آئینی ترمیم اور تحریک انصاف کی پھرتیاں 

   آئینی ترمیم اور تحریک انصاف کی پھرتیاں 
   آئینی ترمیم اور تحریک انصاف کی پھرتیاں 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

آئین میں ترمیم کرنا حکمران جماعت کا آئینی حق ہے اور آئین میں ایسا کرنے کا طریق کار بھی بتایا گیا ہے پارلیمان عوامی آدرشوں کی نمائندہ ہوتی ہے جبکہ حکومت اکثریت رائے کی نمائندگی کرتی ہے پارلیمان ایک بالادست ادارہ ہے آئین پارلیمان میں تخلیق کیا گیا ہے پھر آئین کے ذریعے مختلف آئینی ادارے قائم کئے گئے ہیں، جن پر آئین کی بالادستی ہے،لیکن یاد رہے پارلیمان سپریم بالادست ادارہ ہے، جس نے آئین تخلیق کیا ہے پارلیمان،آئین کی خالق ہے اور آئین اس کی مخلوق،اس لئے پارلیمان آئین میں ترمیم کر سکتی ہے آئین میں درج ترمیم کرنے کا طریق کار بھی تبدیل کر سکتی ہے موجودہ حکومت اپنے اس حق کو استعمال کرنے جا رہی ہے، لیکن کیونکہ اس کے پاس آئین میں درج مطلوبہ اکثریت حاصل نہیں ہے اِس لئے وہ دائیں بائیں دیکھ رہی ہے۔ مولانا فضل الرحمن کے ساتھ مذاکرات جاری ہیں اور شاید مثبت انداز میں پایہ تکمیل کو بھی پہنچ گئے ہیں، کچھ آزاد اراکین کی بھی حمایت لینے کی کاوشیں کی گئی ہیں ایسی کاوشوں پر تحریک انصاف سراپا احتجاج ہے، کیونکہ یہ آزاد اراکین، انصافی ووٹوں سے جیتے ہیں حکومت شہباز شریف کی سربراہی اور پیپلزپارٹی کی حمایت سے چل رہی ہے اور دونوں جماعتوں میں جغادری قسم کے سیاستدان شامل ہیں اِس لئے توقع کی جا رہی ہے کہ آئینی ترمیم کے لئے ہوم ورک ضرور کیا گیا ہو گا اور ترمیم ہو جائے گی، حکومت جو چاہتی حاصل کر پائے گی۔

