چائے کی پیالی میں طوفان اور عوام
آپ نے یہ محاورہ کبھی سنا ہے: چائے کی پیالی میں طوفان برپا کرنا؟ اگر سنا ہے تو آپ یقیناً اس کے مطلب اور معانی سے بھی آگاہ ہوں گے اگر نہیں سنا ہے تو گزشتہ دنوں حکومت کی جانب سے کچھ آئینی ترامیم کے سلسلے میں جو کچھ کیا گیا‘ بس اسے یاد کر لیجیے آپ کو پوری طرح سمجھ آ جائے گا کہ چائے کی پیالی میں طوفان اٹھانا کسے کہتے ہیں‘ یعنی پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت ہے نہیں اور کوشش کی جا رہی ہے ترامیم کا ایک پورا پیکج منظور کرانے کی۔ ہم اس بات کو فی الحال نظر انداز کر دیتے ہیں کہ ان ترامیم کے پس منظر میں حکومت کے کیا مقاصد کار فرما تھے اور صرف اس بات پر توجہ مرتکز کرتے ہیں کہ جب پارلیمنٹ میں اکثریت نہیں ہے اور اکثریت میں آنے کی کوئی صورت حال بھی نہیں بن رہی ہے تو پھر اتنا بڑا قدم اٹھانے کی آخر کیا ضرورت تھی؟ ایک بات کی بہرحال داد دینا پڑے گی کہ مولانا فضل الرحمن اس دفعہ اپنے موقف پر پوری طرح قائم رہے۔ انہوں نے کسی بھی جگہ کمزوری کا مظاہرہ نہیں کیا۔ حکمرانوں نے حکومت سازی کے وقت مولانا فضل الرحمن کو پوری طرح نظر انداز کر دیا تھا‘ مولانا نے ایک لحاظ سے اس کا بدلہ لے لیا ہے اور یہ واضح کر دیا ہے کہ اگر ان کو نظر انداز کیا جائے گا تو انہیں بھی نظر انداز کرنا آتا ہے۔
ایک اور محاورہ ہے ’ابھی یا پھر کبھی نہیں‘ تو اس معاملے میں یہ محاورہ بھی پوری طرح صادق آتا ہے کیونکہ اگر ان دو دنوں میں آئینی ترامیم کر لی جاتیں تو ممکن ہے حکومت اپنے مقاصد پورے کرنے میں کامیاب ہو جاتی لیکن اب یہ معاملہ طوالت اختیار کرتا نظر آ رہا ہے کیونکہ پیر کے روز سپریم کورٹ میں آئین کے آرٹیکل 184/3 کے تحت ایک پٹیشن دائر کی گئی جس میں مجوزہ آئینی ترامیم کو چیلنج کرتے ہوئے موقف اختیار کیا گیا ہے کہ پارلیمنٹ کو عدلیہ کی آزادی کے منافی اور آئین کے بنیادی ڈھانچے کے خلاف آئینی ترامیم کا اختیار حاصل نہیں ہے۔ پٹیشن میں عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ وفاقی حکومت کو عدلیہ کی آزادی کے خلاف اور آئین کے بنیادی ڈھانچے سے متصادم آئینی ترامیم سے روکا جائے، اب اس معاملے کا فیصلہ ہونے میں ظاہر ہے کچھ وقت لگے گا۔
پہلے بتایا گیا تھا کہ حکومت 22 آئینی شقوں میں ترامیم کی خواہاں ہے‘ اب پتا چلا ہے کہ حکومت کا مجوزہ آئینی پیکیج 53 آئینی شقوں میں ترامیم کے لیے بنایا گیا تھا۔ جو صورت حال سامنے آئی ہے اس سے بہرحال یہ اندازہ ضرور لگایا جا سکتا ہے کہ اس بار حکومت کے لیے قانون سازی بہرحال اتنی آسان نہیں ہو گی جتنی ماضی میں ہوتی رہی ہے‘ اور اس کی میرے خیال میں دو وجوہات ہیں۔ پہلی یہ کہ حکومت کی جانب سے عدلیہ کے بارے میں ایک الگ رویہ نظام عدل کو پوری طرح فعال کرنے کا سبب بنا ہے اور دوسرا یہ کہ مخصوص نشستوں کے معاملے میں پی ٹی آئی کو جو ریلیف ملا ہے‘ اس سے پارلیمنٹ میں پارٹی پوزیشن پر کچھ نہ کچھ اثرات ضرور مرتب ہوئے ہیں۔ محسوس یہ ہوتا ہے کہ آنے والے دنوں میں اہم قومی اداروں کے درمیان اختلافات کے معاملات شاید مزید شدت اختیار کر جائیں گے کیونکہ جہاں ایک طرف حکومت اور نظام عدل میں کچھ معاملات چل رہے ہیں تو دوسری طرف نظام عدل اور الیکشن کمیشن کے مابین بھی کچھ معاملات پر تناؤ موجود ہے‘ خصوصی طور پر ہفتے کے روز عدلیہ کی جانب سے مخصوص نشستوں کے معاملے پر سپریم کورٹ ہی کے 12 جولائی کے فیصلے پر الیکشن کمیشن کی جانب سے ابہام ختم کرنے کی درخواست کے جواب میں جو فیصلہ سامنے آیا اور اس پر الیکشن کمیشن کی جانب سے جو جوابی رد عمل ظاہر کیا گیا‘ اس سے بھی یہ اشارہ ملتا ہے کہ آنے والے دنوں میں معاملات ممکن ہے مسائل کی شدت کو مزید بڑھانے کا باعث بن جائیں۔ ویسے بھی الیکشن کمیشن نے کاز لسٹ جاری کرتے ہوئے تحریک انصاف انٹرا پارٹی انتخابات کیس 18 ستمبر کو سماعت کے لیے مقرر کیا تھا‘ اور جب میں یہ کالم لکھ رہا ہوں تو اس کیس پر ہو سکتا ہے کہ سماعت ہو رہی ہو اور یہ کالم شائع ہونے تک الیکشن کمیشن کا انٹرا پارٹی انتخابات پر فیصلہ بھی سامنے آ جائے۔ یہ فیصلہ کیا ہے آگے کے سیاسی معاملات کا خاصا انحصار اسی بات پر ہو گا۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ قانون سازی اور آئین میں دو تہائی اکثریت سے اپنی منشا کی ترامیم حکومت کا حق ہے‘ اور اسے اس حق سے کسی بھی طور‘ کسی بھی حوالے سے محروم نہیں کیا جا سکتا‘ لیکن ایک بڑا سوال یہ ہے کہ جتنی بھی قانون سازی کا پیکیج تیار کیا گیا ہے اس میں صرف اپنے بارے میں سوچا گیا ہے‘ اپنے اختیارات کو بڑھانے اور معاملات کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنے کے بارے میں تجاویز سامنے لائی گئی ہیں‘ ان میں سے کوئی ایک بھی معاملہ ایسا نظر نہیں آتا جس کا عوام کے ساتھ کوئی براہ راست تعلق بنتا ہو۔ عوام مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں۔ بے روزگاری نے ان کا برا حال کر رکھا ہے۔ بجلی کے بلوں میں ناقابل برداشت اضافہ صارفین کو بے حال بلکہ بد حال کیے دے رہا ہے‘ ملک میں پائی جانے والی سیاسی بے چینی کی وجہ سے نہ تو کوئی سرمایہ کاری ہو رہی ہے اور نہ ہی تجارت اور کاروبار کا کوئی حال ہے۔ حکومت ٹیکس مانگتی ہے‘ یہ اس کا حق بھی ہے‘ لیکن جب مالی سرگرمیاں محدود ہوں اور ٹرانزیکشنز کم سے کم ہو رہی ہوں تو ٹیکس کہاں سے اکٹھا ہو گا؟ اس بارے میں سوچنے کی کسی کو کوئی فرصت نہیں ہے۔ ہمارے وزیر اعظم برآمدات کا ہدف بڑھانے کی تو بار بار تلقین کرتے ہیں لیکن اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی بھی کوشش کرنی چاہیے کہ اتنی زیادہ قیمت کی بجلی استعمال کر کے کیا کوئی صنعت حتیٰ کہ زراعت بھی ایسی پروڈکٹس یا فصلیں تیار کر سکتی ہیں جو عالمی منڈی میں ترقی یافتہ ممالک کی تیار کردہ پروڈکٹس (فصلوں) کا مقابلہ کر سکیں؟ حکومت کو قانون سازی ضرور کرنی چاہیے‘ قوانین میں ضروری ترامیم بھی اس کا حق ہے‘ لیکن عوام بھی اس کی توجہ کے مستحق ہیں‘ انہیں اس حق سے محروم نہ کیا جائے۔