اتحاد عالم اسلامی اور موجودہ مسلم قیادتیں 

اتحاد عالم اسلامی اور موجودہ مسلم قیادتیں 
اتحاد عالم اسلامی اور موجودہ مسلم قیادتیں 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 بین الاقوامی حالات کے تناظر میں اہل شعور کے ہاں اِس وقت کسی چیز کی سب سے اشدضرورت محسوس کی جا رہی ہے تو وہ اتحاد عالم اسلامی ہے۔ ہر چند کہ اس کے راستے میں اتنے کانٹے بچھا دیئے گئے ہیں کہ ان کو چننا جوئے شیر لانے سے کم نہیں ہے، اس کی کوششیں ماضی میں بھی ہوئیں اور اس کے لئے کردار ادا کرنے والوں کو نشان عبرت بنا کریہ پیغام بھی دیا گیا کہ جو بھی ایسا سوچنے کی کوشش کرے گا اسے اپنوں کے ہاتھوں ہی رسوائی کا منہ دیکھنا پڑے گا، کیا کسی عمل خیر کو اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے ممکنہ خطرات کے پیش نظر چھوڑ دینا چاہئے یہ بہت اہم سوال ہے جس کا جواب دنیاوی منفعت سے کہیں آگے جا کر اُمت مسلمہ کے حکمرانوں کو صرف بطور مسلمان سوچنے کی ضرورت ہے اگر اس سوال کا جواب تھوڑا گہرائی میں جا کر تلاش کریں تو سوائے ایک حیران کر دینے والی شرمندگی کے کچھ دکھائی نہیں دے گا کہ ہم نے تو خود کو اس وحدت کی لڑی میں پرو کر سوچنے سے کوسوں دور کر لیا ہے اور یہ حادثہ ایک دم نہیں ہوا،بلکہ اس کے پیچھے اغیار کی برسوں کی محنت ہے، جس کے نتیجے میں حالات اس نہج تک پہنچ گئے ہیں کہ عالم اسلام کی قیادتوں کی ساری دوڑ مادیت پرستی کی نذر ہو کر رہ گئی ہے۔اس سارے عمل کے پیچھے سب سے بنیادی چیز اہل ا ور باشعور قیادت کے راستے کو مسدود کرنا تھا،جس میں کامیابی کے بعد وہ اب اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ ہر کوئی اپنی اپنی سرحدی چار دیواری کا قیدی ہو کر رہ گیا ہے۔اِس وقت ستاون اسلامی ممالک کی قیادتیں اسی فارمولے کے تحت پروان چڑھائی گئی ہیں کہ کوئی بھی اتحاد عالم اسلامی جیسے اہم ترین معاملے پر عملی اقدام تو دور کی بات سوچنے کی ضرورت بھی محسوس نہ کرے۔ عرصہ دراز سے عالم اسلام پر فکری، نفسیاتی اور عملی یلغار جاری ہے،جس کا شکار بہت سے اسلامی ممالک ہو چکے ہیں۔اس راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ذہنوں پر مادیت پرستی کے غلبے والی قیادتوں کا مسلط کر دیا جانا ہے، جنہوں نے اپنی اپنی قوموں کو معاشی بدحالی کے ذریعے جکڑ رکھا ہے۔ایک ایسا نظام وضع کر دیا گیا ہے، جس میں کسی بھی طرح مسلم معاشروں کی نمائندہ قومی قیادت سامنے آنے کے قابل ہی نہیں رہی کہ اس کا تعلق دولت کے انبار کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے اور اسی کے حصول کے لئے طاقتور کمزوروں کا استحصال کرتے چلے جا رہے ہیں۔ مسلمان ممالک کی اکثریت کو قرضوں کے شکنجے میں کسنے کا عمل بھی انھی وسیع تر مقاصد کے حصول کا ایک تسلسل ہے، جس کے ذریعے اپنی مرضی کے لوگ اور اپنی مرضی کی رائے عامہ ہموار کی جاتی ہے۔