آئینی ترمیم کے ذریعے حکومت حاصل کیا کرنا چاہتی ہے؟یہ سوال بہت اہم ہے اس حوالے سے بہت زیادہ شوروغل تحریک انصاف کی قیادت، بلکہ قائدین مچا رہے ہیں اور ان کا فوکس چیف جسٹس کا عہدہ ہے، 25تاریخ کو موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اپنی طے شدہ مدت ملازمت اور عمر پوری کر کے ریٹائرڈ ہو جائیں گے، موجودہ طریق کار کے مطابق سینئر ترین جج جسٹس منصور علی شاہ یہ عہدہ سنبھال لیں گے۔ یہ تبدیلی معمول کے مطابق ہونی تھی، لیکن کچھ ججوں کے پرو ایکٹو ازم اور ضرورت سے زیادہ بلند آہنگ میں گفتگو نے حکمران طبقے کو پریشان کر دیا۔یہ بات تو طے ہی نہیں بلکہ ثابت شدہ ہے کہ کچھ جج اپنے منصب کے اعلیٰ اخلاقی اور قانون تقاضوں کے برعکس ایک فریق کی حمایت اور دوسرے کی مخالفت کے مرتکب پائے گئے ہیں ان کے فیصلوں کے باعث غیر قانونی اور غیر آئینی طرزِ فکرو عمل کے باعث نظام کی جڑیں ہلتی ہوئی نظر آئی تھیں ان کے غیر آئینی فیصلے ثبوت کے طور پر موجود ہیں، پھر ان کی بے لاگ اور غیر ضروری گفتگو نے ان کے تعصب کو نمایاں کر دیا۔ منصور علی شاہ اچھے جج ہیں لیکن ان کی جانبداری نہ صرف ان کے کچھ فیصلوں سے عیاں ہے، بلکہ کچھ فیصلوں سے غیر جانبداری بھی شکوک و شبہات کا شکار ہو چکی ہے، کسی ایک فریق کو ریلیف دینا تو چلو کہا جا سکتا ہے کہ قانون میں اس کی گنجائش تھی جسے استعمال کرتے ہوئے ایک فریق کو ریلیف دیا گیا،لیکن دوسرے فریق کو رگڑا لگانے سے تو تعصب ظاہر ہوتا ہے۔سپریم کورٹ میں تو ججوں کی ایسی تقسیم اظہر من الشمس ہو چکی ہے۔منصور علی شاہ نہ صرف تحریک انصاف کے لئے نرم گوشہ رکھتے ہیں اور انہیں ریلیف دیتے رہے ہیں بلکہ مسلم لیگ  و ہمنواؤں کے لئے تعصب اور شدید گرم گوشہ رکھنے والے پائے گئے ہیں ان کا ایسا رویہ نہ صرف ان کی گفتگو میں ظاہر ہوتا رہا ہے،بلکہ کئی ایک فیصلے ثبوت کے طور پر بھی موجود ہیں۔سونے پر سہاگہ عمران خان اور ان کی  ذریت کی طرف سے جسٹس منصور علی شاہ صاحب کی ممکنہ چیف جسٹسی کے بارے میں والہانہ بیانات نے کر دیا ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ صاحب اپنی تمام تر خوبیوں خامیوں سمیت ایک متنازعہ جج بن چکے ہیں تحریک انصاف کو اندازہ ہو چکا ہے کہ حکومت انہیں چیف بننے سے روکنے کی آئینی کاوش کر رہی ہے ایسا کرنا حکومت کا آئینی حق ہے۔ منصور علی شاہ صاحب کی طرفداری کر کے تحریک انصاف نے ان کے چیف بننے کی راہ کھوٹی کر دی ہے ویسے تحریک انصاف کا تاریخی ریکارڈ یہ بتاتا ہے کہ یہ کسی کی حمایت بھی ایسے بھونڈے انداز میں کرتی ہے کہ وہ بے چارہ اپنا جائز حق حاصل کرنے سے بھی محروم رہ جاتا ہے اور یہ کسی کی مخالفت بھی ایسے ہی بھونڈے انداز میں کرتی ہے کہ وہ حق نہ ہونے کے باوجود، وہ کچھ حاصل کر لیتا ہے جو شاید عام حالات میں اسے نہ مل پاتا۔موجودہ آرمی چیف اس کی ایک اہم مثال ہیں تحریک انصاف نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا کہ عاصم منیر آرمی چیف نہ بن پائیں،لیکن ان کی مخالفت کے باوجود،بلکہ ان کی مخالفت کے باعث وہ غیر معمولی حالات میں چیف بن گئے۔قاضی فائز عیسیٰ کو تو دوڑ سے باہر کرنے کے لئے ان کے خلاف ریفرنس فائل کیا گیا،لیکن اللہ کی قدرت اور قاضی فائز عیسیٰ کی استقامت نے تحریک انصاف کی کاوشوں پر پانی پھیر دیا وہ چیف جسٹس بنے اور شاندار انداز میں اپنے فرائض منصبی انجام دے رہے ہیں اب تحریک انصاف جسٹس منصور علی شاہ کو چیف بنتا دیکھنا چاہتی ہے لیکن ایسے لگ رہا ہے کہ وہ نہیں بن پائیں گے۔تحریک انصاف کی حمایت ان کے گلے پڑ چکی ہے۔

مجوزہ ترمیم کے ذریعے کھیل کے نئے ضوابط طے کئے جائیں گے جن کے مطابق حکومت اپنا استحقاق استعمال کرتے ہوئے کسی اور شخص کو اس منصب پر فائز کر دے گی اور تحریک انصاف ہاتھ ملتی رہ جائے گی ویسے تحریک انصاف صرف ہاتھ ہی ملتی نہیں جا رہی بلکہ حکومت نے انہیں کچھ اور بھی ملنے پر مجبور کر دیا ہے۔حکومت انتشاریوں کی پشت لال کر رہی ہے اور وہ اسے ملنے پر بھی مجبور ہیں  ویسے حکومت انتشاریوں کے ساتھ وہ کچھ نہیں کر رہی جو اسے کرنا چاہئے حکومت نے ان کے ساتھ ہتھ ہولا ہولا رکھا ہوا ہے اس لئے وہ صرف ہاتھ اور پشت ملنے پر مجبور کر دیئے گئے ہیں،حالانکہ اپنی کرتوتوں کے باعث وہ کچھ ایسے سلوک کے مستحق ہیں کہ جس کے باعث وہ ہاتھ اور پشت کی بجائے کچھ اور بھی ملنے اور مسلنے پر مجبور ہو جائیں وہ وقت دور نہیں ہے۔

٭٭٭٭٭

مزید :

رائے -کالم -