بجلی سستی ہوئی یا یہ دو ماہ کا تحفہ ہے؟
پنجاب حکومت کی ترجمان عظمیٰ بخاری نے فرمایا ہے کہ پنجاب کے عوام کو میاں نواز شریف نے بجلی ریلیف کا تحفہ دیا ہے محترمہ کو زندگی میں بہت تحفے ملے ہوں گے لیکن لگتا ہے کہ محترمہ تحفے کے معانی سے لاعلم ہیں، ویسے تو پاکستان میں ہر چیز کو تحفہ قرار دیا جاتا ہے اگر کسی کھیل میں کوئی کھلاڑی یا ٹیم جیت جائے تو کہتے ہیں کہ ہم نے پاکستان کو جیت کا تحفہ دیا ہے (جب ہارتے ہیں تو پھر دوسرے ممالک کو جیت کا تحفہ دیتے ہیں؟)
پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کا تعین عام طور پر بین الاقوامی مارکیٹ کے مطابق ہوتا ہے کیونکہ یہ بین الاقوامی تجارت ہے اور پاکستان بیرون ممالک سے ہی تیل کی خریداری کرتا ہے قیمتوں میں ردو دل بھی بین الاقوامی قیمتوں کے مطابق ہی ہوتا ہے لیکن جب ہماری حکومت پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کرتی ہے تو اسے عوام کے نام تحفے سے منسوب کر دیتی ہے جب مہنگا کرتی ہے تو بین الاقوامی قیمتوں کا رونا رو دیتے ہیں کسی کو تحفہ دینا ایک خوبصورت جذبے کا اظہارِ ہوتا ہے لوگ اپنے پیاروں کو تحفے دیتے ہیں،اپنے دوستوں کو تحفے دیتے ہیں ان تحفوں کی بہت قیمت اور قدر ہوتی ہے عام طور پر چند سو روپوں کا ایک قلم جب کوئی تحفے میں دیتا ہے تو وہ لاکھوں کی قدر پاتا ہے تحفے کی خاص بات یہ ہوتی ہے کہ وہ بندہ اپنی استطاعت کے مطابق اپنی جیب سے دیتا ہے جو چیز حکومت سرکاری خزانے سے دیتی ہے وہ تحفہ نہیں بلکہ عوام کے پیسوں کی درست تقسیم اور ترجیحات کا تعین ہوتا ہے حکومت دیکھتی ہے کہ خزانے میں کیا ہے اس کو کہاں اور کیسے خرچ کرنا ہے نیز عوام کی ضروریات کیا ہیں،فوری ضرورت کیا ہے وغیرہ وغیرہ، میاں نواز شریف نے وزیراعلیٰ بیٹی کے ساتھ بیٹھ کر پریس کانفرنس میں پنجاب کے عوام کو 14روپے فی یونٹ بجلی بلوں میں ریلیف دینے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ پنجاب حکومت ترقیاتی بجٹ سے 45ارب نکال کر عوام کو بجلی بلوں میں ریلیف دے گی جو اگست اور ستمبر کے بلوں پر دیا جائے گا۔
اب پہلا سوال یہ ہے کہ کیا واقعی بجلی 14 روپے فی یونٹ سستی کی گئی ہے؟بادی النظر میں ایسا نہیں لگتا کیونکہ بجلی سستی تو نیپرا کرتا ہے یا پھر پاکستان حکومت کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ عوام کو کسی مد میں سبسڈی دے میاں نواز شریف حکومت کا حصہ نہیں ہیں نہ انہوں نے حکومت کو بجلی سستی کرنے کا کہا ہے. ابھی تک یہ بھی واضح نہیں کہ یہ ریلیف صرف دو ماہ کے لیے ہے یا مستقل طور پر دیا جائے گا، اگر مستقل ہے تو پھر دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا ہر ماہ یا ہر سال ترقیاتی بجٹ اور دوسری مدات سے پیسہ نکال کر ایسا کیا جائے گا یا بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں سے بجلی سستی کروائی جائے گی نیز آئی ایم ایف اسے قبول کر لے گا؟