قرض کے پیسوں سے مہنگے ترین پروٹوکول اور غیر حقیقی مراعات کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے جو ایک گہرے بھنور کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ تقسیم در تقسیم کا عمل صرف ستاون اسلامی ممالک کے بحیثیت مجموعی بیرونی حجم پر نہیں،بلکہ اسے اندرونی طور پر بھی اسی طرح منقسم رکھنے پر بہت ذہانت سے کام کیا گیا ہے،جہاں مسلکی و فروعی اختلافات کی ایک نہ ختم ہونے والی داستان ہے، جس میں ہر کوئی دوسرے کو مسلمان ہی سمجھنے کو تیار نہیں۔ دنیا میں بسنے والے دو ارب مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم اوآئی سی انہی قیادتوں کی مرہونِ منت ہے،جو اسی خاص نظام کے تحت پروان چڑھائی جاتی ہیں اور اسی لئے کبھی بھی اس پلیٹ فارم سے کوئی موثر آواز نہیں اٹھائی جا سکی، اس کے کسی بھی اہم معاملے پر ہونے والے اجلاس یا تو منعقد ہی نہیں ہونے دئیے جاتے یا پھر اس میں کوئی ایسا مشترکہ اعلامیہ ہی جاری نہیں ہو پاتا جسے مسلم امہ کی مجموعی حقیقی آواز کہاجا سکے۔ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامنے کی آیت کتاب اللہ میں روز ہمیں اسی وحدت کا پیغام دے رہی ہے، جس کی لڑی میں پروئے جانے سے ہی مسلمانی کا دعوی سجتا ہے۔ رسولِ خدا کا یہ فرمان کہ”مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں، جس کے کسی ایک حصے کو تکلیف پہنچے تو سارا جسم اس درد میں مبتلا ہو جاتا ہے“ ہماری قیادتوں کے دعوی ایمان کو پرکھنے کی کسوٹی ہے۔ قبلہ اول کے امین فلسطینی مسلمانوں پر ہونے والی جدید حقو ق کے علمبرداروں کی آشیر باد سے ہونے والی بدترین بربریت نے ان کی انسانی حقوق کی قلعی کا پول بھی کھول کر رکھ دیا ہے۔اس درندگی سے نہ معصوم بچے محفوظ ہیں، نہ عورتیں،نہ شفاخانے،نہ نہتے شہری اور نہ رہائشی عمارتیں اور سوچنے کی بات یہ ہے کہ وہ یہ سب اپنے مذہبی عقائد کے پیش نظر کر رہے ہیں،جس پر جدید دنیا اسے ان کا دفاعی حق کہہ رہی ہے اور دوسری طرف مسلم اُمہ کی قیادتیں ہیں،جن کا اول آخر کتاب اللہ اور انسان کاملکی تعلیمات کے ساتھ جڑا ہوا ہے وہ اس پر خاموشی کی چادر اوڑھے ہوئے ہیں۔اگر اب بھی اتحاد عالم اسلامی کی راہ ہموار کرنے کی طرف پیش قدمی نہ کی گئی تو ایک ایک کر کے سب کو ایسی صورت حال کے لئے تیار رہنا چاہئے جیسا ماضی میں بھی ہوا اور مستقبل قریب میں اس کے واضح اشارے دکھائی دے رہے ہیں۔اس پر مجرمانہ خاموشی بظاہر تو اپنے اقتدار اور دولتوں کو بچانے کے لئے روا رکھی جا رہی ہے، لیکن دراصل یہ کبوتر کی طرح بلی کو دیکھ پر آنکھیں بند کر لینے کے مترادف ہے جسے لگتا ہے کہ اب میں اسے دکھائی نہیں دے رہا۔ مسلم اُمہ کسی صلاح الدین ایوبی، نور الدین زنگی اور محمد بن قاسم جیسے قوتِ ایمانی سے لبریز مردان حق کی راہ دیکھ رہی ہے جن کا ذکر اور تابندہ تاریخ بھی ہماری نسلوں کی آنکھوں سے اوجھل کر دی۔

مزید :

رائے -کالم -