سال سے زیادہ کا عرصہ لگ جاتا ہے، اعلیٰ عدالتوں میں اس وقت ججوں کی کل تعداد آسامیوں کی نسبت کم ہے۔ لاء اینڈ جسٹس کمیشن پاکستان کی تحقیق کے مطابق جنوری 2018 کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ سپریم کورٹ میں اس وقت بھی کیسوں کے فیصلوں میں تاخیر کی بڑی وجہ ججوں کی تعداد کی کمی اور ججز پر کام کا دباؤ ہے، ایک چھوٹے کورٹ کے جج کو دن میں 150 سے 200 کیسز سے نمٹنا ہوتا ہے جو کہ عملی طور پر ناممکن ہے جبکہ حالیہ برسوں میں وکلا کی جانب سے ہڑتال کا رجحان بھی مقدموں کے فیصلوں میں تاخیر کا باعث بنتا ہے۔صوبہ پنجاب میں دسمبر 2017 کے اختتام پر تقریباً دس لاکھ سول اور فیملی کیسز کا فیصلہ ہونا باقی تھا اور انھیں نمٹانے کے لیے صرف 938 ججز موجود ہیں جس کا مطلب ہے کہ ایک جج 1000 سے زیادہ کیسز کو دیکھ رہا ہے۔زرائع کہتے ہیں کہ لا اینڈ جسٹس کمیشن کی سفارشات کے مطابق اس صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے سول اور فیملی کیسز کے لیے ججوں کی تعداد کو بڑھا کر تقریباً 2000 کرنا ہوگا تاکہ ایک جج پر 500 مقدمات کی ذمہ داری ہو لیکن تنقید کاروں کے مطابق نظام میں ہول سیل اصلاحات لائے بغیر کیا ججز کی تعداد میں اضافہ معاملات میں بہتری لا سکتا ہے ؟ کیا یہ حل عارضی ہےیا مستقل بنیادوں پر جدید خطوط پر انفرمیشن ٹیکنالوجی سے آراستہ امداد لیکر اصلاحات آئینی اور قانونی اقدامات وقت کی اہم ضرورت ہیں؟۔
پاکستان کے فوجداری نظام کو دیکھا جائے تو اسکے بنیادی ڈھانچے میں خرابیاں سرائیت کر چکی ہیں اور مرض دائمی ہے، پاکستان پارلیمان کی منظوری سے فوجی عدالتوں کے ذریعے ملک دشمنوں کو تہ تیغ تو کر رہا ہی لیکن یہ انتظام بھی عارضی ہے،دیمک کی طرح چاٹتی خرابیاں نظام کو مفلوج کر چکی ہیں جسے ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔ معیاری ٹرائیل ایک خواب ہی بن گیا ہےاور اسں خواب کو حقیقت کا روپ دینے کے لئے قومی سوچ اور قومی اقدامات درکار ہیں ،عدالتی ٹرائیل آگر دیکھیں تو سیاست میں گھسے بغیر پاکستان کی چھوٹی سی تاریخ میں کسی نے انصاف ملنے کی تصدیق نہیں کی۔ 1956 سے 2017 تک، جسٹس منیر خان سے اب تک عدالتوں میں لوگ شکایت ہی کرتے رہے کہ مولوی تمیزالدّین کو انصاف نہیں ملا، نصرت بھٹو ضیاء کے مارشل لاء پر انصاف کی بھیک مانگتی رہیں، بھٹو کا ٹرائل عدالتی قتل ٹھہرا اور تو اور بے نظیر کے مقدمے میں اعلی عدالتی ججز کو ٹرائل کورٹ کے فیصلے میں بغض فائلز کے اُوپر تیرتا ہوا نظرآیا، نوازشریف عدالتوں سے نالاں تھے، رہے اور اب تک ہیں ۔ اب تو ’’پانامہ کی بجائے اقامہ پر کیوں نکالا ‘‘ بھی ایک دائمی اختلاف کی طرح انکے ساتھ ساتھ ہےاور عوام انکو سن بھی رہے ہیں لیکن وہ بھی انصاف کے نظام کے راستے کے مسافر ہیں اور اب اصلاحات کے داعی ہیں اور نظام عدل کی طرف پیش قدمی کر رہے ہیں اور2018 کے الیکشن میں عدالتی اصلاحات انکی پارٹی کے منشور کا اہم حصہ تھا۔
پی سی او ایک مکمل علیحدہ بحث ہے جسکا تدارک جمہوری نظام کی مضبوطی میں پنہاں ہے، 1999 کے مارشل لا کے نتیجے میں جسٹس سعید الزماں صدیقی کے بر عکس درجن بھر ججوں نے ڈکٹیٹر کا حلف لینے میں عافیت سمجھی لیکن کچھ اعلی عدالت کے جج اڑے رہے،جسٹس سعیدالزماں صدیقی، ناصر اسلم زاہد اور وجیہ الدّین جیسے نامی گرامی ججز اپنے اہل خانہ کے ساتھ اپنے گھر لوٹ گئے، جوں جوں سینئر جیورسٹ اسطرح کے طریقوں سے سائیڈ لائین کئے جاتے ہیں اسی طرح خوف سرائیت کر جاتا ہے اور ہر دفعہ ہنر تجربے اور خاصیت کو دھچکا لگتا ہے اور عامیت کے وارے نیارے ہو جاتے ہیں۔ ظفر علی شاہ کیس میں انصاف کے بر عکس ججوں نے فوجی ڈکٹیٹر کو آئین تبدیل کرنے کا وہ اختیار بھی دے دیا جس کی اُنھوں نے استدعا بھی نہیں کی تھی۔ چیف جسٹس افتخار چوہدری کو 9 مارچ 2007 کو نکالا گیا تو اُنھوں نے سپریم جوڈیشل کونسل پر عدم اعتماد کیا اور انصاف کے لئے سپریم کورٹ گئے۔اب مشرف صاحب بھی انصاف کی دہائی دے رہے ہیں اور بادی النظر میں اُنھیں پچھلی عدلیہ سے انصاف کی اُمید نہیں تھی اب ہے، یا نہیں انکی اپیلوں کی شنوائی تک اسکے لئے انتظار کرنا پڑے گا اگروہ کبھی عدالت میں آ گئے۔ مک مکا کی روایات اور ریمنڈ ڈیوس جیسے غیر دانشمندانہ مٹی پاؤ تجربات نے ہمارے نظام عدل کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ سابق وزیراعظم نواز شریف ایک دفعہ پھر عدالت کے شکنجے میں ہیں اور بار بار کی پیشیاں ایک سیاسی بیانیہ تشکیل دے رہی ہیں،زرداری صاحب،میرشکیل الرحمن،آدھی کے قریب سابقہ حکومت کی کابینہ اور قریبی سمجھے جانے والے احد و فواد سب انصاف کے نظام سے نالاں نظر آتے ہیں اور نیب کے ماضی کی خطرناک روائت کے عین مطابق اسلے کچھ عرصہ بعد تھکے جانےکی صورت میں ضمانت پر ہیں۔
ایسی صورتِ حال میں سیاستدان ہوں یا میڈیا گر ، آزاد فری اینڈ فئیر منصفانہ ٹرائیل سب کی خواہش تو ہے لیکن آرٹیکل 10 اے کی کسوٹی پر پورا اترتا ہوا ٹرائل ناممکن نہ سہی لیکن مشکل ہی نظر آتا ہے، وہ کوشش جس سے جگ ہنسائی کے علاوہ کُچھ نہ ملے ایک فریبِ نظر تو ہو سکتا ہے، مسائل سے توجہ ہٹانے کی میڈیا گری تو کہ سکتے ہیں لیکن اُسے انصاف کے تقاضے پورے کرتا مُنصفانہ ٹرائل کہنا دانشمندی نہ ہو گا۔ ایسا ٹرائل جس کا استغاثہ اور جج ویڈیو ٹیپ کے زریعے جکڑا ہو ، ٹرائل کی اعلی جاتی نگرانی بھی ہورہی ہو قانونی نکات اور قباحتوں سے بھرپور تجرباتی سیریز تو ہے کسی بھی طور پر اعتماد سے بھر پور کاروئی نہیں،ہم نے وزیرِاعظموں کے ٹرائل میں پہلے بھی قابل تقلید روایات نہیں چھوڑیں اب بھی ہم اپنے ماضی کے سائے میں پناہ گزیر ہیں۔
