بابا ٹل……اوردوسرا منگتا

  بابا ٹل……اوردوسرا منگتا
  بابا ٹل……اوردوسرا منگتا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


 ویسے توبابا ٹل اثر چوہان صاحب کی تحریروں کاٹریڈ مارک ہے۔ کوئی ٹلاں والا بابا بھی ہوگا۔ ہم آپ کو حقیقی کردار بابا ٹل سے ملواتے ہیں۔ ہمارے گاؤں کے قریب پکی سڑک بننا شروع ہوئی۔ مزدوروں کی نگرانی پرٹھیکیدارکا ملازم مامور تھا۔ شام کو مزدور اپنے گھروں کو لوٹ جاتے سوائے اس پانچ فٹ قدکے بزرگ شخص کے۔ اس کی عمر ساٹھ سال سے اوپر ہو گی۔ اس نے گاؤں سے کچھ فاصلے پر سرکاری متروکہ ٹیوب ویل کی عمارت کو مسکن بنا لیا۔ سڑک مکمل ہوگئی۔ یہ شخص وہیں ویرانے میں ڈیرہ زن رہا۔ گاؤں کے لوگوں سے اس کی علیک سلیک زیادہ ہوگئی تو اس نے ٹیوب ویل کے کمرے سے اپنا بوریا اٹھایا اور گاؤں چلا آیا۔ جہاں ایک خالی گھر کی بیٹھک اسے مل گئی۔ وہ اپنے بارے میں کسی کو کچھ بھی بتانے کو تیار نہیں ہوتا تھا۔ شروع میں نام بتانے سے بھی گریز کرتا رہا جس پرکسی مخولیئے نے اس شخص کو بابا ٹل کہہ دیااور یہی اس کا نام پکا ہوگیا۔
گاؤں آیا تو اس نے معمولی سے قطعہ اراضی پر جوچند مرلے کا تھا۔سبزیاں اگانا شروع کر دیں۔ یہی اس کے روزگار کا ذریعہ تھا۔ وہ اپنی روٹی خود بناتا۔ کبھی کسی کے گھر سے کھانا آگیا تو قبول کرلیا مگر وہ کبھی کھانا آنے کی امید میں نہیں رہتاتھا۔ بچے جوان بڑے چھوٹے اور خواتین سب اسے بابا ٹل کہتے۔آہستہ آہستہ وہ لوگوں میں زیادہ گھل مل گیا تو اپنا نام عنایت بتایا۔وہ کہاں سے آیا، کیوں آیا، واپس کیوں نہیں جاتا؟ اس کا کسی سے اصرار کے باوجود بھی تذکرہ نہیں کیا۔بابا ٹل گاؤں میں پندرہ سولہ سال رہا۔کبھی کبھی اس کی بھی طبیعت خراب ہوتی مگر اتنی نہیں کہ راہی ملک عدم ہونے کا اندیشہ لاحق ہو، مگر ایک بار زیادہ ہی بیماری کے چنگل میں پھنسا اور دارِ فانی سے کوچ کر گیا۔ بھلا شخص تھا۔ تکفین و تدفین کی تیاری ہونے لگی کہ میاں رشید نے یہ کہہ کر سب کو چونکا دیا کہ اسے معلوم ہے بابا ٹل کہاں سے آیا تھا۔ میاں رشید کا گھر بابا ٹل کی بیٹھک کے قریب تھااور میاں صاحب قریب ہی واقع چھوٹی مسجد میں امام تھے۔


 بابا ٹل کا آبائی گھر اسی علاقے میں چالیس پچاس میل دور ہوگا۔ وہاں اطلاع کر دی گئی۔ اس کے عزیز رشتہ دار آئے۔ میت لے گئے۔ انہوں نے بتایا کہ اس کا اپنی بیوی سے بیٹی کے معاملے میں جھگڑا ہوا تھا۔ دونوں نے اس سے بدتمیزی کی۔ دھکا شکا دیا تو اس کے بعد سے یہ گھر سے اور گاؤں سے ایسا نکلا کہ نہ خود واپس گیا نہ تلاش کرنے کے بعد انہیں کہیں ملا۔ یہ تھی بابا ٹل کی کہانی۔
گاؤں کے مزید بزرگوں بابوں کی بات کریں تو قبرستان میں ڈیرہ جمانے والا ایک ملنگ گزرا ہے۔ اسے سب بابا جی کہتے تھے۔ وہ کہاں سے آیا کب سے یہاں تھا۔ اس بارے میں ”تاریخ“ خاموش ہے۔تقسیم سے قبل یہ سکھوں کا گاؤں تھا۔ گرودنواح میں مسلمان ڈھاریوں (چند گھروں پر مشتمل بستیوں) میں رہتے تھے۔ یہ قبرستان ان کے لیے تھا۔ اس کے ایک طرف شمشان گھاٹ تھا جہاں اب سکول کا گراؤنڈہے۔ تقسیم کے بعد ہمارے بڑے اس گاؤں میں آئے۔ یہ ملنگ باقیات میں موجود تھا۔ اس کا سر جھٹکوں سے مسلسل ہلتا رہتا۔سال میں دو عرس کرواتا۔ عرس کے اخراجات وہ گھر گھر جا کر مانگ کر اکٹھے کرتا۔ جمعرات کو چراغی کے نام پر اسے مکھن بھی دیا جاتا۔وہ زمین پر لاٹھی ذرا زور سے ٹیک کر چلتا۔ دروازے پر لاٹھی سے ہلکی سی دستک دیتا اور کہتا۔ اللہ بھلا کرے۔ یہ ایسافقیر تھاجسے گاؤں میں کبھی کسی نے ”معاف کر“ نہیں کہا۔ عموماً اسے آٹے کی مٹھی دی جاتی تھی۔ وہ ایک دن چھوڑ کر آتا۔ اس کی ملنگنی مر گئی تو اس نے دوسری ملنگنی کر لی۔ ایک بار چورگھر میں گھس آئے۔ مائی کی بالیاں بھی اتروا لیں۔ کانوں سے بالیاں اتار کر ایک چور کو پکڑاتے ہوئے مائی نے کہا ”پتر ایہہ لے کل دو روپیاں دیاں ہور لے آساں“۔ یہ سن کر چور نے بالیاں وہیں پٹخ دیں وہ سمجھا کہ سونے کی نہیں ہیں جبکہ وہ خالص سونے کی تھیں ملنگنی نے چالاکی کی۔ملنگ کا نام بابا فضل تھا مگر اس کے نام سے کم ہی لوگ واقف تھے اسے بابا یا ملنگ کہتے۔ وہ جس قبرستان کا نگران تھا اسی میں سو سال کے قریب عمر میں فوت ہو کر دفن ہوا۔


