ضمنی الیکشن میں شکست پر عمران خان برہم، پارٹی میں شمولیت کی مخالفت کی وجہ سے علیم خان گروپ یاسمین راشد کا مخالف ، کپتان نے اجلاس بلالیا

ضمنی الیکشن میں شکست پر عمران خان برہم، پارٹی میں شمولیت کی مخالفت کی وجہ سے ...
ضمنی الیکشن میں شکست پر عمران خان برہم، پارٹی میں شمولیت کی مخالفت کی وجہ سے علیم خان گروپ یاسمین راشد کا مخالف ، کپتان نے اجلاس بلالیا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

لاہور (ویب ڈیسک)لاہور کے حلقہ این اے 120 کے ضمنی الیکشن میں شکست پر عمران کان تحریک انصاف لاہور کی قیادت پر سخت برہم ہیں۔ پارٹی چیئرمین نے مقامی قیادت میں گروپ بندی کا نوٹس لے لیا اور شکست کی وجوہات جاننے کیلئے بنی گالہ اسلام آباد میں اجلاس طلب کرلیا، شکست کی وجوہات جاننے کے لئے عمران خان نے پی ٹی آئی پنجاب کے اہم رہنما اور پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر میاں محمود الرشید سے ٹیلی فون پر رابطہ کیا۔ میاں محمود الرشید کا عمران خان سے کہنا تھا کہ پی ٹی آئی امیدوار ڈاکٹر یاسمین راشد کی شکست کا ایک بڑا سبب یہ بھی ہے کہ مقامی قیادت نے پوری طرح ساتھ نہیں دیا۔

روزنامہ امت کے مطابق یاسمین راشد کی شکست میں گروپ بندی نے اہم کردار ادا کیا۔ اس وقت پی ٹی آئی پنجاب میں تین گروپ بنے ہوئے ہیں۔ ایک طاقتور گروپ پی ٹی آئی سنٹرل پنجاب کے صدر عبدالعلیم خان کا ہے۔ اس گروپ میں جہانگیر ترین، شعیب صدیقی اور میاں اسلم اقبال سرفہرست ہیں۔ شعیب صدیقی اور میاں اسلم اقبال دونوں پنجاب اسمبلی کے رکن ہیں، ماضی میں مسلم لیگ ق کا حصہ ہوا کرتے تھے۔ عبدالعلیم خان کا گروپ ڈاکٹر یاسمین راشد کا سخت مخالف ہے۔ اس مخالفت کا پس منظر بیان کرتے ہوئے بتایا کہ جب عبدالعیم خان اور جہانگیر ترین کو پی ٹی آئی میں شامل کیا گیا تھا تو اس کے خلاف سب سے زیادہ آواز ڈاکٹر یاسمین راشد نے بلند کی تھی۔ یاسمین راشد کا چیئرمین عمران خان کو کہنا تھا کہ انہوں نے پارٹی میں کرپٹ افراد شامل نہ کرنے کا اعلان کیا تھا، لیکن اس کے برعکس لینڈ مافیا اور شوگر مافیا کے لوگوں کو پارٹی کا حصہ بنایا جارہا ہے۔ ذرائع کے مطابق اس وقت سے آج تک عبدالعلیم خان اور جہانگیر ترین گروپ کی ڈاکٹر یاسمین راشد سے رنجش چلی آرہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عبدالعلیم خان سمیت اس گروپ کے دیگر ایران نے ضمنی الیکشن کی پوری انتخابی مہم کے دوران فاصلہ اختیار کئے رکھا۔ عبدالعلیم خان صرف ایک موقع پر نظر آئے جب 14اگست کو یاسمین راشد نے آزادی ریلی نکالی تھی۔

اخبار ذرائع نے بتایا کہ انتخابی مہم کے دران جب ایک دوست کی شادی میں شرکت کے بعد لندن سے عمران خان کی واپسی ہوئی تو یاسمین راشد نے پارٹی چیئرمین سے کھل کر شکایت کی کہ سنٹرل پنجاب کے صدر سمیت دیگر مقامی پارٹی قیادت ان کی انتخابی مہم میں ساتھ نہیں دے رہی جس پر عمران خان نے علیم خان کو کہا کہ وہ پی ٹی آئی امیدوار کو سپورٹ کریں۔ اس کے بعد ہی عبدالعلیم خان نے بادل نخواستہ مختلف پارٹی ورکرز کو اپنی جیب سے پیسے دے کر حلقہ 120 میں پی ٹی آئی کے 15 سے 20 انتخابی دفاتر اور کیمپ کھلوائے اور مختلف مقامات پر بینرز آویزاں کروائے تاہم یہ کام انتہائی تاخیر سے کیا گیا۔ عبدالعلیم خان گروپ کے علاوہ پی ٹی آئی کا دوسرا گروپ بھی ڈاکٹر یاسمین راشد کا مخالف ہے، جس میں چوہدری سرور اور شاہ محمود قریشی شامل ہیں۔ انتخابی مہم کے دوران چوہدری سرور بھی بہت کم ڈاکٹر یاسمین کے ساتھ دکھائی دئیے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر یاسمین راشد کا ساتھ صرف اعجاز چوہدری اور میاں محمود الرشید نے دیا۔ دونوں کبھی جماعت اسلامی کا حصہ ہوا کرتے تھے۔ اعجاز چوہدری انتخابی مہم کے پہلے دن سے لے کر آخری روز تک ڈاکٹر یاسمین کے ساتھ رہے جبکہ پولنگ والے روز میاں محمود الرشید بھی پولنگ کا وقت ختم ہونے تک اردو بازار والے پولنگ سٹیشن پر موجود تھے تاہم الیکشن کمیشن کے ضابطہ اخلاق کی وجہ سے وہ کھل کر پی ٹی آئی امیدوار کی انتخابی مہم نہیں چلاسکے۔