ٹرائل اچھا نہ ہونے کی کوئی ایک وجہ نہیں ہے،یہ خرابی ججز کی کمی کے ساتھ ساتھ ، تفشیش کاروں اور استغاثہ کے مابین کمانڈ اینڈ کنٹرول کا تناؤ اور اتحادکی کمی ، اور ایک دوسرے کے محکمے سے حقیقی علیحدگی اور آپسی ادارہ جاتی رابطے کے بہت بڑے فقدان کی وجہ سے ہے۔ استغاثہ کے طریقہ کار کو فوری توجہ اور بہتری کی ضرورت ہے۔سب سے پہلے پاکستان کو پولیس سےآزاد ایک ایسے پراسیکیوشن کے محکمے کی ضرورت ہے جسکا اپنا صوبائی اور قومی ڈائریکٹوریٹ ہو، بھرتیوں ، نگرانی اور رہنمائی کا خود مختار نظام ہواور اس میں تربیت یافتہ پیشہ ور وکلاء بھرتی کئے جائیں جنکا اپنا ایک نظام ہو اور وہ ہر مقدمے کے مرض اور کمزوریوں کا بر وقت جائزہ لیں،موجودہ نظام انتہائی غیرمنّظم ہےاورتفتیش کار اپنی اچھی اور بری تفتیش پربضدہوتےہیں اوراستغاثہ اسکاغیرضروری دفاع کرنےپرمجبور ہیں حالانکہ آزاد پراسیکیوشن اگر ملزم کے خلاف مقدمے میں ناقص تفتیش کے باعث جرم ثابت کرنے کے قابل نہ ہوں تو ایسے مقدمات کو ادارہ جاتی کاروائی کے ذریعے فارغ کرنا چاہیے تاکہ انصاف کے نام پر استحصال اور انصاف کی راہ میں رکاوٹیں نہ ہوں ،سو ریاست اور ملزم کے وقت پیسے کا ضیاع روکا جا سکے اور ادارہ جاتی بدنامی سے بھی بچا جاسکے۔
سیاسی جماعتوں کا نظریہ اور اپنی اپنی پارٹی کی نظریاتی تقسیم قانون کی حکمرانی کو فروغ دینے، مُنصفانہ مقدمہ چلانے اور آزادانہ فردِ جُرم عائد کرنے کو مسترد کرنے جیسے عوامل کی کارکردگی کو متاثر کرتی ہے جن پر سمجھوتا نہیں کیا جانا چاہیئے۔ پاکستان میں ریاستی پراسیکیوشن سروس کی ضرورت ہے جو آزادانہ پراسیکیوشن کو یقینی بنائے، فوجداری تحقیقات پر نظر رکھے اور جُرم کے خلاف حقیقی جنگ کو ناقص، غلط اور غیر محفوظ تحقیقاتی طریقہ کار سے علیحدہ رکھے اورایسے کیسز کو آگے لے جائے جن پر فردِ جُرم یقینی بنانے کے ذیادہ سے ذیادہ امکانات ہوں۔ مقننہ انتظامیہ اور لا اینڈ جسٹس کمیشن کو تفتیش سے آزاد پراسیکیوشن سیٹ اَپ کی ضرورت کو سمجھنا چاہیئےاور اسکے لئے پالیسی ساز فیصلوں کی اشد ضرورت ہے۔
ملکی سلامتی کی ضروریات بدلتی رہتی ہیں۔ ہم روز جنگ کے دہانے سے مڑ کر آتے ہیں۔ یہ کیمیائی ہتھیاروں ن اور سائینسی سائبر حملوں کا دور ہے۔ ان ٹینکوں کی لڑایا ں شاید کم ہی ہوں ۔اب تو دشمن کو ڈینگی جیسا تحفہ دینے کی نئی روش کا زمانہ ہے۔اگر کرونا کے دس مریض آپ کے ملک میں داخل ہوجائیں تو وہ ایک چھوٹی جنگ جتنا نقصان پہنچانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ایسے خطرات سے نپٹنا ہی اصل چیلکنج ہے۔ ایسے میں جدید خطوط پر آراستہ ہونے کی ضرورت ہے۔ دہشت گردی کے مقدمات میں بھی سزا پانے والوں کا تناسب انتہائی کم اور خطرناک ہےاور فوجی عدالتیں کسی بھی طور پر مکمل یا حتمی حل نہ ہے۔ نیکٹا کے تحت قانون نافذ کرنے والے سول اداروں کو بھی جانچ پڑتال کے وسیع اختیارات دینے چاہئیں جو کہ دہشت گردی جیسے بڑے مسائل سے نبرد آزما ہوں اور حملوں سے بچنے کے لیئے ایک مربوط طریقہ کار کے تحت ایک دوسرے کے لیئے معاون ہو اور خدانخواستہ اگر حملے ہوتے ہیں تو ملوث افراد کی کھوج لگانے اور انھیں گرفتار کرنے میں مُستعد کردار ادا کرے۔
ضرورت اور خطرات کے متناسب فوج ، پولیس اور انتظامی افسران پر مُشتمل نیشنل سیکیورٹی ڈیپارٹمنٹ اور ڈیٹا کولیکشن سنٹر وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ جسکا بنیادی مقصد ممکنہ خطرات کا پتہ لگانا اور پھرمشترکہ کام کرنا ہو۔ملزمان پکڑنے کے بعد انکا ٹرائیل ایک چیلنج ہے جسے مل کر قبول کرنا ہوگا۔انسدادِ دہشت گردی کی خصوصی عدالتوں کے ججز کو سیکیورٹی کی کمی جیسےسوالات کاسامناہےاور سب سے بڑھ کر گواہ کا تحفظ اور اسکی حفاظت نہ ہونے کے برابر ہے اور اس بات کے بھی شواہدملتےہیں کہ بعض مقدمات میں دہشت گردی کےالزام میں گرفتارمبینہ ملزم کو دن دیہاڑے عدالت کےاحاطے میں سے دہشت گرد پولیس کے ہاتھوں سے ملزم چھین کر فرار ہو جاتے ہیں۔ سب سے بڑھ کر برطانیہ اور امریکہ کی طرح یہاں بھی ہماری انٹیلی جنس کمیونٹی کی ہائی کمان بھی اپنی انٹیلی جنس اکٹھی کرنےکےطریقہ کارپرسمجھوتا کرنے سےبچنےاور ایک دوسرے پرعدم اعتماد کی وجہ سے انٹیلی جنس کی خبریں،مُخبروں کی رپورٹ اورحساس شبہات کو شئیر کرنے سے ہچکچاتے ہیں یامُجھے یہ کہنا چاہیئے کہ وہ جس قسم کے شائق سسٹم میں کام کررہےہیں اس کی تمام ممکنہ کمزوریوں سے آگاہ ہیں۔ ان تمام معاملات کو مدّ ِ نظر رکھتے ہوئےہمیں اپنےموجودہ نظام میں اصلاح لانا چاہیےتا کہ ہم موَثر کاروائی کے ذریعے سزا کی شرح کو دوگُنا کرنے کے قابل ہوں اور گھناوَنے جرائم اور دہشت گردی میں ملوث افراد کو آزادانہ سزا دینے کے ساتھ ساتھ اس کے ماسٹر مائنڈ تک بھی پہنچ سکیں۔
ابھی توپاکستان فوجی عدالتوں کےایک عارضی انتظام کےخطرےسےنپٹ رہاہےلیکن کسی بھی خطرناک ملزم کاٹرائل ہمارےموجودہ نظام کی صلاحیت اور کامیابی پر سوال اُٹھاتا ہے اور وہ اسی طرح کی قابلیت استعداد اور عدالتی ڈھانچے کا متمنی ہے جس طرح کا خطرے کا لیول ہے،یہ موضوع سیاسی اختلافات سے بالاتر ہوکر تجربے کرنے کی بجائے سسٹم کی جانچ پڑتال اور مکمل اصلاح کا مُتقاضی ہے۔
اسلامی معاشرہ انصاف کی گھر کی دہلیز تک فراہمی کا داعی ہے،سستا ، فوری اور بروقت انصاف عوام کی دہلیز پر ،ووٹ کے لئے اچھا نعرہ تو ہے ہی لیکن اگر کوئی کچھ کرنا چاہے تو خدمت خلق کا عمدہ زریعہ بھی ہے،کسی بھی معاشرتی اور اخلاقی طور پر عمدہ اور مضبوط نظام مملکت میں عدالتیں اپنا دروازہ بند نہیں کرتی اور انصاف کا کوئی مقررہ وقت نہیں ہوتا اور جہاں پسے ہوئے طبقوں کی بھر مار ہو وہاں تو ہر وہ قدم اٹھانا چاہیے جس سے سستا فوری اور منصفانہ انصاف ممکن ہوسکے، مغرب نے بہت پہلے از خود نوٹسز سے جان چھڑالی تھی جس سے 1215 کے میگنا کارٹاکے مطابق ہائی شیرف کے اعلی عدالتی اور انتظامی ماورائے پارلیمان اور عدالت کسی طاقت کا تاثر ابھرتا تھا۔اب برطانوی نظام عدل میں سپریم کورٹ میں از خود نوٹسز کا تصور ہی نہیں ہے اور ہائی کورٹ میں ایک پٹیشن کے ذریعے کوئی سائل رجوع کرسکتا ہے لیکن ہائی کورٹ بھی ازخود نوٹس سے ماورا ءہے تاوقتیکہ عدالتی حکم پر عمل درآمد میں تاخیر یا حکم عدولی ہو ۔
