گاڑی میں کتابیں پڑھنے کا اپنا ہی لطف ہے، خاص طور پربالائی نشست یعنی برتھ مل جائے تو انسان دنیا و مافیہا سے بے نیاز ہو کر کتب بینی میں گم ہو جاتا ہے

 گاڑی میں کتابیں پڑھنے کا اپنا ہی لطف ہے، خاص طور پربالائی نشست یعنی برتھ مل ...
 گاڑی میں کتابیں پڑھنے کا اپنا ہی لطف ہے، خاص طور پربالائی نشست یعنی برتھ مل جائے تو انسان دنیا و مافیہا سے بے نیاز ہو کر کتب بینی میں گم ہو جاتا ہے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:محمدسعیدجاوید
 قسط:104
جیسے ہی گاڑی بڑے ریلوے اسٹیشن یا کسی جنکشن پر رکتی ہے تو اس کے طویل ٹھہراؤ کا فائدہ اٹھا کر مسافر بھی نیچے اتر آتے ہیں اور ادھر ادھر گھومنا شروع ہو جاتے ہیں۔ ہر بڑے اسٹیشن کے پلیٹ فارم پر لازمی طور پر کتابوں کا ایک اسٹال بھی موجود ہوتا ہے جہاں ہر قسم کی کتابیں، جریدے، ڈائجسٹ اور اخبار مل جاتے ہیں۔ اکثر صاحب ذوق حضرات دوران سفر مطالعہ کے لیے کچھ کتابیں یا رسالے وغیرہ خرید کر رکھ لیتے ہیں۔ یہ سلسلہ صدیوں سے چلا آ رہا ہے۔ اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ گاڑی میں کتابیں پڑھنے کا اپنا ہی ایک لطف ہے، خاص طور پر اگربالائی نشست یعنی برتھ مل جائے تو انسان دنیا و مافیہا سے بے نیاز ہو کر کتب بینی میں گم ہو جاتا ہے۔ اب جب کہ بات کتابوں تک آن ہی پہنچی ہے تو اس تعلق سے ایک خوبصورت کتاب کے بارے میں قصہ چھیڑتے ہیں جس کی پلیٹ فارم پر بنے ہوئے اس بْک سٹال پر سب سے زیادہ مانگ ہوا کرتی تھی۔
ریلوے ٹائم ٹیبل
ایک دور تھا جب ہر دوسرا پڑھا لکھا اور مطالعے کا شوقین مسافر کتابوں اور رسالوں کے علاوہ جو ایک اور شاندار کتاب خریدا کرتا تھا وہ ریلوے ٹائم ٹیبل ہوتا تھا۔یہ ایک ضخیم کتاب ہوتی تھی جس میں محکمہ ریلوے کی طرف سے بے شمار معلومات دی جاتی ہیں، یہ انگریزی اور اردو،  دونوں زبانوں میں چھپتا تھا۔ اور اس کی قیمت نہایت معمولی محض آٹھ آنے ہوتی تھی۔لیکن اس میں اتنا زیادہ مواد موجود ہوتا تھا کہ اگر کوئی مسافر سنجیدگی سے اس کو پڑھنا شروع کردے تو کراچی سے لاہور تک کا سفر بڑے آرام اور سکون سے کٹ جایا کرتا تھا۔ اس ٹائم ٹیبل میں نہ صرف مرکزی لائن کے اسٹیشنوں پر چلنے والی تمام گاڑیوں کی آمد و رفت کے اوقات تحریر ہوتے تھے بلکہ برانچ لائنوں کے بارے میں بھی یہ معلومات ہوتی تھیں کہ وہاں چلنے والی گاڑیاں کون سے جنکشن سے بن کر روانہ ہونگی اور اپنی منزل مقصود تک پہنچنے کے لیے مختلف اسٹیشنوں پر اس کی آمد اور روانگی کے کیا اوقات ہوں گے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب نہ تو موبائل فون ہوتے تھے اور نہ ہی کوئی اور صورت ہوتی تھی جس سے مسافروں کو گاڑیوں کی رفتار یا ہونے والی تاخیر کا اندازہ ہو سکتا تھا۔ اس بات کا علم بھی نہیں ہوتا تھا کہ اگلا اسٹیشن کونسا ہے، تب یہ ٹائم ٹیبل ہی تھا جو ہر قسم کی معلومات فراہم کیاکرتا تھا۔
 کچھ شاطر لوگ گزرے ہوئے اسٹیشنوں کا نام پڑھ کر ٹائم ٹیبل میں اس کے سامنے اس گاڑی کی آمد کا متوقع وقت دیکھتے اور پھرگھڑی پر وقت دیکھ کر اور سادہ سی جمع تفریق کرکے فوراً اعلان کردیتے تھے کہ گاڑی اپنے وقت سے 20 منٹ تاخیر سے چل رہی ہے اور اگلا اسٹیشن کون سا ہے اور اندازاً کب تک آئے گا۔ ہر چند کہ لمبے سفر کے مسافروں کے لیے یہ جاننا ضروری نہیں ہوتا تھا پھربھی وہ سر جوڑے اس حساب کتاب میں شامل ہو جاتے تھے کہ اس سے وقت اچھا کٹ جاتا تھا۔اس کے علاوہ اس میں تمام گاڑیوں کا ایک اسٹیشن سے دوسرے تک کا کرایہ نامہ بھی ہوتا تھا۔ تب پاکستانی روپیہ بہت مضبوط ہوتا تھا اس لیے کئی کئی برس تک گاڑیوں کا کرایہ بھی وہی رہتا تھا۔ کچھ جرمانوں کا تفصیل سے تذکرہ ہوتا تھا جس میں بلا ضرورت زنجیر کھینچنے کا بھاری جرمانہ سب سے اوپر جگہ پاتا تھا جوان دنوں 50 روپے ہوا کرتا تھا۔ ساتھ لے جانے والے منظور شدہ وزن سے زائد سامان کے کرائے وغیرہ کا احوال بھی تفصیل سے بیان کیا جاتا تھا۔ 
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -