بلتستان کی شہزادی ہنزہ کے شہزادے کی زندگی میں تبدیلی لانے کےساتھ ساتھ بلتی معمار بھی لائی 

بلتستان کی شہزادی ہنزہ کے شہزادے کی زندگی میں تبدیلی لانے کےساتھ ساتھ بلتی ...
بلتستان کی شہزادی ہنزہ کے شہزادے کی زندگی میں تبدیلی لانے کےساتھ ساتھ بلتی معمار بھی لائی 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف : عمران الحق چوہان 
قسط:164
قلعہ کی چھت سے وادیٔ ہنزہ کا نظارہ بہت دل کش ہے۔ عقب میں امڈتا ہوا التر گلیشئیر اورسامنے راکا پوشی کا فلک بوس اہرام دونوں کے درمیان میں ایک گھناسبز قالین یعنی زیریں ہنزہ ۔ التر گلیشئیر کی ٹھنڈی سفید برفوں کے نیچے ایک شکستہ برج کے آثار تھے۔ یہ ملکہ وکٹوریہ کا برج تھا۔۔۔ جو کبھی تھا۔برامدے کی دیواروں پر مارخور کے سینگوں کی آرائش۔ بالائی کمروں کی چھت پر دروزی ستارے سے مشابہ چوبی گنبد۔ سولہویں صدی میں ہنزہ کے شہزادے کی شادی بلتستان کی شہزادی سے ہوئی تھی۔وہ شہزادی ہنزہ کے شہزادے کی زندگی میں تبدیلی لانے کےساتھ ساتھ بلتی معمار بھی لائی ۔ انہی معماروں نے التیت سے اوپر یہ قلعہ تعمیر کیا۔ جب یہاں آبادی ہوئی تو اس بستی کا نام بلتستان کی رعایت سے بلتیت ہوا۔
کشمیر کے رُخ کھلنے کی نسبت سے کشمیری کہلانے والے دو نوں سرخ چوبی جھروکے مغل ورثے سے تعلق رکھتے ہیں اور 1911-12کے آس پاس لگائے گئے تھے۔ ایک مستطیل شکل میں ہے اور دوسر ا بیضوی، قلعے کی بیرونی سادہ دیواروں کے پس منظر میں یہ جھروکے نہایت خوش نماءدِکھتے اور قلعے کو خوش نما بناتے ہیں۔ انہیں گرنے سے بچانے کےلئے نیچے سے بڑے بڑے شہ تیروں سے سہارا دیا گیا تھا۔
ہمارے عقب میں واقع چھوٹے سے کمرے کے باہر صوفوں پر براجمان سات سازندوں پر مشتمل طائفہ ہنزائی موسیقی کی تانیں بکھیر رہا تھا۔ ان سازندوں میں 3شرنائی (شہنائی) نواز، 2 دماما بجانے والے (روایتی طبلے کی جوڑی میں بڑے کو دھا ما اور چھوٹے کو پُڑاکہتے ہیں۔ دھا ما کو نر اور پڑے کو مادہ سمجھا جاتا ہے۔ دماما کو طبلے کے بچے سمجھ لیں جنھیں پتلی چھڑیوں سے بجا یا جاتا ہے۔ یہ اتنے ہم شکل ،چھوٹے اور نا بالغ سے تھے کہ ان میں مذکر مؤنث کی تفریق ممکن نہیں تھی۔) اور 2 بڑے ڈھولچی تھے، یہ ڈھول بھی پنجاب کے ڈھول سے چھوٹے تھے۔ ان ڈھول بجانے والوں میں ایک استاد گوہر علی خان بھی تھا۔ پٹُو کی ہنزائی ٹوپی اور شلوار قمیض میں ملبوس پچھتّر اسّی سال کے لگ بھگ عمر کا دبلا پتلا استاد گوہر ، جسے ہنزہ کی لوک موسیقی میں ایک دیو مالائی حیثیت اور احترام حاصل ہے، ایک ڈھول کو اپنے زانو پر سنبھالے بیٹھا تھا۔ دائیں ہاتھ میں، میوزک کنڈکٹر کے بیٹن (Baton) جیسی، آگے سے خمیدہ چھوٹی سی پتلی چھڑی، بائیاں ہاتھ خالی جس کی ہتھیلی اور انگلیوں کے سروں پر سفید اسکاچ ٹیپ کی پٹیاں لپٹی ہوئی تھیں۔ استاد گوہر ہنزائی موسیقی کی زندہ تاریخ ہے۔ وہ 1931 سے اس فن سے وابستہ ہے اور اپنی مہارت کی بناءپر میر صاحبان کے دربار سے بھی وابستہ رہا ہے۔میرے لیے یہی اعزاز بہت تھا کہ میں اس عظیم شخص کو لائیوپر فارم کرتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔ سازندوں کی چھیڑی ہوئی ہنزائی موسیقی ہریپ کی آوازپوری وادی میں پھیل رہی تھی۔ 
 ہمارے سامنے کشمیری جھروکے والاگول برامدہ یا دیوان خاص تھا جس میں ایک بہت پرانا چوبی تخت رکھا ہوا تھا جس کا رنگ اڑ چکا تھا اور منبت کاری بھی دھندلا چکی تھی۔تخت کے پیچھے پندرہ سولہ سال کے2 لڑکے، سرخ شرٹوں اور سیاہ پنٹوں میں ملبوس، ہاتھوں میں اصلی لیکن متروک اور از کار رفتہ قدیم تلواریںاور ڈھالیں پکڑے محافظوں کے بہروپ میں کھڑے تھے۔ ان کے چہرے پر اپنی اہمیت کے احساس کے ساتھ لڑکپن کی شرارت تھی اور وہ اس صورت ِ حال سے خود بھی لطف اندوز ہو رہے تھے۔ گینانی کے خاص ہنزائی اجتماع میں صرف ہم ہی غیر ہنزائی تھے اور یہ بات ہمارے لیے نہایت عزت اور خوشی کی تھی۔ 
اس برامدے کے ساتھ کمرے تھے جن کی چھت پر لکڑی کا ستارہ نما گنبد تھا ۔ دروزی ستارا 5 کونا ہوتا ہے ۔ اس ستارے کی پانچوں کرنےں 5 مختلف رنگ ، سبز ، سرخ ، زرد، نیلے اور سفید رنگ کی ہوتی ہیں۔ ہر رنگ کا اپنا الگ باطنی اور مذہبی مفہوم ہے ۔ سبز رنگ عقل کو ظاہر کرتا ہے اور سرخ نفس کو ، زرد رنگ کلمہ ہے جب کہ نیلا رنگ سابق (یعنی گزاری ہوئی زندگی ) اور سفید لاحق ( یعنی موت کے بعد کی زندگی ) کی نمائندگی کرتا ہے۔) لیکن اس وقت جو ستارہ میرے سامنے قلعے کی چھت پر تھا اس کے سارے رنگ بدلتے موسموں اور گزرتے وقت کی نذر ہوچکے تھے ۔مٹی پتھر سے بنے کمروں کے باہر برامدے کی دیواروں پر مار خوروں کی سال خوردہ کھوپڑیاں اپنے پر شکوہ سینگوں کے ساتھ آویزاں تھےں۔ یہ سب کچھ مل کر ایسی فضا ءتخلیق کر رہے تھے جو آپ کو عہد ِ عتیق میں لے جاتی ہے۔ 
تقریب شروع ہو نے کےلئے میر غضنفر علی کے بڑے صاحبزادے، جنہیں لوگ ولی عہد پرنس شاہ سلیم خان کَہہ کر بلا رہے تھے، کا انتظار ہو رہا تھا۔ تھوڑی دیر میں ایک خوش قامت، خوش شکل اور توانا آدمی سفید شلوار قمیض پر بھورے رنگ کی گرم واسکٹ پہنے چوبی زینے سے اوپر آیا۔ سب لوگ اس کے احترام میں کھڑے ہو گئے۔ یہی ولی عہد پرنس میر سلیم خان تھے۔
 ”پہلے تو فلم مغل ِ اعظم میں ہی دیکھا تھا آج زندگی میں سچ مچ کا شہزادہ سلیم بھی دیکھ لیا۔“ معاویہ نے میرے کان میں سرگوشی کی۔ (جاری ہے )
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم “ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں )ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں ۔