توہین عدالت کو مقدمات کے فیصلوں پر عملدرآمد تک محدود رکھا گیا اور شخصی آزادیوں عوام میں آزادی رائے کو اہم مقام دیا ہےتو کہ انسانی حقوق کے کنونشن کی شق 10 کے عین مطابق ہے،پاکستان میں ازخود نوٹسز اور انکی رفتار وقت اور جج کے مزاج کے ساتھ بدلتی رہتی ہے اور طاقت جسکی جواب دہی نہ ہو وہ کتنی بھی اچھی ہو وہ خطرناک اور بگاڑ کا باعث ہو سکتی ہے۔دو سو روپے کی پٹیشن ، ازخود نوٹس ، نیوز پیکج یا ٹیلیویژن پر چلتے ٹکر سے جب کام چل سکتا ہے اور وزیراعظم تک کو الیکشن کمیشن اور پارلیمان میں عدم اعتماد کےبغیرگھربھیجناممکن ہےتوانصاف کےتقاضے،شفاف طریقہ کاراورتحمل جگہ کھوناشروع کردیتا ہے جو کہ لمحہ فکریہ ہے، میری رائے کے عین مطابق دو سابقہ چیف جسٹس کا دور ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ آرٹیکل 184 کی ذیلی شق 3 کے تحت از خود کاروائی پر اپیل کی عدم دستیابی اور انتظامیہ کو جواب دہی کے لئے مناسب وقت دینے کے لئے جائز مطالبہ ہے۔ ایسے نوٹسز کے قانون پر عمل درآمد کے لئے اس پر نظر ثانی اور فل کورٹ کے زریعے گائیڈ لائین مقرر کرنا بروقت ہوں گی ۔ اپیل کے حق کو مقدم اور موجود رہنا چاہیےاور پارلیمان کو بھی اس موضوع پر سیر حاصل گفتگو کرنا چاہیے تاکہ متوازی حکومت اور پارلیمان سے بالا بالا جواب دہی کا تاثر زائل ہوسکے۔اعلی عدالتوں میں تعیناتی کا طریقہ کار بھی بحرحال پارلیمان کو طے کرنا چاہیے اور اس کام کے لئے اگر خود مختار کمیشن بھی تشکیل دیا جائے تو بہتر ہوگا۔سپریم جوڈیشل کونسل اپنے بننے سے لیکر اب تک ایک بھی جج کا اوپن ٹرائیل نہیں کرسکا اسکا ایک ہی مطلب ہے یا تو ججز فرشتے ہیں اور ان میں غلطی کی گنجائش نہیں یا ججز کے احتساب کا نظام ناقص اور موجودہ وقت کی رفتار کے مطابق موزوں نہیں ہے۔پارلیمان کو دیکھنا ہوگا اور ایسی شکایات کو چھ ماہ میں مکمل کرنے کا حدف طے کرنا ہوگا کیونکہ ایسے افراد کو سالوں ایسے فیصلے کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتے جن کو کرنے کے وہ بادی النظر میں اہل نہ ہوں۔پارلیمان کیونکہ خودمختار ہے اسلئے وہ عدلیہ کی آزادی اور خود مختاری کو مد نظر رکھتے ہوئے اصلاحات کا نظام وضع کر سکتی ہے اور یہ بھی ممکن ہے کی مقننہ انتظامیہ اور عدلیہ کے سربراہان کو نکالنے کا ایک جیسا ہی طریقہ وضع کیا جائے تاکہ پارلیمان خود مختار رہے۔
