مسئلہ کشمیر کا حل کیا ہے؟
جس دن سے بھارتی حکومت نے اپنے آئین میں ترمیم کر کے کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ کیا ہے، اس دن سے اب تک مقبوضہ کشمیر کے بیشتر اضلاع میں کرفیو نافذ ہے۔ بھارتی فوج کشمیری عوام پر مظالم کے نئے ریکارڈ قائم کر رہی ہے۔ کرفیو کے ساتھ ساتھ ہر طرح کے ذرائع ابلاغ اور نقل و حمل پر بھی پابندی ہے۔ موبائل فون سروس اور انٹرنیٹ نہ ہونے کی وجہ سے کشمیریوں کا اپنے عزیز و اقارب سے نہ تو کوئی رابطہ ہے نہ باہر کی دنیا کی کوئی خبر ہے۔ گھروں میں راشن نہ ہونے اور بازاروں میں بھی اشیائے خور و نوش ناپید ہو جانے سے لوگ فاقوں کا شکار ہو چکے ہیں۔ بھارت کنٹرول لائن کی دوسری طرف آزادکشمیر کے عوام پر بھی برابر گولہ باری کر رہا ہے۔ جس میں کلسٹر بموں کا استعمال بھی شامل ہے۔
کشمیر کے اندر آنے والی ظلم کی اس نئی لہر کی بازگشت پوری دنیا تک پہنچی تو ہے اور مسئلہ کشمیر ایک بار پھر سے نمایاں ہو گیا ہے۔ چین کی تحریک پر بلائے گئے سلامتی کونسل کے اجلاس میں کشمیر کی متنازعہ حیثیت کو تسلیم کرتے ہوئے بھارت کی طرف سے یک طرفہ کارروائیوں پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے، مگر یہ ناکافی ہے۔ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ہندوستان ظلم کے تمام حربے آزما کر بھی کشمیر پر اپنا قبضہ قائم نہیں رکھ سکتا۔ پچھلے بہتر برس کی بے انصافیوں اور تیس برس سے ہر طرح کے تشدد، قتل و غارت اور ریاست دہشت گردی کے تمام ریکارڈ توڑنے کے باوجود کشمیر بھارت کے قابو میں نہیں آسکا تو آئندہ کیسے آئے گا؟ لیکن مودی حکومت کی منشا کشمیریوں کو نہیں، کشمیر کی زمین حاصل کرنے کی ہے۔ مودی کے سیاسی کیریئر کا جائزہ لینے سے پتا چلتا ہے کہ اس کی سیاست کا محور مسلمانوں کی مخالفت اور ان کے قتل و غارت سے عبارت ہے۔ یوں تو بھارت کے اندر کوئی بھی اقلیت محفوظ نہیں ہے، لیکن مسلمان جو شاید سب سے بڑی اقلیت ہیں، ان پر سب سے زیادہ سختیاں کی جا رہی ہیں۔
اگست کے مہینے میں کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ کر کے مودی حکومت نے اگست 1947ء میں دو قومی نظریے کے نام پر برصغیر کی تقسیم کو درست ثابت کر دیا ہے۔ کشمیر کے جن سیاسی راہنماوں کو 1956ء میں خصوصی حیثیت کے لولی پاپ سے بھارت نے اپنے ساتھ ملا لیا تھا، آج انہی کی اولاد چیخ اٹھی ہے کہ بھارت پر اعتبار کرنا بہت بڑی غلطی تھی، کیونکہ ہندو ازم کا جن بوتل سے باہر آ جانے پر ایک طرف تو بھارتی عزائم سامنے آگئے ہیں کہ وہ صرف کشمیر کی زمین پر قابض ہونے کے خواہش مند ہیں، کشمیری عوام سے اس کی کوئی دلچسپی نہیں ہے، لیکن دوسری طرف مودی سرکار نے اپنے آئین سے آرٹیکل 370 اور 35 اے کو ختم کر کے اپنے پاؤں پر کلہاڑی مار کر ایسا زخم لگایا ہے جس سے دہائیوں تک خون رستا رہے گا اور اس کا انجام ہندوستان کے ٹکڑے ہونے پر منتج ہوگا۔ جہاں تک پاکستان کے مسئلہ کشمیر پر کردار کا تعلق ہے تو پاکستان نہ صرف کشمیری عوام کا حمایتی، بلکہ وہ اس مقدمے کا ایک بھی فریق ہے۔