یہ تو پھر عوام ہی کے پیسے کو ادھر سے ادھر کیا گیا ہے پھر تحفہ کیسا؟ تیسرا سوال یہ کہ پنجاب کے علاوہ دوسرے چار صوبوں کے عوام پاکستان کے عوام نہیں ہیں کیا؟ یا ان سے کوئی بڑا جرم سرزد ہوا ہے؟
جب عمران خان کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد ہوا تھا اس وقت پاکستان میں بجلی کی اوسط قیمت لگ بھگ 16 روپے فی یونٹ تھی جو اب 50 روپے تک پہنچ گئی ہے.اس کا مطلب یہ ہے کہ نگران اور میاں شہباز شریف کی حکومت نے اوسطاً 36 روپے فی یونٹ بجلی مہنگی کی ہے اس کے علاوہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بھی 80 فیصد سے زائد اضافہ کیا ہے گیس بھی مہنگی ہوئی لیکن پاکستان کے قرضے کم ہونے کی بجائے کئی گنا بڑھ گئے ہیں تو پھر یہ بھی سوال ہے کہ یہ قیمتوں کے اضافے والی رقم کہاں جا رہی ہے؟اب صرف ان پنجابیوں کے لیے جو 500 یونٹ تک بجلی استعمال کریں گے 14 روپے بجلی سستی کر کے ان کا ترقیاتی بجٹ کم کیا گیا ہے تو یہ ریلیف کیا ہوا؟یہ تو عوام کو وقتی لولی پاپ دینے کے مترادف ہے ویسے میاں نواز شریف صاحب کس حیثیت میں بجٹ میں ردو بدل کر رہے ہیں؟ اگر میاں صاحب کو واقعی عوام کا درد ہے اور واقعی جانتے ہیں کہ عوام کس کرب سے گزر رہے ہیں تو پھر اپنی جماعت کی حکومت کو فوری حکم دیں کہ بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں کے ساتھ کیے گئے معاہدوں پر نظرثانی کی جائے اور بجلی بلوں پر لگائے گئے ظالمانہ ٹیکسز کا فوری خاتمہ کیا جائے اور اس کے ساتھ ساتھ عوام کی قوت خرید میں اضافہ کرنے کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کیے جائیں، اگر میاں برادران کو واقعی غریب عوام کے کرب کا احساس ہے تو پھر مراعات یافتہ طبقے کی مراعات میں کمی کر کے اور حکومتی اخراجات کو بہت زیادہ کم کر کے اشیاء ضرورت کی قیمتوں میں کمی لا کر عوام کو حقیقی ریلیف دیا جائے،اس ملک میں جو لاکھوں سرکاری گاڑیاں چلتی ہیں اگر وہ کچھ کم ہو جائیں تو کیا فرق پڑتا ہے؟ کیا سرکاری افسر گاڑیوں کے بغیر اپنے دفاتر تک نہیں پہنچ سکتے؟ جن کی تنخواہیں لاکھوں میں ہیں ان کو سرکاری گاڑیاں، سرکاری گھر، حکومتی خرچے پر ملازمین کی فوج اور مفت پٹرول دیا جاتا ہے اور جو بیروزگار یا ہزاروں میں تنخواہ لیتے ہیں ان پر بجلی بلوں اور دوسرے اخراجات کا بوجھ ڈالا جاتا ہے تو پھر ہم کیسے مان لیں کہ آپ کو واقعی غریب عوام کا دکھ ستاتا ہے؟ کیا اس ملک کی اشرافیہ کوئی قربانی نہیں دے سکتی؟ کیا ہمارے سول و فوجی بیورو کریٹس، وزراء، ججز صاحبان اور سرکاری اداروں کے افسر صرف چند سال کے لیے کچھ مراعات کے بغیر گزارہ نہیں کر سکتے؟ حالانکہ یہ لوگ ان تمام مراعات کے ساتھ ساتھ کروڑوں اربوں کی کمائی بدعنوانی سے بھی کرتے ہیں ابھی چند دن پہلے کی آڈٹ رپورٹ کے مطابق وزارت خارجہ کے بیرون ممالک سفارت خانوں میں ایک سال میں ڈیڑھ ارب کی کرپشن کا انکشاف ہوا ہے اسی طرح ہر ہفتے مختلف اداروں کی اربوں روپے کی کرپشن کی کہانیاں سامنے آتی ہیں پھر انہی لوگوں کو اتنی زیادہ مراعات کیوں دی جاتی ہیں؟