پروفیسر خورشید، متبرک حلقہ ہائے زنجیر کی آخری کڑی

اقبال نے وادی نجد کے جس شور سلاسل کا نوحہ لکھا تھا وہ ابن آدم کا یزداں سے شکوہ ہے اور بس۔ شور سلاسل تو ہر جگہ، ہر وقت بپا رہتا ہے۔ تہذیب اسلامی کے ناتواں ہوتے ہی ہمیں کوئی آشفتہ سر سب کچھ تج کر سینہ تانے کھڑا ملتا ہے۔ مغل بادشاہ نے رواداری کے نام پر مشرکانہ افعال عام کیے تو شیخ احمد سرہندی کنبہ چھوڑ کر گوالیار کے عقوبت خانے میں جا بیٹھے۔ سرداد نہ داد دست در دست جہانگیر۔ فکری گزند پہنچائے بغیر میں کہوں گا کہ اگلے مجدد 18 ویں صدی کے شاہ ولی اللہ ہند کی لاغر اسلامی معاشرت کے لئے علامہ اقبالؒ ہی تو تھے۔ وحشت زدہ مسلم معاشرت اور سیاست کو شاہ جی نے بہت بڑی حد تک اسلامی تعلیمات کے رنگ میں رنگ دیا۔ پھر سو سوا سو سال تک مسلمان شاہ ولی اللہ کی تعلیمات پر چلتے رہے۔ لیکن پاؤر ہاؤس نہ رہے تو تاریکیاں ڈیرے ڈال لیتی ہیں۔ شاہ جی کی رحلت کے ساتھ ہی مسلم معاشرت پھر مضحمل ہوتی چلی گئی۔ تب علامہ اقبالؒ کی صورت میں وہ تابندہ قطبی تارا نمودار ہوا جس کی کرنیں برصغیر اور کل عالم کو منور کرنے لگیں۔
مقامی معاشرت میں بتدریج ضم ہوتی اسلامی تہذیب کو علامہ مرحوم نے مجدد کی آنکھ سے دیکھا تو ہند کی کایا پلٹ گئی۔ اور یوں ان کی فکر کے نتیجے میں 1300 سال بعد نیا اسلامی ملک بن گیا۔ اسی عہد میں مولانا قاسم نانوتوی رحمہ اللہ اور ابو الکلام آزاد مرحوم جیسی قد آور شخصیات بھی ابھریں۔ اول الذکر کی فکر و میراث مسلکی تنگنائیوں میں یوں الجھی کہ آج یہ لوگ برصغیر اور ارد گرد میں دین کے کسی جزیے کو لے کر چل رہے ہیں۔ رہے موخر الذکر تو اعلیٰ فکری خوبیوں کے باوجود افسوس وہ وطنی قومیت کے آسیب کا شکار ہوکر شعلہ مستعجل بن گئے۔
اقبال کی فکر کے نتیجے میں پاکستان قائم ہوا تو قائداعظم اپنے اس کارنامے کے سبب اللہ کو اتنے پیارے ہوئے کہ انہیں اللہ نے فورا اپنے پاس بُلا لیا۔پھر صدر، وزیراعظم وغیرہ ملک کو الل ٹپ طریقے پرچلانے لگے۔ لیکن احمد سرہندی، شاہ ولی اللہ اور اقبال کی اگلی کڑی سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒمصر رہے کہ یہ ملک صرف محمد عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کا ہے۔ یہاں انہی کا نظام چلے گا۔ اس ضد کی پاداش میں وہ پابند سلاسل ہوئے، کال کوٹھڑی میں رہے، انہیں تختہ دار کا سندیسہ تک سنا دیا گیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ضدی اور دھن کے پکے سید مودودی باہر نکل کر پاکستان ہی نہیں کل عالم کو اللہ کا گھر بنانے پر تل گئے۔
احمد سرہندی، شاہ ولی اللہ اور اقبال کے برعکس سید مودودی کے پاس جدید محیر العقول ابلاغی وسائل تھے۔ انہوں نے ان ذرائع رسل و رسائل کو اسلام کا آفاقی پیغام پہنچانے میں اتنا استعمال کیا کہ آج شاید کوئی ایک قابل ذکر ملک نہیں جہاں جہانگیر و عالمگیر فکر مودودی اپنا رنگ نہ جما چکی ہو۔ ابھی پچھلے مہینے برطانوی پارلیمان میں ایک وزیر چلا رہا تھا: ”ہم یہاں فکر مودودی اور حسن البنا کی سوچ رائج نہیں ہونے دیں گے، ہر گز نہیں ہونے دیں گے“۔ جدید ذرائع رسل و رسائل سے پیدا شدہ روابط نے بیسویں صدی کی فکر اسلامی کی خوب اشاعت کی۔ موازنہ نہیں بیان ہے کہ سید مودودی اور حسن البنا و سید قطب اپنے اپنے ماحول اور ضروریات کے پیش نظر ایک ہی فکر بعنوان ”اسلام بحیثیت کل“ کی ترویج و اشاعت کرتے کرتے رب سے جا ملے۔
