وسائل سے مالا مال اسلامی ممالک
دنیا کے نقشے پر اسلامی ممالک کی طویل فہرست دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ جیسے مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ نے گونا گوں وسائل سے نوازا ہے، دنیا کا تقریباً 33فیصد رقبہ اس وقت مسلمانوں کے پاس ہے، مشرق میں انڈونیشیا سے لے کر مغرب میں مراکش تک اسلامی ممالک کا ایک طویل سلسلہ پھیلا ہوا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے ان ممالک کو بے پناہ قدرتی وسائل سے مالا مال کیا ہوا ہے، معدنیات، زرخیز زمین، تجارتی بندرگاہیں اور دور حاضر میں ترقی کے لئے جن اقسام کے خام مال کی ضرورت ہے، وہ تمام اسلامی ممالک کو وافر مقدار میں فراہم کردی گئی ہیں، ایک جھلک ان انعامات الہٰی کی ملاحظہ فرمائیں۔
افغانستان، جس پر طویل عرصے سے سامراجی طاقتیں یلغار کر رہی ہیں، معدنیات سے مالا مال ملک ہے، اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق افغانستان کے پہاڑوں میں صرف سونا ہی ایک لاکھ ٹن پایا جاتا ہے، تانبے کے ذخائر بھی دنیا بھر سے زیادہ ہیں، یہاں 17مقامات ایسے ہیں، جہاں لوہے کے 10ارب ٹن سے بھی زائد مالیت کے ذخائر موجود ہیں، جبکہ دارالحکومت کابل سے 130کلو میٹر کے فاصلے پر صوبہ بامیان کے علاقے حاجی گاگ کی کانوں میں تقریباً ایک ارب 80کروڑ ٹن اسٹیل کے ذخائر موجود ہیں۔
عام معدنیات سے ہٹ کر اللہ تعالیٰ نے اسلامی ممالک کو پٹرول جیسی معدنیات سے بھی مالا مال کیا ہے۔ صنعتی ترقی کا سارا انحصار اس دور میں پٹرول پر ہے، جس کے کنوؤں سے اللہ تعالیٰ نے عرب ممالک کو اس قدر نوازا ہے کہ کوئی بھی مغربی ملک ان کا مقابلہ نہیں کرسکتا، دنیا میں تیل پیدا کرنے والے 11بڑے ممالک میں سے 9اسلامی ممالک ہیں۔
سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، ایران، عراق، کویٹ الجزائر، لیبیا، نائجیریا اور سوڈان۔ قدرتی ذخائر سے مالا مال ایک اور ملک الجزائر بھی ہے، جو لوہے، تیل، گیس اور زنک وغیرہ کی دولت سے مالا مال ہے، سوڈان میں کیلثیم، تانبے اور پٹرولیم کی مصنوعات کافی مقدار میں پائی جاتی ہیں، لیکن بدقسمتی سے وسائل پر کنٹرول دوسری طاقتوں کا ہے، جنہوں نے ملٹی نیشنل کمپنیوں کی شکل میں اپنا راج قائم کررکھا ہے۔
حیرت ہے کہ کسی اسلامی ملک کی ملٹی نیشنل کمپنی نہیں ہے، پاکستان بھی اللہ کا نوازا ہوا ملک ہے، جہاں تانبہ،کوئلہ اور قدرتی گیس وغیرہ بہت بڑی مقدار میں موجود ہیں، اس کے دریا، صحرا، بلندوبالا پہاڑ اور وسیع عریض سمندر دنیا کو ایک اور ہی کہانی سناتے ہیں۔
کون سی نعمت ہے، جو اس سے ملک کو عطا نہیں کی گئی۔ قیمتی پتھروں کی کئی منفرد اقسام یہاں پائی جاتی ہیں۔ نیلم، یاقوت، زمرد، سنگِ مرمر، چونا، نمک اور تانبہ وغیرہ چاندی، سونا، کوئلہ اور قدرتی گیس وغیرہ بھی بڑی مقدار میں موجود ہیں، بلکہ کوئلے کو تو سیاہ سونا کہا جاتا ہے۔