پاکستان پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ کشمیر کو بھارتی ظلم واستبداد سے آزاد کروائے، کیونکہ کشمیر کی تاریخی تناظر میں جو بھی حیثیت رہی ہو، لیکن تقسیم ہند کے وقت تقسیم کا جو فارمولا اپنایا گیا تھا، یعنی مسلم اکثریتی علاقے پاکستان اور ہندو اکثریتی علاقے بھارت کے تحت ہوں گے، اس فیصلے کی روشنی میں کشمیر پاکستان کا حصہ ہے،لیکن پچھلے 72 برس میں پاکستان کے اندر سیاسی ابتری کی وجہ سے پاکستان میں نہ تو خارجہ پالیسی کا تسلسل قائم رہا، نہ سفارتی محاذ پر موثر کردار ادا کیا جا سکا، حتٰی کہ مسلم ممالک یا او آئی سی نے بھی مسئلہ کشمیر پر کبھی جاندار آواز نہیں اٹھائی۔ دوسری طرف بھارت نے دنیا کے سامنے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اور سیکولرازم کا نقاب اوڑھ کر اور بڑی منڈی کا لالچ دے کر دنیا کو اپنا ہمنوا بنا لیا۔ موجودہ صورتِ حال میں بھی پاکستان کے اندر اس قومی نکتے پر کوئی موثر اتفاق رائے قائم ہو سکا ہے نہ کشمیریوں کی آواز میں ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ سیاسی قیادت اگر سر جوڑ کر بیٹھے اور اپنے اپنے دکھ درد پس پشت ڈال کر کشمیریوں کا درد اپنا لے اور اس نکتے پر یک آواز ہو جائے تو کشمیریوں کے دل جیتنے اور دنیا کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکتی ہے۔
پاکستان کو اپنے سفارتی محاذ کو مضبوط کرنا چاہیے اور دنیا پر واضح کرنا چاہیے کہ اگر اس مسئلے کو جلد از جلد حل نہ کیا گیا تو پھر جنگ اور شاید ایٹمی جنگ ناگزیر ہو جائے۔ اسی طرح کشمیری قیادت کو بھی بھانت بھانت کی بولیاں بولنے کی بجائے ایک بیانیہ اور ایک صفحے پر ہونا چاہیے۔ اقوام متحدہ کی پاس کردہ قراردادوں میں کشمیریوں کو حق خود ارادیت ان شرائط پر دیا گیا تھا کہ استصواب رائے سے پاکستان یا بھارت سے الحاق کر سکتے ہیں، لیکن ایک لمبے عرصے تک جب ان قراردادوں پر عملدرآمد نہ کروایا جا سکا تو کشمیر کے اندر ایک نئی سوچ اور ایک نئے بیانیہ نے جنم لیا کہ کشمیر کو ایک الگ خودمختار ریاست کے طور پر تسلیم کیا جائے۔ کوئی مانے یا نہ مانے، لیکن کشمیریوں کی ایک بڑی تعداد اس نعرے پر قائم ہے۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ کشمیری الگ الگ موقف پیش کرنے کی بجائے دونوں حصوں کی قیادت آپس میں سر جوڑ کر بیٹھے اور کسی ایک بیانیہ پر اتفاق پیدا کرے، وہ بیانیہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اقوام متحدہ اپنی قرادادوں میں تبدیلی کر کے تیسرا آپشن بھی شامل کرے اور اس کے بعد کشمیر میں استصواب رائے پر عملدرآمد کروایا جائے، پھر جو بھی کشمیریوں کی اکثریت کی رائے ہو، اس کو سارے فریق قبول کرتے ہوئے اس جھگڑے کا خاتمہ کریں، تاکہ کشمیری آزادی سے سانس لے سکیں۔