میں لگ بھگ 50 برس قبل سید مودودی کی حقوق الزوجین اٹھائے کالج کے اپنے استاد ظفر حجازی کے آگے جا بیٹھا: ”جناب سید مودودی نے اچھی باتیں لکھی ہیں لیکن سرخسی اور دیگر بڑے فقہاء کا ان سے کیا موازنہ؟ قدآور فقہا سے اختلاف کرتے وقت انہیں اپنے مرتبے کا خیال رکھنا چاہیے تھا۔“ حجازی صاحب مسکرا کر بولے: ”شہزاد, یہ فقہا چند صدیاں قبل پیدا ہونے کے سبب تمہارے محترم ہیں۔ سید مودودی کے بارے میں تمہارا ذہن ان کے معاندین کی آرا سے لتھڑا ہوا ہے لہٰذا تم انہیں وہ مقام نہیں دے پا رہے جو ماقبل کے فقہا کو دے چکے ہو، ورنہ ان فقہا کے معاندین کی آرا پڑھو تو تم انہیں اس عہد کا سید مودودی ہی پاؤ گے۔ سنو! آٹھ سو سال بعد ایک اور شہزاد تب کے کسی فقیہ کا موازنہ سید مودودی سے کرتے وقت وہی کہے گا جو آج تم کہہ رہے ہو۔ صحیح نہ تم ہو نہ وہ شہزاد ہو گا“۔
میں نے اپنے استاد کے اس بلیغ قول کی روشنی میں نتیجہ نکالا کہ شیخ احمد سرہندی، شاہ ولی اللہ، علامہ اقبال اور سید مودودی کا دمکتا ہوا تسلسل پروفیسر خورشید احمدؒ ہی تھے۔ میں نے کتب فقہ میں جس موضوع کا مطالعہ کر کے آج کے سماجی علوم کی جس شاخ پر نظر ڈالی، پروفیسر خورشید رحمہ اللہ مجھے ہر جگہ نظر آئے۔ سوچا ان کی مختصر سی چند لفظی شناخت کیا ہو گی، جواب آیا: ”کل عالم انسانیت میں اسلامی نظام اقتصاد کا تعارف کنندہ اور بلا سود بینکاری کا موجد“۔صاحب آج کے تمام مسائل انہی موضوعات کے گرد گھومتے ہیں اور پروفیسر خورشید مرحوم شیخ احمد سرہندی، شاہ ولی اللہ، علامہ اقبال اور سید مودودی کے کنبے کے آخری فرد تھے۔ میں تو انہیں امام ابو یوسف کہوں گا، کتاب الخراج والا ابو یوسف، امام ابو حنیفہ کا شاگرد خاص ابو یوسف۔
مرحوم سے میرا تعلق 46 سال کا ہے۔ سات سال سے میں ان کے ادارے میں کام کر رہا ہوں۔ تدوین، خشیت الہی اور انفاق فی سبیل اللہ کے اعتبار سے میں نے انہیں ولی کامل پایا۔ بین الاقوامی طور پر مسلمہ مفکر، استاد، بلند پایہ سیاست دان، ماہر معاشیات معلوم نہیں وہ کیا کیا تھے۔ ان سب کے باوجود وہ اقبال کے شور سلاسل کی آخری کڑی تھے۔ آج عالم اسلام اور مسلم ممالک کے ایوان ہائے اقتدار کس قدر مغموم ہیں، جامعات میں کتنا گہرا سناٹا ہے، سیاست دان کتنے غمزدہ ہیں، اسلامی نظام معیشت کے نظری پہلوؤں کو انہوں نے کیا عملی روپ دیا، جماعت اسلامی کے نائب امیر اور طویل مدت تک سینیٹر رہنے کے باعث انہیں سیاست دان بھی کہا جاتا ہے، ان کا انداز سیاست کیا تھا۔ میرا اور میری اہلیہ کا ان سے خاندانی تعلق رہا لہذا میں مائیکرو کے پہلوبہ پہلو میکرو سطح پر ان کی انسانی خوبیوں کا ذکر بھی کروں گا، وہ عالمگیر خوبیاں جو انسان کو مذہب اور زمان و مکان سے اٹھا کر فضائے بے بسیط کے اوج کمال (zenith) پر لا کھڑا کر دیتی ہیں۔ مرحوم بلا شبہ چاروں مذکورہ بالا شیوخ کے سلسلے کی آخری کڑی تھے۔ (باقی آئندہ)