نوجوان آبادی کے لحاظ سے دیکھا جائے ۔ تب بھی پاکستان دنیا کا واحد اسلامی ملک ہے، جہاں 40فیصد محنتی نوجوان پائے جاتے ہیں، بے شمار ملک سمندر سے محروم ہیں، لیکن پاکستان کے پاس ٹھاٹھیں مارتا ہوا بحیرۂ عرب ہے، جس سے قازقستان، ترکمانستان اور آذربائیجان وغیرہ اور قریبی ملک افغانستان بھی فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔معدنی وسائل کے اعتبار سے پاکستان کوئلے کے ذخائر رکھنے والا دوسرا بڑا ملک ہے، دنیا میں نمک کا دوسرا بڑا ذخیرہ بھی پاکستان کے پاس ہے، تانبے کے ذخائر کے اعتبار سے پاکستان ساتواں بڑا ملک ہے، سونے کے ذخائر کے لحاظ سے پاکستان کا نمبر پانچواں ہے اور قدرتی گیس کے ذخائر کے اعتبار سے پاکستان چھٹا بڑا ملک ہے، ہمارے ملک کی زرعی زمین بھی دنیا کے دیگر ممالک کی زرعی زمین کے مقابلے میں زیادہ زرخیز سمجھی جاتی ہے۔
عالم اسلام کے معدنی ذخائر یا توزمین ہی میں دفن ہیں یا پھر ان سے اسلام دشمن قوتیں فائدہ اٹھارہی ہیں جو اعلیٰ طبقہ مسلمانوں کے معاملات کانگران ہے، اسے اپنے عیش وعشرت سے ہی فرصت نہیں۔ ملکی ترقی کا معیار اس طبقے کے نزدیک یہ ہے کہ قرضے لے کر شاندار سڑکیں بنادی جائیں، شاپنگ کمپلیکس، کھیل کود اور دیگر مواقع فراہم کردیئے جائیں۔
سڑکوں پر ہر وقت کاریں دوڑتی رہیں اور خواتین مغربی رنگ میں رنگ جائیں، ہر طرف فیشن نظر آئے، مگر ملک کی ترقی کے لئے یہ چیزیں کب معیار بنی ہیں؟ ترقی کا اصل معیار تو معاشی، علمی اور دفاعی طاقت ہے۔ جس پر نہ تو اسلامی ممالک توجہ دیتے ہیں اور نہ ہی مغربی طاقتیں ان کو ایسا کرنے کی اجازت دیتی ہیں، اگر وہ تعلیم اور ٹیکنالوجی پر خصوصی توجہ دیں اور ایسے افراد اور ادارے تیار کریں جو ملک کے قدرتی وسائل اور نوجوانوں کا بہتر استعمال جانتے ہوں اور جہاں سائنس اور ٹیکنالوجی کو ہی تمام تر اہمیت حاصل ہو، تب ہی اسلامی ممالک دنیا میں قیادت کرنے کے قابل ہوسکتے ہیں، افسوس کہ راستے کی مشکلات سے ہم خوف زدہ ہوجاتے ہیں، اسلامی ملکوں کے حکمرانوں نے طاقت اور دولت کے نشے میں جابر حکمرانوں جیسے طور طریقے اپنا رکھے ہیں وہ دنیا کی رنگینیوں اور محلات کی خواہشات میں مگن ہو جاتے ہیں اور پھر زوال و تباہی کی طرف چلے جاتے ہیں، آج یہ حال ہے کہ ہم دنیا کی کمزور قوم بن گئے ہیں، بے شک ان میں اسلام دشمنوں کی سازشیں شامل ہیں۔
قوموں کی رہنمائی کا فریضہ انجام دیتے دیتے ہم خود ہر ایک قوم سے رہنمائی لینے لگے ہیں، ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ ہمارا عروج ابھی کچھ دور کی بات نہیں، قافلہ اور سالارقافلہ اگر اس عرصے میں تھک کر لیٹ گئے تھے، تب بھی تازہ دم ہر اول دستے تیار کئے جاسکتے تھے، آخر تمام مشکلات اور پریشانیوں سے نکال کر اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ایک ایسا رہنما عطا کرنا ہے، جس نے دنیا سے کفر کو ختم کرکے دوبارہ ساری دنیا میں اسلام کا نظام رائج کرنا ہے۔
مو جودہ صورت حال میں مسلمان حکمرانوں نے با امر مجبوری یا دولت کی ہوس میں اپنے اپنے ملکوں کے عوام کے حقوق عالمی طاقتوں کے حوالے کردیئے ہیں اور دنیا کی بڑی طاقت امریکہ نے تمام مسلمان ممالک کے درمیان نفرت پھیلا دی ہے اور تمام مسلمان ملک آپس میں دست و گریبان ہیں،جبکہ وسائل پر صہیونی طاقتوں نے قبضہ کررکھا ہے اور ترقی کی منازل طے کررہے ہیں۔