پہلا دن اوکھے سوکھے گزرا،صبح آنا شام کو لوٹ جانا، کوئی کام نہ بات چیت،میری حالت ان چارپانچ دنوں میں اس محاورے جیسی تھی ”لوٹ کے بدھو گھر کو آئے“

مصنف:شہزاد احمد حمید
قسط:294
منسٹر کے دفتر میں؛
ایس اینڈ جی اے ڈی کاعملہ کبھی بھی نہیں چاہتا کہ کسی دوسرے محکمہ سے افسر آ ئے اور ان کا باس بنے۔ مجھے بھی ایسے ہی رویہ کا سامنا تھا۔ میں نے ان سے تعارف کرایا تو مجھے بد دلی سے بیٹھنے کا کہا۔یہ ظہور تھا۔ منسٹر کا پی ایس۔ 12 بجے کے قریب وزیر صاحب تشریف لائے۔سوٹ پہن رکھا تھا۔ لمبا اونچا قد،ر عب دار شخصیت۔ سلام دعا کے بعد میں نے اپنا تعارف کرایا اور انہوں نے ظہور سے کہا؛”انہیں واپس بھیج دو اسمبلی اجلاس کے بعد بلا لیں گے۔“ میں جانے لگا تو خود ہی بولے؛”چلیں انہیں اپنے کمرے میں بٹھائیں۔“ ان کے ساتھ ایک سمارٹ سا نوجوان بھی تھا۔مجھے یہ چہرہ شناسا لگا۔ تھوڑی دیر بعد اس کا میرا تعارف ہوا۔ یہ مشہود شورش تھا۔ وزیر صاحب کے پی آ ر او۔ پبلک ریلیشن افسر۔) شورش کاشمیری کے فرزند، ایف سی کالج کے گریجوئیٹ۔اُس سے کہیں ایف سی کالج میں ہوئی ملاقات یاد کے دریچے سے محو ہو چکی تھی۔ اخباری رپوٹرز سے ان کے شاندار مراسم کی ایک بڑی وجہ ان کے والد گرامی کا نام تھا۔ مشہود گفتگوسے سننے والوں کا من جیت لیتا، خوش لباس، خوش شکل اور وزیر صاحب کے بہت قریب تھا۔ پہلا دن اوکھے سوکھے گزرا، شام کو گھر لوٹ گیا۔مجھے نہیں معلوم تھا کہ اگلے چند روز تک میرا ایسا امتحان جاری رہنا تھا۔صبح آناا اور شام لوٹ جاتا نہ کوئی کام نہ کوئی بات چیت۔میری حالت ان چارپانچ دنوں میں بس اس محاورے کے مصداق تھی ”لوٹ کے بدھو گھر کو آئے۔“ دفتری عملہ بھی مجھ سے زیادہ بات چیت نہ کرتا تھا۔ ایک روز یہ سوچ کر دفتر آیا کہ اگر ایسا ہی رویہ رہا تو معذرت کرکے واپس اپنے دفتر چلا جاؤں گا۔ دوپہر تک میرے ساتھ پہلے دن والا ہی سلوک تھا۔ بعد دوپہر مجھے موقع ملا میں نے منسٹر صاحب سے کہا؛”سر! اگر میری ضرورت نہیں تو کیامیں واپس ڈیپارٹمنٹ لوٹ جاؤں؟“ کہنے لگے؛”4 بجے میری میٹنگ”لاء ڈیپارٹمنٹ“ میں ہے وہاں پہنچ جائیں۔“میری بلا کو پتہ لاء ڈیپارٹمنٹ کہاں تھا۔
سول سیکرٹریٹ لاہور؛
میرے ساتھ آئیں آپ کو سول سیکرٹریٹ بارے کچھ بتاؤں؛
یہ صوبے کا سب سے بڑا انتظامی دفتر ہے جہاں صوبہ پنجاب کے سب سے بڑے انتظامی افسر”چیف سیکرٹری“اور پولیس کے سب سے بڑے افسر”انسپکٹر جنرل آف پولیس“ کے دفاتر ہیں۔ لوئر مال والے دروازے یعنی مرکزی دروازے سے داخل ہوں تو نظر کے سامنے گول عمارت میں چیف سیکرٹری، سیکرٹری داخلہ، سیکرٹری آئی اینڈ سی کے دفاتر ہیں۔ گیٹ کے دائیں جانب چیف منسٹر کا دفتر، منسٹرز بلاک(ایچ بلاک) ہے۔ یہیں سروسز اینڈ جنرل ایڈمینسٹریشن ڈیپار ٹمنٹ(ایس اینڈ جی اے ڈی) کے 2 کمیٹی رومز”دربار ہال اور مرکزی کمیٹی روم“ ہیں۔ دربار ہال کے ساتھ محکمہ تعلیم اورکمیٹی روم سے ملحقہ محکمہ خزانہ کے دفاتر ہیں۔اس سے آگے کنٹین جبکہ اس سے اگلی عمارت میں ایڈیشنل چیف سیکرٹری کا دفترہے۔ ایڈیشنل چیف سیکرٹری کے دفتر کے سامنے ایس اینڈ جی اے ڈی کا دفتر ہے۔ایڈیشنل چیف سیکرٹری کے دفتر کے پچھلی جانب، محکمہ داخلہ، محکمہ صحت کے دفاتر ہیں اور ان دفاتر کی بغل سے راستہ کمشنر لاہور کے آفس جاتا ہے۔ مرکزی گیٹ کے بائیں ہاتھ محکمہ بلدیات، آئی جی پنجاب(بعد میں آئی جی پنجاب کا دفتر اپنی موجودہ جگہ بنک روڈ پرانی انار کلی لاہور شفٹ ہو گیا اور پرانا آئی جی دفتر ہمیں مل گیا تھا جبکہ آئی جی سیکرٹریٹ میں نئے محکمے پبلک پراسیکویشن کا دفتر قائم کیا گیا۔ نئی وازرت کے پہلے وزیر بھی راجہ صاحب ہی تھے۔ اسی عمارت میں پا رلیمانی سیکرٹری ہوم کا دفتر بھی تھا۔) اس سے ملحقہ عمارت میں مغل دور کا مشہور کردار(”انار کلی“ دفن ہے اور یہیں آرکیو ڈیپارٹمنٹ بھی ہے۔ اس سے اگلی عمارت میں لا ڈیپارٹمنٹ کے دفاترہیں جبکہ اس کے پیچھے جامع مسجد ہے۔ یہ ہے مختصر تعارف سول سیکرٹریٹ لاہورکا جہاں مجھے اگلے پانچ سال ڈیوٹی انجام دینی تھی۔ (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