لائل پور کا گھنٹہ گھر اور آئینی ترامیم؟

  لائل پور کا گھنٹہ گھر اور آئینی ترامیم؟
  لائل پور کا گھنٹہ گھر اور آئینی ترامیم؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

فیصل آباد (سابقہ لائل پور) جب بسایا گیا تو یہ اپنی طرز کا شہر تھا،جس کے درمیان بڑی گھڑی لگائی گئی،جس کی شباہت لندن کے بڑے کلاک سے ہے، اس چوک کے اردگرد جو بازار بنے ان کا رخ یوں ہے کہ کسی بھی ایک بازار سے داخل ہوں تو اختتام گھنٹہ گھر پر ہوتا ہے، یوں یہ لائل پور کا گھنٹہ گھر مشہور ہی نہ ہوا، بلکہ ایک مثال بن گیا اور اسی کے مطابق بعض اوقات کسی مرکزیت کو لائل پور کا گھنٹہ گھر کہہ دیا جاتا ہے۔ ماضی میں کئی لوگ ایسے گزرے جن کے ساتھ یہ مثل منسلک کی گئی لیکن حالیہ سیاسی کشمکش میں جو حالات سامنے آئے ان کی وجہ سے بلا شبہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ حضرت صاحب کی شخصیت اس پر پوری اتری ہے اگر آئینی ترامیم کے حوالے سے حضرت مولانا فضل الرحمن کو لائل پور کا گھنٹہ گھر تصور کر لیا جائے تو وہ برا نہیں منائیں گے کہ ان کے در پر حاضری دینے والے سبھی ہیں اور وہ بڑے اطمینان سے سب کو گلے لگا کر بٹھاتے اور بات چیت کرتے ہیں، جو وفود گئے ان میں تحریک انصاف والے بھی شامل ہیں، جن کے بانی اور راہنما ان کو مولانا ڈیزل کہتے تھے، اب ان کے منہ پر تالے لگے ہوئے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کو بھی شکائت انتخابی عمل سے ہے اور اس کا زیادہ تعلق خیبرپختونخوا سے ہے، لیکن ان کا رخ حکومت وقت کی طرف ہے اور وہ بالواسطہ طور پر مقتدر حلقوں کو للکارتے اور کچھ یاد کراتے رہتے ہیں۔ لگتا ہے کہ اس بار مقتدر حلقوں نے یا تو برسر اقتدار حضرات پر بھروسہ کیا اور یا پھر ان کی ”پھرتیاں“ کسی کام نہ آ سکیں بہرحال جو بھی ہوا وہ یہ ہے کہ کوئی بھی جماعت حضرت صاحب کو قائل نہ کر سکی ہر ایک سے مذاکرات کے دوران بعض مشترک نکات نکل آئے اور سب مطمئن ہو کر واپس آئے،ان میں بلاول بھٹو زرداری کچھ اور انداز سے اطمینان ظاہر کر رہے ہیں، وہ تو کہتے ہیں کہ پیپلزپارٹی اور جمعیت علمائے اسلام نے مل کر بہت سی قانون سازی کی تھی اور اب بھی مل کر ہی ترامیم (تجاویز) لائیں گے، اس پر اتفاق ہے۔ بلاول بھٹو کا کہنا ہے کہ پیپلزپارٹی کے تو منشور میں عدالتی اصلاحات ہیں، اس لئے ہمیں طعنہ نہ دیا جائے کہ ہماری جماعت حقیقی اصلاحات کی حامی ہے۔

اسلام آباد میں جو جوڑ پڑا، اس نے مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کے راہنماؤں کی راتوں کی نیندیں اڑا دی تھیں۔ انتظامی حربے اختیار کئے گئے تو مذمت کے ساتھ عدالتوں سے رجوع ہوا  اور وہاں سے ریلیف ملتی چلی گئی جو اب تک جاری ہے۔ یوں یہ کشمکش اس امر پر موخر ہوئی کہ زیادہ سے زیادہ اتفاق رائے کی کوشش کی جائے گی، بلاول اور مسلم لیگ (ن) والے یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ اگلے چیف جسٹس منصور علی سید ہی ہوں گے، جبکہ تحریک انصاف نے برملا قاضی فائیز عیسیٰ کی مخالفت کی،اسی بناء پر مسلم لیگ (ن) کو آئینی ترمیم کا سہارا لینا پڑا کہ قاضی فائیز عیسیٰ نے توسیع لینے سے  شریفانہ طور پرانکار کر دیا تھا، اب ان کو رکھنے کے لئے یہ ترمیم لانے کی بھرپور کوشش تھی کہ فاضل جج حضرات کی ریٹائرمنٹ کے حوالے سے عمر تین سال بڑھا دی جائے یوں اگر تمام ہائی کورٹوں اور سپریم کورٹ کے فاضل جج حضرات کی سروس میں تین سال کا اضافہ ہوتا جاتا تو اس کا اطلاق قاضی فائیز عیسیٰ پر بھی ہوتا اور وہ مزید تین سال اس عہدے پر فائیز رہتے لیکن مطلوبہ دو تہائی اکثریت نہ مکمل ہونے کی وجہ سے ترامیم کا مسودہ ہی موخر کر دیا گیا۔ اب کوشش ہو گی کہ شور اور ہنگامے کے بغیر مولانا سے ”مک مکا“ ہو جائے اور جن سات آٹھ آزاد پتوں پر کام کیا جاچکا ہے ان کے تعاون سے یہ ترامیم منظور کرائی جائے۔ یہ حضرات بہت معزز ہیں اور ان کی اب تک نشان دہی نہیں ہوئی، اگرچہ ان کے ساتھ وعدہ کیا اور یقین دلایا گیا ہے کہ نشست خالی ہو گئی تو ان کو پھر سے منتخب کرا لیا جائے گا، تحریک انصاف کو بھی یہ احساس ہے اس لئے وہ بھی کڑی نظر رکھے ہوئے ہے۔

