بیوروکریسی، سروس ختم شد؟
کیا ہماری بیوروکریسی،ہمارا دفتری نظام جو تھانے کچہری سے شروع ہو کر تحصیلوں،ضلعوں اور پھر صوبوں سے ہوتا ہوا وفاق کے سیکریٹیریٹ تک پہنچتا ہے، عام آدمی کو انصاف اور اس کے حقوق فراہم کر رہا ہے؟ اس کا جواب نفی میں ہے، اور تو اور جو بابو اور افسر اس نظام کے محافظ ہیں وہ خود بھی اب یہی کہتے ہیں کہ سروس ختم شد، نظام تو وڑ گیا ہے۔
بیوروکریسی اور حکومت کے تعلقات پیچیدہ اور باہمی انحصار پر مبنی ہوتے ہیں،بیوروکریسی دراصل حکومت کی انتظامی مشینری ہوتی ہے جو پالیسیوں کے نفاذ اور عوامی خدمات کی فراہمی میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے، جبکہ حکومت اور سیاسی قیادت، پالیسی سازی کی ذمہ دار ہوتی ہے،حکومت کے ساتھ بیورو کریسی کے تعلقات کا انحصار کئی عوامل پر ہوتا ہے۔ اول، سیاسی مداخلت،بعض اوقات حکومتیں بیورو کریسی میں مداخلت کرتی ہیں، جس سے سرکاری ملازمین پر دباو بڑھتا ہے، سیاسی تقرریاں اور تبادلے بیوروکریسی کی خود مختاری کو متاثر کر سکتے ہیں۔
دوم،پالیسیوں کا نفاذ،حکومت کی کامیابی کا دارومدار اس بات پر ہوتا ہے کہ بیوروکریسی کس حد تک ان کی پالیسیوں کو نافذ کرکے ثمرات نچلی سطح تک منتقل کرتی ہے،اگر بیوروکریسی موثر طریقے سے کام نہ کرے، تو حکومتی منصوبے ناکام ہو سکتے ہیں۔سوم جوابدہی اور شفافیت،حکومتیں اکثر بیورو کریسی سے شفافیت اور جوابدہی کا مطالبہ کرتی ہیں تاکہ بدعنوانی کو روکا جا سکے، لیکن بعض اوقات بیوروکریسی اپنی اندرونی پیچیدگیوں کی وجہ سے تاخیری حربے استعمال کرتی ہے۔چہارم تعلقات کا تنازعہ،اگر حکومت اور بیوروکریسی کے درمیان ہم آہنگی نہ ہو، تو انتظامی عمل میں رکاوٹیں پیدا ہو سکتی ہیں، اس کے نتیجے میں حکومت کی کارکردگی پر منفی اثر پڑ سکتا ہے۔
پاکستان میں دفتری یا بیوروکریسی کا نیا نظام کیسا ہونا چاہیے اس بارے میں تو پھر کبھی بعد میں بات کی جائے گی مگر میں چند دن پہلے ڈان میں عدیل واحد کا ایک آرٹیکل پڑھ رہا تھا جو انہوں نے ایک امریکی ریسرچر میتھیوہل کی کتاب،گورنمنٹ آف پیپر کے حوالے سے لکھا ہے۔میتھیو اس نظام پر طنز کرتے ہوئے لکھتے ہیں:موجودہ پاکستان کے سی ڈی اے یا کسی ترقیاتی ادارے میں خدمات انجام دینے کے لئے اب بھی کسی رسمی تربیت کی ضرورت نہیں، 2012ء میں شائع ہونے والی اپنی کتاب گورنمنٹ آف پیپر،دی مٹیریئلٹی آف بیوروکریسی ان اربن پاکستان،،میں میتھیو ہل لکھتے ہیں، پاکستان میں کمیونیکیشن اور فائلوں کو ہینڈل کرنے کا رسمی طریقہ ایک صدی پرانا ہے اور اس میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوئی، وہی پرانی بیوروکریٹک روایات آج بھی ماضی میں زندہ ہیں،تاہم مسئلہ صرف یہاں تک محدود نہیں،پورا بیوروکریٹک ڈھانچہ خامیوں کے پیوند اور عیبوں سے جڑا ہوا ہے اور یہ خامیاں اور نقائص معمولی درجے کے نہیں، مجموعی طور پریہ بیورو کریٹک نظام برطانوی نوآبادیاتی نظام کا تحفہ ہے، جو اس حکومتی ڈھانچے کی نقالی ہے جو احساس برتری میں مبتلا لوگوں نے ان مقامی باشندوں کے لئے نافذ کیا جن سے سامراج کو شدید نفرت تھی، اس نفرت کا یہ عالم تھا کہ جگہ جگہ مرکزی دروازے اس تحریر سے مزین ہوتے،، کتوں اور ہندوستانیوں کا داخلہ منع ہے۔