ایک بابا بولا تھا۔بہرہ ہونے کی بنا پر اس کا نام ہی بولا پڑ گیا۔ گاؤں میں مسلم شیخوں کے تین چار گھر تھے۔ ان میں سے ایک اس بولے کا تھا۔ یہ سارے کے سارے انگریزوں کی طرح گورے تھے۔ بابا بولے کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ اس نے ایک شرط میں قوت گویائی گنوا دی۔ اس نے کھراس کا پُڑ یعنی پتھر کا بھاری پاٹ اٹھایا۔ایک ڈیڑھ میل لے جانا تھا یہ شرط تو وہ جیت گیا مگر بہرہ ہوگیا۔
 مولا شیرا اہل علم بابا کے طور پر جانے جاتے تھے۔ جمعہ کے روز مولوی کی وعظ کے دوران وہ عموماً کھڑے ہوجاتے اور مولوی صاحب کی تصحیح کرتے۔اعتکاف ہر سال بیٹھتے۔ حقہ نوش تھے اورکثیر العیال تھے۔ ان کے بیٹے عشاء سے قبل حقہ تازہ کر کے کھڑکی سے”نے“ اندر کردیتے۔ اُس دور میں ملیریا ہوتا جو چند روز کے بعد باری والے بخار میں بدل جاتا، یعنی ایک دن چھوڑ کربخار ہوتا۔ اس کے لیے ٹوٹکے کام آتے۔ کوئی شرینہ کے درخت کو جھپا ڈالنے کو کہتا اور کئی دم کرا لیتے۔ مولا شیرا بھی پانی پڑھ کر دیتا۔ مجھے انہوں نے بتایا کہ مندرجہ ذیل 100بار پڑ ھ کر پانی میں پھونک ماریں،تیّے والے مریض کو پانی پلا دیں تو شفا ہو گی۔


یا شیخ عبدالقادر جیلانی شی انا للہ،مدد کرومیراں فی سبیل اللہ، بحکم محمد عبدِاللہ بابے تو اور بھی ہیں۔ آخر میں ذکر رانا منظور کا۔ گاؤں میں سوائے رانا منظور کے سب کا تعلق اعوان برادری سے تھا۔ رانا منظورکی دو مربع اراضی تھی پچاس ایکڑ: اس کی اولاد نہ تھی۔ دوسری شادی سے بھی مایوسی ہوئی۔ کھلے ہاتھ کا شخص تھا نوکرچاکر رکھے ہوئے تھے۔ میلے پر بھانڈ آتے۔ وہ آج کے سٹیج شو کی طرز پر پَر فارم کرتے۔ اُس وقت تک وہ اپنا کام شروع نہ کرتے جب تک رانا صاحب آکر نہ بیٹھ جاتے۔ وہ نوٹ نچھاور کرتے رہتے۔ ان کی بڑی عزت تھی۔ کسی نے ان کے کان میں بات ڈال دی کہ مرنے کے بعدآپ کی جائیداد کا کیا بنے گا۔ اس نادان نے ساری زمیں فروخت کر دی۔ پیسے بنک میں رکھ دیئے۔ اسے بتایا گیا منافع سے عالی شان زندگی گزرے گی۔ ٹوہرٹپے اور ٹہکے کیلئے پسٹل خرید لیا۔ پسٹل لگا کر وہ شہر جاتا۔ پھر سارے پیسے ختم ہو گئے تو رانا صاحب گاؤں چھوڑ کر سسرال جا بسے۔وہ اُس گاؤں میں کبھی کبھی آتے جس کے وہ سب سے بڑے جاگیر دار تھے۔ انہی کی زمین پراُس دور میں واحد ٹیوب ویل لگا تھا۔وہ اس گاؤں میں گھروں میں جاکر بابا ملنگ کی طرح مانگاکرتے تھے۔یہ دوسرامنگتا تھا جسے کوئی بھی معاف کر نہیں کہتا تھا۔

مزید :

رائے -کالم -