تاریخ کا ایک قیمتی سبق ہے کہ ہم تاریخ سے کچھ نہیں سیکھتے، ہمارے بابا رحمتے طاقت کے کوڑے سے موجودہ نظام کو چھینٹے مار مار کر کچھ وقتی فیصلے نکال تو سکے ہیں لیکن وہ نظام کا متبادل ن ہوسکا اور پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا۔ اب انکے ڈیم فنڈ میں فنڈڈالنے کے لئے کوئی ڈیم فول موجود نہیں تو جناب ثابت ہوا کہ کرسی کو سلام ہے۔ ہم حضرت عمر رضی اللہ تعالی کے دور میں نہیں بلکہ آصف زرداری، عمران خاں ،جنرل مشرف ،نواز شریف ، اور جسٹس ثاقب نثار کے دور میں رہ رہے ہیں جہاں کسی سے کچھ بھی توقع کیا جا سکتا ہے۔طاقتور چیف جسٹس افتخار چوہدری بھی مفاد عامہ کے تحت اس طاقت کےبے لگام گھوڑے سے بے انصافی کے عفریت پر مکمل قابو نہ پا سکےاور بحالی کے بعد بھی 3 نومبر 2007 کو پھر ایمرجنسی لگ گئی،پھر بھی ماننا چاہیے کہ انہوں نے لاءاینڈ جسٹس کمیشن کے ذریعے نئی جوڈیشل پالیسی دی اور عدلیہ کو انتظامیہ سے الگ کرنے کی کوشش کی جو کہ باوجود ریٹرننگ آفیسرز کے الیکشنز کی وجہ سے انتظامیہ کے ساتھ تضادات اور تنازعات کا شکار بنی لیکن اس پر عمل ہوا اور غالباًُ ابھی بھی ہو رہا ہے۔
تجربہ یہ کہتا ہے کہ ایک وزیراعظم کا عدالتی قتل ہوا ایک کو جلا وطن کیا ، ایک پنڈی کی سڑکوں پہ بے دردی سے ماری گئی اور آخری وزیراعظم پانامہ کے قضیے میں اقامہ پر چٹکی بجاتے گھر بھیج دیا گیا،قوم طالع آزماؤں کی سات نکاتی کرپشن مکاؤ مہم کے ذریعے آنیاں اور عدلیہ کو پی سی او کے ذریعے رام کرنے کی ہوشیاریاں اور ڈکٹیٹرز کی کرپشن اور ہزاروں کرپٹ افراد کو قومی مصالحتی آرڈیننس کے زریعے عام معافی کے ذریعے جانیاں بغور دیکھ چکی ہےاور عوام کی اجتماعی دانش کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔نیب کے قانون پر بات کرنا وقت کا ضیاع ہے کیونکہ موجودہ قانون غیر منصفانہ غیر مساوی اور انصاف کے بین لاقوامی اصولوں پر پورا نہیں اترتا اسے جلد داخل دفتر کرنا چاہیے اور ایک قانون ہی سب کے لئے ہونا چاہیے اور یکساں احتساب سب کے لئے کے لئے قومی جہت کی ضرورت۔ دو وزیراعظم گھر بھیجے گئیے لیکن سوئٹزرلینڈ کے اکاؤنٹ کی رقم کو کوئی مائی کا لال پاکستان نہیں لا سکا۔ستم ظریفی دیکھئے کہ جس جج نے عدالتوں میں سزا دی اسی جج نے اٹارنی جنرل کے طور پر سوئس حکام کو باور کروانے کی کوشش کی کہ جنرل مشرف اکاؤنٹ ہولڈرز کو بے گناہ گردانتے ہیں اور انہیں کلین چٹ دے دی جائےتاکہ موصوف صدارتی الیکشن لڑسکیں اور ایسے ایسی قانونی وارداتیں قوم پر مسلط کی گئی ہیں کہ لکھنے کے لئے کتابیں درکا ر ہوں گی۔اسی لئے احتساب سب کا قومی نعرہ ہے لیکن اس کے لئے ماحول قانون سازی اور سازگار حالات درکار ہیں لیکن یہ سب واقعات مل کر بھی لاکھوں بیک لاگ کیسوں میں کمی کا باعث نہیں بن سکتے۔میثاق جمہوریت ایک اچھا آغاز تھا لیکن بات اب ملک میں بڑے میثاق کی متمنی ہے ایک ایسا چارٹر جو آئین اور ملک میں قانون کی حکمرانی کی حفاظت کرے ، جو لوگوں کیساتھ انصاف کرے اور پاکستان میں نظام کی سمت کا تعین کرے۔ جب سمت طے کرلے تو اس پر عمل کرے اور اسں پر عمل کروائے،جہاں مقننہ انتظامیہ اور عدلیہ آئینی فریم ورک کے تابع ہوں اور رہیں اور کوئی ماورائے آئین قانون اور عدالت اقدامات کرنے کی جرات کو شش اور ایسا اقدام کرکے کسی بھی قسم کے خوف اور قانون کے بندش سے آزاد نہ ہو۰ بحرالحال بحث سمیٹتے ہوئے یہ طے ہے کہ سول اور کرمنل نظام انصاف میں بہت ساری اصلاحات کرنے کی اشد ضرورت ہے۔یہ تجاویز لا اینڈ جسٹس کمیشن بھی دے سکتا ہے اور پارلیمان اپنی دانش کا استعمال کرتے ہوئے دوسرے مروجہ نظاموں کو دیکھتے ہوئے عصر حاظر کے تقا ضوں کے مطابق ایسی آئینی اصلاحات قانون سازی اور پالیسی ساز فیصلے کر سکتے ہیں جس سے نظام انصاف ، صاحب انصاف اور اسکی فراہمی کے نظام میں نیوکلیائی تبدیلیاں وقوع پزیر ہوسکیں۔یہ بات طے ہے کہ پانچ لاکھ کی مالیت اور چھ ماہ کی سزا تک کے چھوٹے کیسز ایک سے تین پیشیوں میں پایہ تکمیل ہونے چاہیے،لوگ انصاف کی راہ تکتے تکتے نسلیں گنوا بیٹھے ہیں،احتساب سب کا ایک قومی مطالبہ بنتا جا رہا ہے اور جوں جوں قومی اکابرین کٹہرے میں ہوں گے وہ ایک دوسرے کے احتساب کا بروقت کھرا اور کڑے احتساب کا مطالبہ کریں گے۔اس وقت سے پہلے اصلاحات لانا ہوں گی تاکہ عدم انصاف کا احتمال نہ رہے ،پارلیمان کو ان قومی آئینی اور قانونی اصلاحات کے لئے اقدامات کرنا ہوں گے ، چیف جسٹس لا کمیشن کے ذریعے تجاویز اور حل پیش کریں،عوامی نمائیندگان ، وکلا تنظیمیں بار کونسلز اور بار ایسوسی ایشنز ، سول سوسائیٹی، ہیومن رائیٹس کمیشن ، میڈیا اور قانون دان آئین ساز اور ماہرین کو اس سلسلے میں تمام شراکت داروں کے ساتھ مل کر نظام میں وہ تبدیلیاں تجویز کرنا ہوں گی جس سے ان لاکھوں کیسوں کو سالوں کی بجائے مہینوں میں نپٹایا جا سکے،لوگ انصاف کے حصول کے لیے در در ٹھوکریں نہ کھائیں اور سستا فوری اور مکمل انصاف انکے گھر کی دہلیز تک پہنچایا جاسکے۔اصلاحات کے لئے کسی بھی نظام کو دیکھا جا سکتا ہے،چاہے امریکن نظام یا وولف اصلاحات پر مبنی برطانوی طرز انصاف ہو یا ہندوستانی لوک عدالتوں کا ماڈل اور یا ہمارا تاریخی ثقافتی اور حقیقت پسندانہ پنچایتی ماڈل ، بات انصاف کی فراہمی کی ہے۔باتوں سے لاکھوں کیسز میں کمی ناممکنات میں سے ہے اور اسں کے لئے سیاسی فیصلہ سازی ، ٹیم ورک ، عدالتی صاحبان اور انکی سروس استعمال کرنے والے 200 ملیئن عوام کی رائے اور اسکا احترام اور کام کام اور بس کام کی لگن درکار ہے۔قائدِ اعظم کا پیروکار ہونے کے ناطے اتنا کہوں گا کہ برداشت میں ہی قوم کی فتح ہے اور عدالتی اصلاحات وقت کی اہم ضرورت اور قومی و عوامی تقاضا ہیں، اب وقت آگیا ہے کہ “ظلم بچے جن رہا ہے کوچہ و بازار میں عدل کو بھی صاحب اولاد ہونا چاہیے۔
(بیرسٹرامجد ملک برطانوی وکلاءکی تنظیم ایسوسی ایشن آف پاکستانی لائرز کےچئیرمین اوربرطانیہ میں انسانی حقوق کا سن 2000کے بہترین وکیل کا ایوارڈ رکھتے ہیں , وہ ہیومن رائیٹس کمیشن اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن پاکستان کے تا حیات ممبر ہیں)
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