وہ لکھتے ہیں کہ بھرتی سے ریٹائرمنٹ تک یہ بیورو کریٹک سسٹم بے معنی اور گورکھ دھندہ ہے، عمومی مہارتوں کے حامل بیوروکریٹس مختلف مضامین میں امتحانات دیتے ہیں،اس پورے عمل میں جانچنے اور منتخب کرنے کا عمل بھی برسوں پرانا اور منتخب ہونے کے بعد وہ ہر فیلڈ کے ماسٹر بن جاتے ہیں۔ان کی ورکنگ میں عوامی خدمت اور آسانیوں کی بجائے سرخیاں، ڈایاگرام، سپیلنگ، مختلف رنگوں کے مارکر اور قلم اہمیت رکھتے ہیں، اس دوران، جن مضامین کا رٹالگایا ہوتا ہے ان کا ان دفتری امورسے شاذ و نادر ہی تعلق ہوتا ہے جو امیدوار نے کامیابی کے بعد انجام دینا ہیں، یہ عمل نوکری کی تیاری نہیں بلکہ ایک قدیم امتحانی عمل کو زندہ رکھنے کی اعصاب شکن کوشش ہے، جو یہ سکھاتا ہے کہ کیسے بالکل بے مزہ غیر فعال لہجے میں سمری لکھنی ہے، ایک سخت اور قدیم انگریزی میں جو شائد کہیں اور لکھی یا بولی نہ جاتی ہو۔ہل اپنی کتاب میں ایک بظاہر طاقتور بیوروکریٹ کا حوالہ دیتے ہیں جو اعتراف کرتا ہے کہ آپ کے پاس بڑا عہدہ ہو نے کا یہ مطلب نہیں کہ آپ کچھ ڈیلور کر سکتے ہیں، اس کا مطلب صرف یہ ہوتا ہے کہ آپ اور آپ کے دوستوں کو کوئی ذاتی مسئلہ پیش آئے تو آپ اس سے نجات حاصل کر سکیں۔
تربیتی عمل کے دوران بھی توجہ ایسی کردار سازی ہے جو عام لوگوں سے الگ ہے، حکمرانوں اور عام لوگوں کے درمیان خلیج پیدا کرنے کیلئے بیوروکریٹس کو مخصوص طریقے سے لباس پہننے، قول و فعل اور مخصوص اتھارٹی کے ساتھ بولنے کی تربیت دی جاتی ہے،تربیت کا بنیادی مقصد یہ نہیں ہوتا کہ فرائض منصبی کو کیسے ادا کیا جائے بلکہ یہ سکھایا جاتا ہے کہ لہجہ،رویہ اور مزاج کیسا رکھنا ہے، عوامی خدمت کا جذبہ پیدا نہیں کیا جاتا،اس تربیت کا مقصد ایک بیوروکریٹ کو ایسی مخلوق میں تبدیل کرنا ہے جو اپنے آپ کو عام آدمی سے مکمل طور پر الگ تصور کرے، جس کیلئے بیورو کریٹ کو حقارت سے بات کرنے، دیکھنے اوربدن بولی کی ترغیب دی جاتی ہے۔ ابتدائی تعیناتیوں میں، بیوروکریٹ کو محافظ، چار پہیوں والی گاڑیاں اور نوآبادیاتی دور کے بڑے بڑے مکانات دئیے جاتے ہیں،یوں بیورو کریسی کی تربیت ہی ایسے کی جاتی ہے کہ وہ کوئی آسمانی مخلوق ہیں،عام شہریوں سے بلند و بالا اورہر کوئی ان کو جوابدہ اور یہ کسی کو جوابدہ نہیں،یوں وہ صرف اپنے اعلیٰ افسروں، اقتدار میں آنے والے سیاستدانوں اور وردی والے افراد کے سامنے جوابدہ ہوتے ہیں۔اس کرو فر سے گورننس کا ڈھانچہ چلتا ہے جو اشرافیہ کیلئے،اشرافیہ میں سے اور اشرافیہ کے ذریعے ہے،سالہا سال تجربے کے بعد بیوروکریٹس ترقی کرتے جا تے ہیں لیکن ان کی عمومی مہارتیں اہم وزارتوں جن کی وہ ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں ان وزارتوں کو بہترین انداز میں چلانے میں معمولی مددگار بھی ثابت نہیں ہوتیں، کابینہ اپنے فیصلے بیوروکریٹس اور ان کے ماتحتوں کی تیار کردہ رپورٹس پر کرتی ہے،یہ اکثر بیوروکریٹک زبان میں موٹی، مواد اور عمل میں پتلی ہوتی ہیں۔ ہل،کے بقول بدتر یہ کہ بیوروکریٹس عام طور پرکسی ایک جگہ پر اتنی دیر تک تعینات نہیں رہتے کہ کسی ایک وزارت،منصوبہ،موضوع کے بارے میں گہرائی سے سمجھ پیدا کر سکیں،ہر نئی حکومت کے ساتھ اور یہاں تک کہ سیاسی استحکام کے ادوار میں بھی بیورو کریٹس کے تبادلے عام روائت ہے، صبح ایک بیورو کریٹ زرعی پالیسی کی تشکیل میں سر کھپاتا ہے تو شام کو تبادلہ کے بعد اعلیٰ تعلیم کے مستقبل کا خاکہ تیار کر رہا ہوتا ہے،اور پھر ہر بیوروکریٹ کا اپنا ایک الگ انداز، فہم اور موضوع کے بارے میں نقطہ نظر ہو سکتا ہے“۔
حرف آخر، ہمیں اپنے فرسودہ اور آزمودہ نظام کو درست ڈگر پر لانا ہو گا، سگار کا دھواں اڑانے والے اور ٹائی کے ذریعے ہر وقت اکڑی ہوئی گردن ٹائپ بیوروکریٹس کی بجائے ایسے افسر سامنے لانا ہوں گے جو عوامی خدمت کو اپنا شعار بنائیں،ہمیں نو آبادیاتی طبع کے حامل افسروں کی بجائے آزاد قوم کے ذہنی آزاد افسروں کا کیڈر تراشنا ہو گا۔