بات اپنے  مولانا فضل الرحمن سے شروع کی، ان سے ہماری سلام دعا اور اچھے تعلقات اس دور سے ہیں، جب ان کے والد گرامی حیات تھے اورہم تین چار صحافی دوست مفتی محمود صاحب سے ملنے جایا کرتے تھے، مولانا تواضع پر مامور ہوتے۔ اس حوالے سے ایک دلچسپ بات بتاتا چلوں کہ مفتی محمود قبلہ ذیابیطس کے مریض تھے اور میٹھا مرغوب تھا۔ ہم جب ان سے بات کرنے جاتے تو مفتی محمود فرماتے لاؤ بھئی! مہمان آئے ہیں، کوئی مٹھائی لاؤ، میزبان اور  مولانا فضل الرحمن ہمیں دور سے اشارے کرتے کہ ان کو روکیں۔ ہم انکار کرتے اور مفتی صاحب اصرار کرتے چلے جاتے اور یوں مٹھائی آ جاتی اور سب سے پہلے خود مفتی محمود بسم اللہ کرتے تھے۔

یہ بات تو دیرینہ تعلق ظاہر کرنے کے لئے تھی،  مولانا فضل الرحمن سے یہ تعلق مضبوط سے مضبوط تر ہوتا رہا اور جب امیر جمعیت مفتی محمود کی رحلت کے بعد امارت کا تنازعہ شروع ہوا تو ہم دوستوں نے مولانا سے ممکنہ تعاون کیا۔ یوں ملاقاتیں بھی بڑھیں اور یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہا جب تک دوست زندہ اور میں رپورٹنگ میں تھا اب تو ان سے ملاقات ہوئے قریباً 8  سال ہو گئے ہیں اور اب ان کے سیکریٹری یا سٹاف افسر مجھے جانتے ہی نہیں اس لئے فون پر بھی بات نہیں ہو پاتی،اب اگر میں یہ کہوں کہ مولانا نے لائل پور کے گھنٹہ گھر والی حیثیت اپنی ذہانت سے منوائی ہے تو غلط نہیں ہوگا۔ حالیہ 8 فروری 2024ء کے انتخابات کے بعد تو وہ بری طرح گرم تھے اور ایسی ایسی باتیں کرتے تھے جیسے اب انقلاب انہی کی سرکردگی میں آئے گا، لیکن وقت نے ثابت کیا کہ مولانا اپنے بزرگ نوابزدہ نصراللہ خان سے زیادہ زیرک ثابت ہوئے ہیں، اور آج کل مرکزنگاہ بنتے ہوئے احساس دلا رہے ہیں کہ ان کے بغیر نظام ہی کا چلنا مشکل ہوگا۔ اب تو وہ بانی تحریک انصاف سے بھی بازی لے گئے کہ تحریک انصاف پوری طاقت سے بھی ترامیم کے پیکج کو نہیں روک سکتی تھی،یہ تو مولانا ہیں جو ”ڈٹ“ گئے اور معاملہ موخر ہو گیا، اور ان کی اہمیت بھی مسّلم ہو گئی، ورنہ ان کو تو شکوہ ہے کہ جب پشاور چوک میں انہوں نے دھرنا دیا تو ان کے ساتھ وعدہ کر کے وعدہ خلافی کی گئی کہ چودھری شجاعت حسین اور چودھری پرویز الٰہی کے ساتھ جا کر ملنے والے وفد نے نئے انتخابات کی حامی بھر لی تھی اور مولانا کو بعد میں جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی ملاقات کر کے یقین دلایا تھا لیکن وعدہ وفا نہ ہوا اور وہ موقع کے منتظر رہے جواب مل گیا اور انہوں نے طاقت (اختیار) کے منبع کو بھی باور کرا دیا ہے کہ وہ کھیل سکتے ہیں اور لوز بال کا بھی مقابلہ کر سکتے ہیں،  دیکھئے اب پروانہ کب اس شمع کے پاس آکر خود بھسم ہوتا ہے یا اس ہستی کو جلا کر اپنے ساتھ دائمی رفیق بنا لیتا ہے۔

قارئین! میں آپ کو زیادہ دیرسسپنس میں نہیں رکھ سکتا، حکمت عملی میں کئی تبدیلیاں متوقع ہیں کہ ایک دو اہم ریٹائرمنٹ بھی ہونے والی ہیں تاہم عرض کرنا لازم ہے کہ ترامیم کا یہ سب اس لئے ہوا کہ جوڈیشل ایکٹوازم سامنے آ گیا اور کھلم  کھلا پانسہ پلٹتا نظر آیا بلکہ تحریک انصاف والوں نے تو اکتوبر کا مہینہ موجودہ حکومت کے جانے کا مقرر کیا ہوا ہے کہ اعلیٰ ترین عدالت سے 8 فروری کے انتخابات کالعدم ہو جائیں گے۔ میں بہت کچھ جانتے ہوئے بھی کچھ نہیں کہوں گا کہ ڈرتا ہوں، بوڑھا ہو کر تازیانہ برداشت نہیں کر سکتا، البتہ یہ عرض کروں گا کہ مخصوص نشستوں کا مختصر فیصلہ، الیکشن کمیشن کی طرف سے وضاحتی اپیل، اس فیصلہ والے فاضل جج حضرات کی وضاحت اور ڈپٹی رجسٹرار سپریم کورٹ کا رجسٹرار کو خط بہت کچھ ظاہر کر گیا ہے۔

مزید :

رائے -کالم -